منفرد افسانہ نگار و نامور صحافی م۔ناگ کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-21

منفرد افسانہ نگار و نامور صحافی م۔ناگ کا انتقال

Meem Naag
اردو کے منفرد افسانہ نگار اور نامور صحافی م۔ ناگ (اصل نام: مختار سید) آج بروز جمعہ شام ساڑھے چار بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انہیں کئی مہینوں سے پھیپڑوں کا عارضہ لاحق تھا اور ان کی صحت مستقل خراب ہو رہی تھی۔ م۔ناگ کی اکلوتی بیٹی ثناء کے مطابق انہوں نے جیا ٹاکیز کمپاؤنڈ (بوریولی) میں واقع اپنی رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔

م۔ناگ کی پیدائش یکم جولائی 1950 کو ناگپور میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ کیا تھا۔ ان کا پیدائشی نام مختار سید تھا لیکن جدیدیت کی تحریک کے دوران جب عام روش سے ہٹ کر چونکانے والا نام رکھنے کا رواج چل پڑا تو انہوں نے اکرام باگ کے نام سے متاثر ہوکر اپنا نام "م۔ناگ" رکھ لیاتھا۔ انہوں نے مختار سے "م" اور ناگپور سے "ناگ" اخذ کیا تھا اور ناگپور میں نام تبدیل کرنے کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں ندا فاضلی اور شاہد کبیر نے بھی شرکت کی تھی۔
م۔ناگ کے والد پولس محکمہ میں افسر تھے، ان کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری اور انہوں نے ساری زندگی اردو کے ادیب اور صحافی ہونے کا قرض چکایا اور کبھی فراغت نصیب نہیں ہوئی ۔ م۔ناگ اپنے حلقے میں بے حد مقبول تھے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے "ڈاکو طے کریں گے"، "غلط پتہ" اور "چوتھی سیٹ کا مسافر" شائع ہوکر مقبول ہو چکے ہیں۔ ادبی جریدہ "نیا ورق" میں ناول "دکھی من میرے" قسط وار شائع ہو رہا تھا اور افسانوں کا ایک اور مجموعہ "پھٹی کتاب" زیر ترتیب تھا۔
م۔ناگ طویل صحافتی تجربہ بھی رکھتے تھے اور ودربھ نامہ (ناگپور) ، روزنامہ تعمیر (بیڑ)، اردو ٹائمز (ممبئی)، روزنامہ راشٹریہ سہارا(ممبئی) اور روزنامہ صحافت (ممبئی) سے بھی منسلک تھے۔ علاوہ ازیں ہفت روزہ بلٹنر ،روزنامہ انقلاب، ہندی جن ستہ اور ہفت روزہ مسلم ٹائمز کے لئے بھی انہوں نے کام کیا تھا۔

م۔ناگ کی تدفین جمعہ کی شب بوریولی کے ایکسر نامی گاؤں میں ہوئی۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ سعیدہ کے علاوہ ایک بیٹی ثناء (میرا روڈ، ممبئی) اور بیٹا جنید امریکہ میں مقیم ہے۔
ناگپورکے مشہور شاعر ظفر کلیم نے ان کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا: "وہ ایک بڑے نثر نگار، مخلص آدمی اور سادگی کے پیکر تھے اور جو ان سے ایک بار ملتا تھا اس کا دل ان سے بار بار ملنے کو تڑپتا تھا"۔
ناگپور کے ایک اور ادیب وکیل نجیب کے بقول "م۔ناگ کی موت اردو افسانچہ اور افسانے کا زبردست نقصان ہے وہ اپنے اسلوب کے منفرد افسانہ نگار تھے اور یہ اسلوب ان کا اپنا ایجاد کردہ تھا"۔
شاداب رشید کے مطابق: "وہ میرے والد کے بے حد قریب تھے جس کی وجہ سے میری بھی ان سے قربت رہی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ان کی گرتی طبیعت کو دیکھ کر مجھے تشویش لاحق تھی"۔
ڈرامہ نویس اسلم پرویز نے کہا "ہم لوگ افسانوں کی وجہ سے م۔ناگ اور م۔ناگ کی وجہ سے افسانوں کو پہنچاتے تھے۔ وہ شہر کے ایسے افسانہ نگار تھے جن کا افسانہ پڑھتے ہی ان کا نام ذہن میں ابھرتا تھا کہ یہ افسانہ م۔ناگ کا ہے۔ وہ اپنی نسل کے اوریجنل افسانہ نگار تھے۔ ان کے ہاں سیکس کے ساتھ ہیومر بھی تھا جو انہیں سب سے ممتاز بناتا تھا"۔
م۔ناگ کے انتقال پر افسانہ نگار عبدالعزیز خان، فاروق سید، اشتیاق سعید، انور مرزا، ناول نویس رحمن عباس، سلام بن رزاق، شجاع الدین شاہد، اقبال نیازی، قاسم امام، سرفراز آرزو، آفتاب حسنین، اسلم کرتپوری، کلیم ضیاء، طارق اقبال، مشرف شمسی، عبدالاحد ساز، انور قمر، خلیل زاہد، سکندر مرزا اور شمیم عباس کےعلاوہ ادبی و صحافتی حلقے کے تقریباً ہر فرد نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

Demise of urdu writer and journalist Meem Naag

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں