سماج میں بڑھتے ہوئے تنازعات افسوسناک - پرنب مکرجی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-01-20

سماج میں بڑھتے ہوئے تنازعات افسوسناک - پرنب مکرجی

سماج میں بڑھتے ہوئے تنازعات افسوسناک: پرنب مکرجی
ڈائٹن
پی ٹی آئی
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے سماج میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور اختلافات رائے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ باہمی پاس و لحاظ میں اضافہ کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ صدرجمہوریہ کے یہ ریمارکس ملک بھر میں مختلف مسائل پرجاری احتجاج کے تناظر میں سامنے آئے۔ ریاست مغربی بنگال کے ضلع مغربی مدناپور کا ایک چھوٹے ٹاؤن میں28ویں ڈانٹن گرامین میلہ کا افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ آج کل جب ہم اخبار پڑھتے ہیں اورٹی وی دیکھتے ہیں، ہردن تشدد کی خبریں ملتی ہیں۔ میں بین الاقوامی سطح پر تشدد کی بات نہیں کررہا ہوں لیکن میں ہمارے ذہنوں میں موجود تشدد ہمارے شعور اور ہماری روح میں موجود تشدد کی بات کررہا ہوں۔ انہوں نے مغربی بنگال کے بھنگار میں ایک پاور سب اسٹیشن کی تعمیر کے خلاف احتجاج ، ٹاملناڈو میں جلی کٹو پر پابندی کے خلاف احتجاج کے تناظر میں پرنب مکرجی نے کہا کہ میں دن بدن وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے واقعات کی بات کررہاہوں نہ کہ بین الاقوامی تشدد کی بات کررہا ہوں۔ سماج میں پہلے بھی تنازعات اور اختلاف رائے پایا جاتا رہاہے لیکن اب اس قسم کی صورتحال میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ پرنب مکرجی نے کہا کہ پہلے بھی اس طرح کے تنازعات کا مقامی سطح پر تدارک کیاجاتا تھا ۔ اب یہ ہر چیز کی طرح پھیل رہا ہے ۔ دنیاکے مزید پرتشدد ہوجانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے کہا یہ انسانی سماج کی عمومی طرز نہیں ہوسکتا۔ عوام میں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں اور مسترد نہیں کرتے۔ انسانی نفسیات میں ایک دوسرے سے پیار ومحبت پایاجاتا ہے نہ کہ نفرت پھیلانا۔ اس موجودہ صورتحال میں احترام کو تقویت پہنچانے کی سخت ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے عوام تشد د کے واقعات سے واقف نہیں ہوتے تھے لیکن اب میڈیا کے اہم رول اداکرنے کے باعث عوام میں ان تعاون سے انہیں واقفیت حاصل ہورہیہے ۔ ڈانٹن گرامین میلہ میں خطاب کرتے ہوئے پرنب مکرجی نے کہا کہ اس طرح کا دیہاتی ماحول عوام میں بھائی چارگی، یکجہتی اور پرامن بقائے باہم کی امید اجاگرکرتے ہیں ۔ آپ اس طرح کے میلہ شہروں میں نہیں دیکھ سکتے ۔ ہمیشہ یہاں عوام بہت زیادہ جمع ہوتے ہیں۔ اس قسم کے میلوں سے دیہی علاقوں کی اندرونی حسیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ پرنب مکرجی نے کہاکہ اس طرح کے میلے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان ایکد وسرے سے شخصی تعلقات میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں ۔ عالمی تناظر میں ان میلوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اپنی یادداشت سے معروف بنگلہ قلمکار تارا شنکر بندوپادھیائے کے چند سطور سناتے ہوئے کہا کہ جب مین میلہ میں جاتا ہوں تو کہنا کیا ہوتا ہے، جہاں گیت نہیں رکتے اور وہاں ہر طرف روشنی ہوتی ہے ۔ پرنب مکرجی نے کہاکہ ڈانٹن جو ڈنڈا بھکتی کے نامسے بھی جاناج اتا ہے ، پوری کے جگناتھ مندر کی طرف جانے والے راستہ پر واقع ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ16ویں صدی میں چیتیا مہاپربھو اس راستہ سے گزرے تھے ۔ یہ علاقہ کئی تہذیبوں اور تاریخوں کی آماجگاہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈانٹن ہنوز ادب، کلچر اور اختراعیت کے دولت سے مالا مال ہے۔ اس موقع پر مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی، سابق چیف منسٹر اڈیشہ گریدھر گومنگ، ریاستی بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، ڈانٹن گرامین میلہ کمیٹی کے صدر الوک نندی بھی موجود تھے ۔ اس موقع پر صدر جمہوریہ نے اس مسیلہ کے27برسوں سے انعقاد کے لئے ڈانٹن گرامین میلہ کے کارکنوں کی ستائش کی۔
Conflict, difference of opinion growing in society: Prez

یوپی میں صرف کانگریس سے مفاہمت، سماج وادی پارٹی کا اعلان
لکھنو
پی ٹی آئی
اتر پردیش میں بی جے پی کے خلاف ایک عظیم اتحاد کی امیدیں اس وقت موہوم ہوگئیں جب سماج وادی پارٹی نے راشٹرلوک دل کے ساتھ کسی بھی قسم کے اتحاد کو مسترد کردیا تاہم یہ دعویٰ کیاکہ صرف کانگریس کے ساتھ ہی اتحاد قائم کیاجائے گا۔ سماجو ادی پارٹی کے قومی نائب صدر کرن مائے نندا نے بتایا کہ ہم آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کررہے ہیں صرفکانگریس کے ساتھ اتحاد ہورہاہے ۔ سماج وادی پارٹی 403رکنی اسمبلی میں300نشستوں پر مقابلہ کرے گی اور بقیہ نشستیں کانگریس کو دی جائیں گی ۔ آر ایل ڈی کے ساتھ نشستوں کی تقسیم پر کوئی بات چیت نہیں ہورہی ہے ۔ نندا نے بتایاکہ ایس پی نے پہلے اور دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لئے امید واروں کی فہرست کو قطیعت دے دی ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو اس کا اعلان کریں گے ۔ جہاں تک اتحاد اور نشستوں کی تقسیم کا سوال ہے چیف منسٹر اکھلیش یادو نے پارٹی کے سینئر قائدین کے ساتھ تقریباً چھ گھنٹے تک مسلسل تبادلہ خیال کے بعد یہ فیصلہ لیا ہے کہ اتحاد صرف کانگریس کے ساتھ کیاجائے گا ۔ ذرائع نے بتایا کہ آر ایل ڈی سماج وادی پارٹی کی جانب سے دی جارہی نشستوں سے زیادہ کا مطالبہ کررہی تھی اور بصورت دیگر اس نے اتحاد سے علیحدگی کی دھمکی دی تھی ۔ نندا نے دعویٰ کیا ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتھاد کے بعد سماج وادی پارٹی کو یوپی میں واضح اکثریت حاصل ہوگی اور اکھلیش یادو ایک مرتبہ پھر چیف منسٹر ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی جلدہی انتخابی منشور جاری کرنے والی ہے ۔ آر ایل ڈی ترجمان انل دوبے نے بتایا کہ ہم ہماری پسند کی نشستوں کا مطالبہ کررہے تھے تاہم اس پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔2015ء کے اسمبلی انتخابات میں بہار میں عظیم اتحاد کے قیام کواس وقت دھکا لگا تھا جب سماجوا دی پارتی نے آر جے ڈی اورجے ڈی یو اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کردیاتھا۔ بہار میں ایس پی نے27نشستوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن بعد میں اس نے12نشستوں پر مقابلہ کرنے سے اتفاق کرلیا تھا لیکن عظیم اتحاد میں اسے صرف پانچ سیٹیں دی جارہی تھیں۔ دریں اثناء اتر پردیش میں دوسرے مرحلہ کے لئے نامزدگیاں داخل کرنے کا عمل کل سے شروع ہوگا۔اس مرحلہ کے لئے15فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ دوسرے مرحلہ میں 11اضلاع کے67حلقوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جن میں مغربی اتر پردیش کے مسلم اکثریتی اضلاع شامل ہیں۔ دوسرے مرحلے کے لئے اعلامیہ کل جاری کیاجائے گا۔ نامزدگیاں داخل کرنے کی آخری تاریخ27جنوری ہے۔ یکم فروری تک نامزدگیاں واپس لی جاسکتی ہیں اور رائے دہی15فروری کو ہوگی ۔ اتر پردیش میں 11فروری سے 8مارچ تک سات مرحلوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جن اضلاع میں دوسرے مرحلہ میں انتخابات منعقد ہوں گے ۔ ان میں سہارنپور ، بجنور، مراداباد، سنبھل، رامپور،بریلی، امروہہ، پیلی بھیٹ، کھیری، شاہجہاں پور، اوربدایوں شامل ہیں ۔ تقریباً2.28کروڑ رائے دہندے جن میں1.04کروڑ خواتین شامل ہیں اس مرحلہ میں اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کریں گے۔67حلقوں مین 2012ء کے انتخابات میں سماجو ادی پارٹی کو34نشستیں ملیں تھیں جب کہ بی ایس پی نے18نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کے امید وار دس نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے جب کہ کانگریس کو تین، پیس پارٹی کو اور اتھاد ملت کونسل کو ایک ایک نشست ملی تھی۔ اس مرحلہ میں بارہ محفوظ نشستیں ہیں جن میں سے ایس پی نے 9پر اور بی ایس پی نے تین پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس مرتبہ توقع ہے کہ بی جے پی ان محفوظ نشستوں پر اپنا کھاتہ کھولے گی۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی کے لئے مسلم اکثریتی حلقے ایک سخت امتحان ثابت ہوں گے جو دلت، مسلم ووٹ بینک پر انحصار کررہی ہیں۔ اسمرتبہ بی ایس پی نے403امید واروں کے منجملہ97مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ۔ اور انتخابات کا نتیجہ یہ ظاہرے کرے گا کہ مایاوتی کا فارمولہ کس حد تک کامیاب رہا۔ سماج وادی پارٹی چیف منسٹر کا چہرہ اکھلیش یادو اور کانگریس کی تائید پرانحصار کررہی ہے اس مرحلہ میں سماج وادی پارٹی کو بھی اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اسے مسلمانوں کی کس حد تک تائید حاصل ہے ۔ اس مرحلہ کی رائے دہی سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجائے گا کہ اتر پردیش کے اگلے مرحلوں کے لئے مسلمانوںکا کیا موڈ ہے۔ ان حلقوں میں منجملہ مقابلہ بی جے پی اور ایس پی یا بی جے پی اور بی ایس کے درمیان دیکھاجارہاہے ۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی11فروری کوہوگی اوراس مرتبہ بیرسٹر اسد الدین اویسی کی قیادت میں مجلس اتحاد المسلمین بھی اترپردیش میں اپنی قسمت آزما رہی ہے ۔

مسلمانوں کو12فیصد تحفظات ، بی جے پی سخت مخالف
چیف منسٹرکے چندر شیکھر راؤ پر زعفران پارٹی کی شدید تنقید
حیدرآباد
پی ٹی آئی
بی جے پی نے تلنگانہ کے مسلمانوں کو12فیصد تحفظات دینے کے اعلان کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مسلمانوں کو12فیصد تحفظات دینے کی تجویز نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ یہ منصوبہ اقلیتی ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے کل اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت، ریاست کے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات فراہم کرے گی۔ کے سی آر کے اس بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی نے اسے نہ صرف جھوٹ کا پلندہ بلکہ اسے غیر دستوری بھی قرار دیا اور کہاکہ اقلیتی ووٹ بینک پالیسی کے لئے یہ سب کچھ کیاجارہا ہے ۔ بی جے پی تلنگانہ کے ترجمان کرشنا ساگر راؤنے یہ بات کہی۔ چیف منسٹر نے کل اسمبلی میں یہ کہا تھا کہ حکومت، پسماندہ مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہمی بل کو اسمبلی کے بجٹ سیشن میں متعارف کرائے گی۔ بارہ فیصد تحفظات کا کوٹہ حکمراں جماعت ٹی آر ایس کے انتخابی منشور کا اہم وعدہ تھا۔ چیف منسٹر نے یہ بھی واضح کردیا تھاکہ ان کی حکومت، مذہب کی اساس پر نہیں بلکہ سماجی ، تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کرے گی۔ کرشنا ساگر راؤ نے کہا کہ بی جے پی ، مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات کی فراہمی بل کی سختی کے ساتھ مذمت کرتی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اقلیتوں کے ووٹوں کے حصول کے لئے یہ سب کیاجارہا ہے اس طرح کے اقدامات دستوری عہدہ پر فائزکے سی آر کو زیب نہیں دیتے ۔ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ سپریم کورٹ نے تحفظات کی حدمقرر کی ہے ۔ اور سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا کہ مذہب کی اساس پر کسی کو تحفظات فراہم نہیں کئے جاسکتے ۔ اس کے باوجود چیف منسٹر کے سی آر، غیر معیاری بیانات جاری کررہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کے سی آر خود کو موافق مسلم، مخالف ہندو اور مخالف ایس پی ، ایس ٹی اور بی سی کا ذہن رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا یہ ماننا ہے کہ بارہ فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے میں کے سی آر صد فیصد ناکام رہیں گے ۔ کے سی آر نے کل یہ کہا تھا کہ وہ ٹاملناڈو کے طرز پر مسلمانوں کو12فیصد تحفظات فراہمی کی کوشش کریں گے ۔ کے سی آر نے یہ بھی کہا کہ مجھے امیدہے کہ مرکز، ضرور بارہ فیصد مسلم تحفظات بل کی توثیق کرے گا اور وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو ٹی آر ایس حکومت عدالت کا سہارا لے گی۔

پنڈتوں کی بحفاظت کشمیر واپسی
عمر عبداللہ کی تحریک پر جموں و کشمیر اسمبلی میں قرار داد بہ اتفاق آراء منظور
جموں
یو این آئی
جموں و کشمیر اسمبلی نے آج بے دخل کردہ کشمیری پنڈتوں کی بحفاظت وادی میں واپسی سے متعلق قرار داد کو اتفاق آراء سے منظور کرلیا۔ ایوان کی کارروائی جیسے ہی شروع ہوئی ، قائدا پوزیشن عمر عبداللہ نے وادی کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کی وادی سے نقل مکانی کے27سال گزر چکے ہیں اور اب ان کی وقار انداز میں واپسی کے لئے سازگار ماحول تیارکیاجانا چاہئے ۔ عمرعبداللہ نے اسپیکر سے اپیل کی کہ تمام اراکین کو سیاست سے اوپر اٹھ کر اس معاملہ پر بحث کرنے کے ساتھ ہی ایک تجویز لانا چاہئے۔ ریاستی وزیر ٹرانسپورٹ عبدالرحمن ویری نے عمر عبداللہ کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ سوال کے بعد اس سلسلے میں تجویز پیش کی گئی جسے متفقہ طور پرمنظوری دے دی گئی ، تاہم آزاد رکن اسمبلی انجینئر رشید نے اس تجویزپر اعتراض کیا۔ اس معاملے پر ایوان میں بی جے پی ارکان اسمبلی، ست شرما اور رویندر رانا اور عبدالرشید کے درمیان نوک جھوک بھی ہوئی۔ اس دوران بی جے پی کے اراکین ست شرماوریندر رینا کی انجینئر عبدالرشید سے تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ کچھ پنڈت تنظمیں19جنوری کو ہولو کاسٹ ڈے کے بطور مناتی ہے۔ انکا کہناہیکہ1990میں انہیں آج ہی کے دن وادی بدر کرنے کا سلسلہ شروع ہواتھا۔ خیال رہے کہ وادی میں1990میں مسلح شورش شروع ہونے کے ساتھ ہی پنڈت کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جہاںپنڈتوں کا الزام ہے کہ انہیں مسلح بندوق برداروں نے ہجرت کرنے پر مجبور کیاتھا، وہیں کشمیری مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پنڈتوں کو ایک سازش کے تحت وادی سے نکالا گیا تھا جس کامقصد کشمیری مسلمانوںکو بدنام کرناتھا۔ علیحدگی پسند تنظیموں پنڈتوں کی گھر واپسی کے حق میں ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں