ذاکر نائیک اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن پر عنقریب امتناع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-28

ذاکر نائیک اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن پر عنقریب امتناع

28/نومبر
نئی دہلی
آئی اے این ایس
متنازعہ اسلامی اسکالر ذاکر نائیک کی اسلامی ریسرچ فائونڈیشن پر مخالف دہشت گردی قانون کے تحت جلد ہی امتناع عائد کردیاجائے گا، جب کہ وزارت داخلہ ایک کابینہ مسودہ تیار کررہی ہے ۔ اسلامی ریسرچ فائونڈیشن (آئی آر ایف) کو جلد ہی غیر قانونی اسوسی ایشن قرار دے دیا جائے گا۔ جو کہ غیر قانونی کارروائیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت کیا جائے گا۔ تحقیقات کے بعد وزارت دخلہ کو پتہ چلا کہ اس کے مبینہ طور پر پیس ٹی وی سے روابط ہیں جو کہ بین الاقوامی چینل ہے ، جس پر دہشت گردی کو اکسانے کا الزام ہے، ایک عہدیدار نے بتایا۔ تیار شدہ مسوہ کے مطابق جس میں کئی نکات مہاراشٹر پولیس کی تفتیش پر شامل کئے گئے ، نائیک جو آئی آر ایف کے صدر ہیں، نے مبینہ طور پر کئی بھڑکانے والی تقاریر کی ہیں جو کہ دہشت گرد پروپیگنڈہ سے متعلق ہے ۔ مہاراشٹرا پولیس نے نائیک کے خلا ف کئی فوجداری مقدمات بھی درج کئے ہیں ، جو کہ ان کی جانب سے نوجوانوں کو شدت پسندی پر اکسا کر انہیں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کرنا ہے ، ایک اطلاع میں کہا گیا ۔ نائیک نے آئی آر ایف کو وصول کردہ بیرونی فنڈز کو پیس ٹی وی کے لئے منتقل کئے تاکہ متنازعہ پروگرامس کو نشر کیاجاسکے ۔ کئی پروگرام جو ہندوستان ہی می تیار کئے گئے ، میں نائیک کی جانب سے نفرت پیدا کرنے والے خطابات تھے جس میں مبینہ طور پر تمام مسلمانوں کو دہشت گردی کرنے کے لئے کہا گیا ، جو کہ پیس ٹی وی سے نشر کئے گئے ، اطلاعات میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا۔ دو تعلیمی ٹرصت جوکہ نائیک کے تحت کارکرد ہیں کو بھی وزارت دخلہ اور ایجنسیوں کے تحت تفتیش کے دائرے میں لے لیا گیا ہے تاکہ ان کی کارروائیوں پر نظر رکھی جاسکے ۔ یہ تیارکردہ مسودہ جلد ہی مرکزی کابینہ میں پیش کیاجائے گا، جس کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی کریں گے، تاہ وہ اس کو منظوری دے سکیں۔ نائیک پر الزام ہے کہ وہ نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کررہے ہیں جس کے لئے وہ بیرونی فنڈز وصول کرتے ہیں ۔ انہیں سیکوریٹی ایجنسی نے بنگلہ دیش اخبار ڈیلی اسٹار کی خبر جس میں یکم جولائی کو ڈھاکہ حملہ کے ملزمین روہن، امتیاز کے فیس بک پر ذاکر نائک کے خطابات کا حوالہ دینے کا ذکر کیا گیا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں