ہندوستانی زبانیں اور انگریزی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-11-28

ہندوستانی زبانیں اور انگریزی

indic-languages
سن 60ء کے دہے میں جب ہم لوگ ابتدائی درجات میں تھے شمالی ہند میں انگریزی کے خلاف تحریک چلی تھی، جس کا اثر یہ ہوا تھا کہ اس دور میں جو لوگ بھی زیر تعلیم تھے ان میں سے بیشتر کی انگریزی بہت کمزور ہو گئی تھی ۔ گلوبلائزیشن کے بعد انگریزی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ ان لوگوں نے بھی ا پنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں بھیجنا شروع کردیا جو ان اسکولوں کے متحمل نہیں تھے، مثلاً نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشن پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن NUEPA کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2003-04 اور 2010-11ء کے درمیان انگریزی اسکولوں میں داخلوں کی شرح 274/ فیصد بڑھ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تو ہندوستانی زبانوں کے اسکول بند ہونے لگے اور دوسری طرف تعلیم ادھوی چھوڑ دینے والوں کی تعداد بڑھتی گئی جس پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کے معاملے میں ہندوستان دو انتہائوں کا سفر کرتا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہوتی اور جیسے جیسے طلبہ اعلیٰ درجات میں جاتے ان کی انگریزی کو بہتر بنانے کی تدبیر کی جاتی۔ اس طرح وہ اپنی تہذیب سے وابستگی کے ساتھ جدید ترین تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔
آزادی سے پہلے یہی ہوتا تھا ۔ تمام پرانے لوگ جن میں ڈاکٹر ، انجینئر، ماہر معاشیات سبھی شامل ہیں انگریزی میں ماہر ہونے کے ساتھ ا پنی مادری زبان سے واقف تھے۔ بعد میں کچھ ایسی چال چلی گئی کہ مادری زبان کی تعلیم سے ایک طبقے کو محروم رکھنے کے لئے مرکزی اور علاقائی سرکاری زبان کو اس طرح مسلط کرنے کی کوشش کی گئی کہ لسانی اقلیت خاص طور سے اردو بولنے والے بچے تو مادری زبان سے محروم ہوتے ہی گئے ہندی اور علاقائی زبان کی تعلیم پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔ ایک طبقے نے جس میں آر ایس ایس بھی شامل ہے اس صورتحال کے خلاف آواز بلند کی اور اب ایسا محسوس ہورہاہے کہ حالات دوسرا رخ اختیار کررہے ہیں۔

سویڈن کے ایک تعلیمی ادارے ای ایف ایجوکیشن فرسٹ نے ان ملکوں مین جہاں کے لوگوں کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے انگریزی بولنے اور انگریزی میں کام کرنے کی صلاحیت کے سلسلے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان چین سے پچھڑ گیا ہے ۔ پچھلے سال اس سلسلے کی فہرست مین ہندوستان 20ویں نمبر پر تھا مگر اب وہ 22ویں نمبر پر ہے جب کہ چین اپنے پچھلے مقام سے آٹھ نمبر اوپر جاکر 39ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ مذکورہ ادارہ ان ملکوں میں جہاں انگریزی مادری زبان کے طور پر نہیں بولی جاتی انگریزی بولنے یا انگریزی زبان میں کام کرنے کی صلاحیت کا اندازہ یا تجزیہ کرتا ہے ۔ اس مرتبہ 72 ملکوں کے ساڑھے نو لاکھ نوجوانوں کے درمیان کرائے گئے ای ایف اسٹینڈرڈ انگلیش ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چین میں ایسے لوگوں کی تعداد اور صلاحیت بڑھی ہے جو انگریزی بولنے کے علاوہ انگریزی میں کام کرسکتے ہیں جب کہ ہندوستان میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوئی ہے ۔
یہ حیرت کی بات ہے، کیونکہ ہندوستان میں مشنری اسکول تو ہیں ہی انگریزی ذریعہ تعلیم کے غیر مشنری اسکولوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔ انگریزی بطور مضمون سکھانے کا انتظام تو تقریباً تمام اسکولوں میں ہے ۔ اس کے باجود یہ صورتحال شاید اس لئے پیدا ہوئی کہ یہاں انگریزی پڑحانے میں یکسانیت نہیں ہے۔ مشنری اسکولوں کی انگریزی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے دوسرے اسکولوں کی انگریزی میں بہت فرق ہے ۔ اس کے علاوہ کالجوں اور اسکولوں میں بحیثیت مضمون جو انگریزی پڑھائی جاتی ہے وہ کچھ الگ قسم کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی محسوس کی جا سکتی ہے کہ ایک طبقہ اگر بالکل انگریز بننے پر تلا ہوا ہے تو دوسرا انگریزی کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ دونوں رویے صحیح نہیں ہیں، انگریزی سیکھ کر کوئی انگریز نہیں ہوسکتا اس کو بہرحا ل ہندوستان میں ہی رہنا ہے اس لئے اپنی زبان و تہذیب کا سیکھنا اس کے لئے ضروری ہے ۔
اس کے برعکس جو لوگ انگریزی سیکھنے اور پڑھنے کے مخالف ہیں وہ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں جب انگریزی کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی ہی کی نہیں عالمی رابطے کی زبان ہے وہ اپنی ترقی کی راہیں بند کر رہے ہیں۔ انگریزی دشمنی یا انگریزی کی مخالف ذہنیت کی کسی طرح بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے مذکورہ رپورٹ کے پس منظر میں جہاں اس بات پر غور کرنا ضروری یہ کہ آزاد ہندوستان میں کم از کم انگریزی زبان کے معاملے میں غلامانہ ذہنیت کیوں پنپ رہی ہے وہیں اس سوال پر غور کرنا بھی ضروری ہے ، کہ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں تو ہندوستانی انگریزی بولنے اور اور کام کرنے کے سلسلے میں اپنے ہی قائم کردہ ریکارڈ کو برقراررکھنے میں کیوں ناکام ہیں؟

اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے اس اچھے پہلو پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ زبان کے مسئلہ میں جس طرح لوگ پہلے سوچتے یا جذباتی ہوجاتے تھے اب وہ بات نہیں رہ گئی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا اور انگریزی، ہندی اخبارات میں تو اردو الفاظ کی پذیرائی ہوہی رہی ہے اردو پڑھنے اور سیکھنے کی خواہش بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ سیاسی سطح پر بھی اردو مخالف حلقے سمٹ رہے ہیں مگر اردو دوستوں کا ا پنا کوئی لائحہ عمل نہ ہونے کے سبب اردو کو وہ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے جو پہنچنا چاہئے تھا۔
ایک تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے اردو اسکولوں کے طلبہ انگریزی ہی نہیں اردو میں بھی بہت کمزور ہیں۔ اس لئے ہندوستانی معاشرہ میں یہ احساس جگانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہندوستان کی ہر زبان اپنے اپنے دائرے میں اہمیت کی حامل ہے اور ہندوستانیوں کی تہذیبی ضرورتیں ان ہی زبانوں میں تعلیم دئیے جانے سے پوری ہوں گی۔ اردو بھی ہندوستان کی زبان ہے اور ہندوستانیت کی جتنی خوبصورت ترجمانی اردو کرتی ہے وہ دوسری زبانوں کا مقدر نہیں ہے ۔ اس کو بدیسی سمجھنے ، بدیسی ثابت کرنے اور اس کی تعلیم و تدریس میں رکاوٹ کھڑی کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کر دینے واے اب اس بات کا ماتم کررہے ہیں کہ انگریزی کے مقابلے میں ان کی زبان کو کمتر سمجھاجارہا ہے ۔ اب ان کو یہ سمجھانا آسان ہوگیا ہے کہ ہر زبان بولنے والے کے احساسات ہیں ، ہر زبان اہمیت کی حامل ہے اور اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہو اور جیسے جیسے تعلیمی سلسلہ آگے بڑھے انگریزی پر توجہ میں اضافہ کیاجاتا رہے ۔
انگریزی سے نفرت یا انگریزی سے اتنی محبت کہ قومی زبانوں کے اسکول بند ہونے لگیں کسی خوشگوار نتیجے کی حامل نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے ای ایف ایجوکیشن فرسٹ کی رپورٹ پر وسیع تر تناظر میں غورازحد ضروری ہے ۔ اپنی زبان یا ہندوستانی زبانوں سے محبت کرنے کا مطلب انگریزی سے دستبردار ہونا یا انگریزی میں کمزور ہونا نہیں ہے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر ہندوستانی طالب علم اپنی مادری زبان کے ساتھ انگریزی پر بھی عبور حاصل کرے۔

English and Indic languages. Article: Shamim Tariq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں