اردو افسانچہ - کل آج اور کل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-04

اردو افسانچہ - کل آج اور کل

urdu-afsancha

تغیر، ہمیشہ ہر عہد میں وقوع پذیر ہو تا رہتا ہے۔تغیر نئے جہان معنی کی تعمیر کرتا ہے،تغیر ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کے لیے حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔ اسی تغیر کی بنا پر تحریکات و انقلاباب رو نما ہوتے رہتے ہیں۔ادب میں بھی تغیر کے شانے پر نت نئےShadesآتے جاتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب طویل داستانیں عوام و خواص میں مقبول تھیں۔ ہفتوں اور مہینوں ایک ہی داستان اپنے مختلف رنگوں، تحیر و تجسس، داستان گو کے انداز اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کے دم پر اپنے سامعین کو باندھے رکھنے میں کامیاب رہتی تھی۔ قتل کی سزائیں بھی، داستانوں کے زیر اثر تبدیل ہو جایا کرتی تھیں۔ وقت نے کروٹ بدلی۔ صنعتی انقلاب نے لوگوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اب لوگوں کو کام ملنے لگا۔ فرصت کے لمحات اپنا بدن سمیٹنے لگے۔ طویل داستانوں کی جگہ قصوں اور حکایتوں نے لے لی۔ کم وقت میں ختم ہونے وا لے قصے عوامی پسند بن گئے۔ ایک بار پھر وقت نے پلٹا کھایا۔انسان کی مصروفیت میں مزید اضافہ ہو تا گیا۔ 19 ویں صدی کے نصف اول کے بعد ناول سامنے آیا۔ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔داستان کی مقبولیت میں بتدریج کمی وا قع ہو تی گئی۔ ناول نے زندگی کے حقائق کو کچھ اس طور پیش کرنا شروع کیا کہ آہستہ آہستہ عوا می پسند بنتا گیا۔
ابھی ناول مقبولیت کے آسمان سر کر ہی رہا تھا کہ افسا نہ کا بھی وجود سامنے آگیا۔ افسا نے نے مقبولیت کے نئے آسمان سر کیے۔ ناول بھی بتدریج عروج پذیر ہوتا رہا۔ افسا نے کا گراف بھی مسلسل بلند ہو تا رہا۔ اسی دوران افسانچے نے بھی ادب میں قدم رکھا۔ابتدا میں افسانچے کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن آزادی کے بعد افسانچے نے اپنے قدم جمانے میں کامیابی حا صل کر لی۔
بعض حضرات کا ماننا ہے کہ اردو میں افسانچے ،مغرب کے او۔ہنری اور خلیل جبران کی تقلید میں سامنے آ ئے ۔میرا خیال ہے ایسا کہنا غلط ہو گا کیوں کہ مغرب میں تو نہ جانے کیا کیا،کس کس طور لکھا جاتا ہے۔55فکشن،سو الفاظ پر مشتملdrabbleفلیش فکشن،مائکرو فکشن اور تازہ بہ تازہ پوپ کہانی،وغیرہ وغیرہ الم غلم اصنافWriting Fashion کے طور پر رائج ہیں۔ان میں سے کتنی،ہندوستانی ادب خصوصاً اردو نے قبول کیں۔
اگر منٹو نے او،ہنری یا خلیل جبران کی نقل یا تقلید میں سیاہ حاشیے، قلم بند کیے تھے،تو منٹو کو علم ہو تا کہ وہ ایک نئی صنف اردو میں متعارف کرا رہے ہیں اور ایسا کرتے وقت منٹو اس صنف کے موضو عات،ہےئت، اجزائے ترکیبی وغیرہ کا بھی لحاظ رکھتے لیکن ایسا کچھ بھی سیاہ حاشیے میں نظر نہیں آتا جو دانستہ طور پر تحریر کیا گیا ہو۔
افسانچہ لفظ اردو میں کب استعمال ہوا اور کس کے ذریعہ ہوا؟ یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ افسانچہ اردو میں سعادت حسن منٹو کے سیاہ حاشیے سے شروع ہوا۔ سیاہ حاشیے کی اشاعت اول اکتو بر 1948ء میں عمل میں آ ئی۔ اس عہد میں اردو میں لفظ افسانچہ رائج نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ پرو فیسر محمد حسن عسکری نے منٹو کے سیاہ حاشیے کو افسانے ہی کہا ہے، ہاں کہیں کہیں وہ انہیں لطیفے بھی کہہ گئے ہیں جو سیاہ حاشیے اور سعادت حسن منٹو دو نوں کے ساتھ نا انصا فی ہے۔ میں نے لفظ افسانچے کے سب سے پہلے استعمال کی تحقیق شروع کی تو کوئی خاص نتیجہ نہیں ملا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ افسانچے سے قبل ان کے لیے استعمال ہو نے وا لے متعدد الفاظ مِنی کہانی، مختصر ترین افسا نہ، مختصر مختصر کہانی، مِنی افسا نہ،سامنے آ ئے۔ افسانچہ کے تعلق سے موجودہ عہد کے افسانچہ نگاروں اور ناقدوں میں بشیر مالیر کو ٹلوی، عظیم راہی، ایم اے حق، مناظر عا شق ہر گانوی سے گفتگو کی۔رسائل کے پرانے شمارے دیکھے۔کتب خانوں کی خاک چھانی۔اس سلسلے میں عظیم را ہی نے بتایا کہ ان کی جو گندر پال سے 1981ء میں گفتگو ہوئی تھی۔ لفظ افسانچہ انہیں کا دیا ہوا ہے۔منا ظر عا شق ہر گانوی نے مدلل تصدیق کرتے ہو ئے کہا کہ انہیں جو گندر پال نے کسی انٹر ویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے 1962ء میں افسانچہ کا استعمال کیا۔ اس کی تصدیق رتن سنگھ نے بھی کی بلکہ رتن سنگھ نے اس سلسلے میں اپنی رائے قدرے مختلف بیان کی۔ انہوں نے مجھے ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ اصناف کی تقسیم اختصار یا طوالت کے اعتبار سے نہیں مانتے۔ یہی سبب ہے کہ وہ طویل افسا نہ، طویل مختصر افسا نہ، مختصر افسا نہ،مِنی کہانی، مختصر مختصر افسانہ، افسانچہ وغیرہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ کہانی کو صرف کہانی ہو نا چا ہیے ،وہPiece of Artہو بس۔خواہ وہ طویل ہو یا مختصر، دو سطر کی ہو یا سو سطروں پر مشتمل۔ جو گندر پال بھی کچھ اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں:
"تحریر ذی جان ہو نے کا انحصار در اصل اس امر پر ہو تا ہے کہ اس کے وجود سے ہی اس کی ذات کا ادراک ہو جائے۔ ہمارا وجود بڑا یا چھوٹا، اسی لیے ہمیں بوجھ معلوم نہیں ہو تا کہ اس کے سارے اجزاء داخلی اور مقامی ہو نے کے با عث عین متنا سب ہو تے ہیں۔ کہانی اگر اپنے اصل تنا سب سے باہر نہ ہو تو ایک سطری ہو کر بھی پوری کی پوری ہو تی ہے ورنہ اپنی تمام تر طوالت کے با وصف ادھوری کی ادھوری"
(کتھا نگر، جو گندر پال، ص نمبر5، 1986ء)

افسانچے کی طوالت، اختصار یا اس کی تعریف کے تعلق سے ڈاکٹر عظیم راہی اپنی تحقیقی کتاب"اردو میں افسانچہ کی روایت: تنقیدی مطالعہ" میں لکھتے ہیں:
"افسانچہ ادب کی وہ نثری صنف ہے جس میں کم سے کم لفظوں میں کم سے کم سطروں میں ایک طویل کہانی کو مکمل کر لیں چونکہ ناول، افسانہ اور افسانچہ کا فرق پہلے ہی اس طرح بتایا گیا ہے کہ ناول پوری زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ جب کہ افسا نہ زندگی کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کردینے کا نام ہے۔"
(اردو میں افسانچہ کی روایت:تنقیدی مطالعہ، ڈا کٹر عظیم را ہی، ص 59،2009ء)

ڈاکٹر عظیم راہی، خود بھی افسا نہ اور افسانچہ نگار ہیں۔ لہٰذا وہ افسانچہ نگاری کے رموز سے وا قف ہیں۔ انہوں نے ناول، افسا نہ اور افسانچہ کے مابین فرق کو مثا لوں سے عمدگی کے ساتھ وا ضح کیاہے۔ لیکن افسا نچے کے تعلق سے بہت زیا دہ اختلافات ہیں۔ خاص کر افسانچے کی ہیئت کو لے کر آج تک کوئی قابل قبول رائے نہیں ملتی۔ معروف افسا نہ نگار اور کہنہ مشق افسانچہ نگار محمد بشیر مالیر کو ٹلوی نے اِدھر فن افسا نہ اور فنِ افسانچہ نگاری پر خاص توجہ صرف کی ہے۔انہوں نے اس تعلق سے کئی مضا مین قلم بند کیے ہیں۔ خود اپنے افسا نچوں کے مجمو عے"جگنو شہر" کے پیش لفظ" حسب حال" میں انہوں نے افسانچہ کے معیار اور ہےئت پر خا صا زور دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ایک کامیاب افسانچہ میں اسے ہی مانتا ہوں جسے پڑھ کر محسوس ہو کہ اس افسانچہ کو بنیاد بنا کر ایک طویل افسا نہ بھی تخلیق کیا جا سکتا تھا۔ دو جملوں کا افسانچہ میرے نزدیک طویل افسا نے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ قاری کی تشنگی نہیں مٹا سکتا۔ افسانچہ کا موضوع بھر پور چاہتا ہے۔"
(جگنو شہر، محمد بشیر مالیر کوٹلوی، ص 15،2011ء)

محمد بشیر مالیر کوٹلوی کی بات میں دم ہے کہ افسا نچے کو اتنا اور ایسا ہو نا چا ہیے، جس سے قاری کی تشنگی دور ہو سکے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ کام دو جملوں کے افسانچے نہیں کرسکتے۔ افسانچہ کھیل تما شا نہیں ہے اور نہ ہی لطیفہ بازی بلکہ افسانچہ کا موضوع بھر پور مواد کا تقاضا کرتا ہے۔وہ افسا نچے کے خدو خال اور ہےئت کے تعلق سے دو ٹوک لکھتے ہیں:
"در اصل افسانچہ پانچ سے دس سطروں کا ہی(افسانے) کا مقصد پورا کرتا ہے۔میرے نزدیک دو سطری، سہ سطری افسا نچے افسانچے نہیں ہوتے، دو سطری افسانچے، افسا نے کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔سیاہ حاشیے میں دیکھئے دو سطری زیا دہ سے زیادہ دس فیصد ہوں گے لیکن یار لوگوں نے افسانچے کو ایک سطری بنا کر ایک نئی صنف کی بنیاد ڈال دی اور خالق تاریخ ساز بن گئے۔"
(جگنو شہر، محمد بشیر مالیر کوٹلوی، ص 14،2011ء)

بشیر مالیر کوٹلوی ممتاز افسا نہ نگار ہیں۔ انہوں نے افسا نچے کو خون جگر سے سینچا ہے۔ وہ افسا نے اور افسانچے کی باریکیوں سے بھی کما حقہ وا قف ہیں۔ ان کی نظر فنی لوا زم پر بڑی سخت ہو تی ہے۔ وہ افسا نوں پر تبصرہ بھی بے لاگ کرتے ہیں۔ انہیں فی زمانہ افسا نچے کے ساتھ ہونے والے مذاق سے بہت تکلیف ہے۔ آج ہر ایرا غیرا افسا نچے میں طبع آزمائی کررہا ہے۔ نہ معیار، نہ زبان، نہ کہا نی پن.....بھونڈا پن، بے جا اختصار، تجربہ برا ئے تجربہ....ادھر افسا نچوں کے مجمو عے کی باڑھ سی آ گئی ہے۔ ہر مجمو عے میں 100 یا اس کے آس پاس افسا نچے موجود ہیں اور یہ زیا دہ تر ایک یا دو نشستوں میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ایسے افسا نچوں سے آج افسانچے کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ میں ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ افسا نچوں کا معیار روز بروز گررہا ہے۔ افسا نچے کی ہیئت کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بات قابل توجہ ہے کہ تقریباً 75 سال کے طویل وقفے کے بعد بھی، آج تک افسانچہ،صنف کا درجہ حاصل نہیں کرپایا۔کیوں؟ کیوں کہ ایک تو ابتدا سے تقریباً30۔25 برسوں تک اسے مختلف ناموں سے ہی پکارا جاتا رہا۔ افسانچہ نام ساٹھ کے دہے میں دیا گیا۔ اس کے بعد بھی کا فی زمانے تک افسانچہ، منی افسانہ، مختصر مختصر افسانہ، منی کہانی......سارے نام متوازی طور پر چلتے رہے۔ دوسرے اس کی ہیئت کبھی متعین نہ ہو سکی۔ ویسے نثری فن پاروں کی ہےئت کبھی متعین نہیں رہی۔کیا داستانوں کی طوالت کی کوئی حد مقرر ہے؟ ناولوں کی صفحات کی تعداد متعین ہے۔ طویل افسا نہ، طویل مختصر افسا نہ یا افسا نہ کے صفحات یا سطریں مقرر ہیں؟ جب ایسا نہیں ہے تو پھر افسانچے کو صفحات اور سطروں میں قید کرنا کیا اس صنف کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے۔ مغرب میں افسا نچوں یا نثری فن پاروں کو ایسی قیود میں قید کیا گیا لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج کب سامنے آ ئے۔وہاں 55 فکشن(یعنی 55 لفظوں کا فن پارہ)drabbleیعنی سو الفاظ پر مشتمل فن پارہ، فلیش فکشن( یعنی سگریٹ کے راکھ ہونے کے ساتھ ختم ہونے وا لا فکشن) وغیرہ کے تجربے ہو ئے لیکن کتنے کامیاب ہو ئے؟ پھر افسا نچے کے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ افسانچے کے چند معروف مصنفین کے افسانچوں پر ایک نظر ڈالیں۔ سعادت حسن منٹو کے سیاہ حاشیے میں ایک سطر، دوسطر، تین، چار پانچ سطروں سے 68 سطروں اور چار پانچ صفحات پر مشتمل افسانچے ملتے ہیں۔
جو گندر پال کے افسا نچوں کے مجمو عے"کتھا نگر" میں ایک ،دو، تین،پانچ سطروں سے لے کر 280 سطروں تک کے افسانچے ملتے ہیں۔ محمد بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانوی مجمو عے"جگنو شہر" میں چار، پانچ، چھ سطروں سے 47، 48، 69 سطروں تک کے افسانچے ملتے ہیں۔ڈاکٹر ایم اے حق کے افسا نچوں کے مجمو عے"نئی صبح" میں تین سطروں سے لے کر 115، سطروں تک کے افسانچے ملتے ہیں۔ان تمام مثالوں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ افسا نچے میں لفظوں، سطروں، صفحوں کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اصل بات کہانی پن، اختصار، تحیر، تجسس کا ہونا ہے جس سے کوئی واقعہ یا لمحہ قید ہو کر کہانی کی شکل اختیار کر لے۔ ناول ہو، افسا نہ یا افسانچہ اسی وقت کامیاب ہیں جب اس میں قصہ پن موجود ہو۔افسانچوں میں اضافی خوبی کے طور پر طنز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
یوں تو مغرب میں افسانچے کی شروعات بہت قبل ہو چکی تھی، لیکن ہندوستان خصوصاً اردو میں افسانچے تحریر کرنے کا سہرا سعادت حسن منٹو کے سر باندھا جاتا ہے۔ منٹو سے قبل اردو میں افسانچے کا گذر نہیں ملتا۔ منٹو نے"سیاہ حاشیے" کی شکل میں افسانچوں کا ایک ایسا مجمو عہ اردو کو عطا کیا جو نہ صرف اپنے عہد کا غماز ہے بلکہ فن افسانچہ نگاری کی اساس بھی ہے۔ منٹو نے جس ہنر مندی اور فنی مہارت سے صنف افسانہ کو استحکام، تقویت اور سر بلندی عطا کی اسی فنی مشاطگی، بالیدہ نظر اور عصری مسائل سے آگہی کی بدو لت افسانچہ جیسی صنف کی بنیاد گذاری کا مشکل امر انجام دیا۔ سعادت حسن منٹو کے مجمو عے"سیاہ حاشیے" میں 31؍ افسانچے شامل ہیں جن میں دو تو 68 اور 65 سطروں یا پانچ صفحات پر مشتمل ہیں اور کئی دو،تین،چار،پانچ سطروں کے بھی ہیں۔ اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ منٹو کے ذہن میں سیاہ حاشیے تحریر کرتے ہوئے یہ واضح نہیں تھا کہ وہ افسانچے تحریر کررہے ہیں یا یہ بھی کہ منٹو نے افسانچے کے فن یا اس کے فنی لوازم کا کوئی پیمانہ یا معیار نہیں اپنایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ محمد حسن عسکری نے سیاہ حاشیے کا مقدمہ"حاشیہ آرائی" لکھتے وقت ان کو کبھی افسانہ کہا تو کبھی لطیفہ بھی۔محمد حسن عسکری نے اپنے 11 صفحے کے مقدمے میں کئی جگہ یوں تحریر کیا ہے:
"منٹو نے بھی فسادات کے متعلق کچھ لکھا ہے، یعنی یہ لطیفے یا چھوٹے چھوٹے افسانے جمع کیے ہیں....."(سیاہ حاشیے،ص 12)
ایک جگہ اور لکھتے ہیں:
"فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں ان میں منٹو کے یہ چھوٹے لطیفے سب سے زیا دہ ہولناک اور سب سے زیا دہ رجائیت آمیز ہیں" سیاہ حاشیے،ص 16)
محمد حسن عسکری کے ان اقتباسات سے ظا ہر ہے کہ منٹو نا محمد حسن عسکری کے یہاں اور نا اس وقت کے ادبی منظر نامے میں افسانچہ لفظ استعمال ہوا تھا۔ لفظ افسانچہ یا صنف افسانچہ کے طور پر منٹو نے مجموعہ "سیاہ حاشیے" قلم بند نہیں کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ افسانچہ کے خدو خال کا تعین منٹو کے یہاں نہیں ملتا یا یہ بھی ممکن ہے کہ منٹو کی نظر میں افسانچہ سے مراد وہ قصہ یا واقعہ ہو جسے کم سے کم سطروں میں لکھا جا سکے جس کی کوئی میعاد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ یعنی ہر افسانچہ اپنے موضوع اور Treetment کے اعتبار سے اپنی طوالت یا اختصار کا متقاضی ہو گا۔ سیاہ حاشیے کے سارے افسانچوں کا مطالعہ کر جائیے آپ یہی طریقۂ کار موجود پائیں گے۔دوسطروں پر مبنی افسانچے بھی ہیں ۔مثلاً
آرام کی ضرورت
"مرا نہیں.......دیکھو ابھی جان با قی ہے،
"رہنے دو یار...........میں تھک گیا ہوں۔"

اور تین سطروں کا افسانچہ
الہنا
"دیکھو یار ،تم نے بلیک مارکیٹ
کے دام بھی لیے اور ایساردی
پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی۔"

جسے اگر ایک سطر میں لکھ دیا جائے تو یہ آج کا یک سطری افسا نہ ہی ہو گا۔ یعنی
اُلہنا
"دیکھو یار، تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی"

اگر منٹو کے ذہن میں یہ وا ضح ہو تا کہ وہ افسانچہ کی بنیاد ڈال رہے ہیں تو منٹو جیسا ذہین شخص اس طرح کے افسانچے تحریر کرتا جس سے فن افسانچہ نگاری کے نقوش نہ صرف واضح ہو جاتے بلکہ افسا نچے کو صنف کا درجہ بھی جلد ہی مل جاتا۔ پھر منٹواُلہنا کو تین سطروں میں تحریر نہ کرتا بلکہ ایک سطر میں لکھ کر یک سطری افسا نے کا موجد بھی بن جاتا۔
جہاں تک سیاہ حاشیے کے مو ضو عات کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ منٹو نے یہ افسا نے؍ افسانچے، تقسیم ہند کے دلدوز واقعے کے نتائج کے طور پر ملک کے طول و عرض میں پھیلے فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بنا کر تحریر کیے۔ ہر افسانچے میں فرقہ وارانہ کیفیت، اس کے نتائج، انسان کا حیوان بننا، شرمسار ہوتی انسانیت، درندگی، بے رحمی اور سفاکی کے مظاہرے ہیں۔منٹو یا دیگر فکشن نگاروں میں ایک واضح فرق یہ پایا جاتا ہے کہ منٹو افسانہ قلم بند کرتے وقت جج نہیں ہو تا، وہ کسی کو ظالم، جابر،معصوم،بے گناہ،مظلوم ثابت نہیں کرتا بلکہ صرف تصویر پیش کرتا ہے اور باقی معاملہ قاری کے حوالے کردیتا ہے۔ قاری خود فیصلہ کرتا ہے کہ کون ظا لم ہے، کون مظلوم،کون ظالم ہو کر بھی رحم دل ہے اور کون رہنما ہو کر بھی رہزن۔کون اپنے سفید کرتے کے اندر کتنا بد نما اور کالا ہے اور کون طوائف ہو کر بھی انسانیت اور محبت کے جذبے سے سر شار ہے۔ محمد حسن عسکری اپنے مقدمے میں منٹو کی اس خوبی کا بیان کرنے سے قبل فساد یا قتل و غارت گری وغیرہ پر افسانہ لکھنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
"یہ لوگ اس مقصد سے افسانے لکھتے ہیں کہ ظالم کا خارجی عمل دکھا کر ظلم کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کریں۔لیکن جب تک ہمیں کسی فعل کا انسانی پس منظر معلوم نہ ہو، محض خا رجی عمل کا نظا رہ ہمارے اندر کوئی دیر پا،ٹھوس اور گہری معنویت رکھنے وا لا رد عمل پیدا نہیں کرسکتا۔ہم انسا نوں سے تو نفرت اور محبت کر سکتے ہیں"ظالموں اور مظلوموں سے نہیں۔" سیاہ حاشیے،ص 11)
محمد حسن عسکری نے اپنے اس مقدمے میں تفصیل سے خاارجی اور داخلی عوامل کا ایک ادیب کی زندگی اور فن پر اثرات پر بحث کی ہے اور ایسے لکھنے وا لوں کی خبر بھی لی ہے جو کسی وا قعے یا حادثے کی وقوع پذیر ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اس پر شہد کی مکھی کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ فسادات پر بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں ادیبوں نے افسانے قلم بند کیے۔ لیکن ان کی یہ افسانے کیا واقعی افسانے تھے؟ یا پرو پیگنڈہ یا خاص بات کا اشتہار؟ یا خود کو صاف ستھرا، سیکولر اور انسانیت کا علم بردار ثابت کرنے کا ذریعہ؟ وہ سیاہ حاشیے کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
"فسادات پر لکھنے وا لے افسا نہ نگاروں نے ظلم سے نفرت دلانے کے لیے اکثر یہ طریقۂ کار استعمال کیا ہے کہ ظلم ہو تا ہوا دکھا کر پڑھنے والوں کے دلوں میں دہشت پیدا کی جائے مگر سارے وا قعات اتنے تازہ ہیں،لوگ اپنی آنکھوں سے اتنا کچھ دیکھ چکے ہیں یا اپنے قریبی دوستوں سے اتنا سن چکے ہیں کہ محض ظلموں کی فہرست اب ان کے اوپر کوئی اثر ہی نہیں کرتی۔اگر آپ نے اپنے افسا نے میں دو چار عورتوں کی بے حرمتی یا بچوں کا قتل دکھا دیا تو اس سے لوگوں کے اعصاب پر کوئی رد عمل ہوتا ہی نہیں۔یہ زمانہ ہی ایسا غیر معمولی ہے کہ غیر معمولی ظلم آج کل بے انتہا معمولی چیز بن گئے ہیں۔ غیر معمولی باتیں اب لوگوں کو چونکاتی نہیں۔"( سیاہ حاشیے،ص 12۔11)
پروفیسر محمد حسن عسکری نے یہ باتیں اکتو بر 1948ء میں’سیاہ حاشیے‘ کے پہلے ایڈیشن کی اشا عت کے وقت تحریر کی تھیں یعنی آج سے 65 سال قبل، لیکن ان کے الفاظ سے ایسا مترشح ہو رہا ہے کہ وہ آج کے فسادات کے متعلق اور فسادات پر لکھے جانے وا لے ادب کے تعلق سے مضمون قلم بند کررہے ہوں۔ ان تمام باتوں کے برعکس جب وہ فسادات کے تعلق سے منٹو کی تحریروں کا جائزہ پیش کرتے ہیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیتے ہیں:
"یہ افسانے فسادات کے متعلق نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے بارے میں، منٹو کے افسانوں میں آپ انسانوں کو مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں۔انسان بحیثیت طوائف کے،انسان بحیثیت تماش بین کے وغیرہ وغیرہ، ان افسانوں میں بھی آپ انسان ہی دیکھیں گے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں انسان کو ظالم یا مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور فسادات کے مخصوص حالات میں سماجی مقصد کا تو منٹو نے جھگڑا ہی نہیں پالا۔اگر تلقین سے آدمی سدھر جایا کرتے تو مسٹر گاندگی کی جان ہی کیوں جاتی۔منٹو کے افسانوں کے اثرات کے بارے میں نہ زیا دہ غلط فہمیاں ہیں نہ انہوں نے ایسی ذمہ داری اپنے سر لی ہے جو ادب پو ری کرہی نہیں سکتا۔"(سیاہ حاشیے،ص12)
یہاں عسکری منٹو کی ادب سے کسی وجہ سے وابستگی کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ خالصتاً ادب تحریر کرنے پر زرو دیتے تھے جب کہ ان کے اکثر معاصرین افسانے،ناول یا دوسرے ادب پارے کو مختلف اور متعدد عینکوں سے دیکھ کر تحریر کرتے تھے اور ان کی بہت ساری وابستگیاں ان کی تحریروں سے واضح ہوجایا کرتی تھیں جب کہ منٹو نے ادیب کی ذمہ داری کو محدود دائرے میں رکھا ،وہ کبھی جج نہیں بنتا، وہ کبھی ڈاکٹر یا معالج کا کردار ادا نہیں کرتا ،وہ کبھی مصلح نہیں بنتا۔وہ پہلے فوٹو گرافر کی طرح تصویریں اتارتا ہے پھر ادیب کی طرح ان میں زبان و بیان کے حسب ضرورت رنگ بھرتا ہے اور بس۔ پرو فیسر محمد حسن عسکری نے منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ کے افسانوں؍ افسانچوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
"انہوں نے چند واقعات تو ضرور ہوتے دکھائے ہیں مگر یہ کہیں نہیں ظاہر ہونے دیا کہ یہ واقعات یا افعال بنفسہ اچھے ہیں یا برے،نہ انہوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی ہے نہ مظلوموں پر آنسو بہائے ہیں۔انہوں نے تو یہ تک فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں..."

محمد حسن عسکری مزید تحریر کرتے ہیں:
"انہوں نے نیک و بد کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے۔ان کا نقطۂ نظر نہ سیا سی ہے نہ عمرانی، نہ اخلا قی بلکہ ادبی اور تخلیقی۔منٹو نے تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے۔ ظلم کرنے کی خوا ہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلا نات کار فرما ہیں۔انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے۔زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں۔ منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑ کائے ہیں، نہ غصے کے، نہ نفرت کے، وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔"
(سیاہ حاشیے،ص14۔13)

پروفیسر محمد حسن عسکری نے’سیاہ حاشیے‘ کے مقدمے" حاشیہ آ رائی" میں افسا نچوں کو لطیفے بھی لکھا ہے۔مجھے محمد حسن عسکری کے اس رویے سے سخت اختلاف ہے۔نہ صرف محمد حسن عسکری بلکہ ان تمام نا قدین اور مبصرین سے مجھے اختلاف ہے جنہیں سیاہ حا شیے کے افسانچے لطیفے نظر آتے ہیں۔ دراصل یہ تو اپنی اپنی نظر کی بات ہے۔ سیاہ حاشیے کے تمام افسا نچے کسی نہ کسی طور فر قہ وارانہ فسادات کے موضوع کوTouchکرتے ہیں۔ان میں انسان کے حیوان بن جانے، اس کی کمینگی، بد کاری، مکاری و عیاری،دوغلہ پن، ذہنی خباثت کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھ کر اگر کسی کو ہنسی آجاتی ہے تو یہ اس کا اپنا ذہنی رویہ ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہی ہو تے ہیں جو کسی کی پریشانی میں خوش ہوتے ہیں۔ کوئی سڑک پر ٹھو کر کھا کر گر جائے تو تماش بین ہنستے ہیں لیکن کوئی انہیں میں سے اسے اٹھانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں سماج میں شا ید پرو فیسر عسکری نے اس لیے انہیں لطیفہ کہہ دیا ہو گا کہ اس عہد میں افسا نچے کا چلن نہیں تھا نہ اتنی ہی چھوٹی تحریر یں سماج میں عام تھیں یعنی ہاتھی جیسی قد آور اصناف سخن کی موجود گی میں چیونٹی جیسی ہےئت کے فن پارے لطیفے ہی لگتے ہوں گے۔ ویسے ان تمام میں لطیفے جیسی کوئی صفت نہیں ہے۔ یہ تو ادب پارے ہیں جو قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پر طنز کستے ہیں،انہیں شرم دلا تے ہیں۔انہیں ہنسانے کے لیے نہیں ہیں۔منٹو کے کسی افسانچے پٹھانستان، خبردار، ہمیشہ کی چھٹی، حلال اور جھٹکا، کھاد،استقلال،جوتا، سوری،پیش بندی، رعایت، صدقے اس کے، اشتراکیت،اُلہنا، آرام کی ضرورت،قسمت......الغرض ہر افسانچہ قابل مطالعہ ہے اور اپنے اندر طویل کہانیاں لیے ہوئے ہیں۔
رعایت
"میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو۔"
"چلو اسی کی مان لو.......کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف۔"

تقریباً دو سطر(سیاہ حاشیے میں چار سطروں میں ہے) کا یہ افسانچہ قاری کو اندر تک دہلا دیتا ہے۔ایک جوان بیٹی کے باپ کو رعایت دی جارہی ہے۔یہاں ظالم موجود نہیں،ظلم موجود ہے۔ظلم کا نیا طریقہ کار موجود ہے ۔منٹو نے فساد کے کسی ہولناک،منظر کا بیان نہیں کیا ہے ۔لیکن ظلم کی شدت اوراس سے پیدا ہونے وا لی لہر یں خود بخود الفاظ سے قاری کے ذہن و دل تک کا سفر طے کرلیتی ہیں۔یہاں منٹو کی رعایتِ لفظی، فنی چابکدستی، موضوع پر گرفت، عنوان کی برجستگی وغیرہ نے مل کر ایک ایسا فن پارہ گھڑا ہے کہ منٹو کے قلم کے جادو کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔لفظوں میں سادگی ہے،سلاست ہے،کوئی سنسنی خیزی نہیں،کوئی فحا شی نہیں،ظلم و زیادتی کے ڈھول نہیں اور نہ ہی قاری کو دہشت زدہ کرنا مقصد ہے۔
افسانچے پر ایک نظر ڈالیں:
سوری
"چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔
آزار بند کٹ گیا۔چھری مارنے وا لے کے منہ سے دفعتہ کلمۂ تاسف نکلا
"چ.....چ....چ....چ..........مشٹیک ہوگیا۔"

اس افسانچے میں منٹو کا فن عروج پر ہے۔فساد کے ماحول میں اپنے فرقوں کا تحفظ اور غیر فرقے پر منصو بہ بند حملہ عام بات ہو جاتی ہے۔لوگوں کی شناخت مذہب کے اعتبار سے کی جانے لگتی ہے۔اس افسانچے میں منٹو نے سفاک حقیقت نگاری کا عمدہ نمو نہ پیش کیا ہے۔قتل کے بعد کا افسوس، افسانچے کا ڈرا مائی موڑ ہے۔ منٹو نے اس افسانچے میں بہت ہی کم الفاظ میں پوری شدو مد کے ساتھ اپنی بات کی ترسیل کی ہے۔ پورے افسانچے میں بس ایک واقعہ ہی در ج ہے ۔لیکن یہ واقعہ اپنے اختتام پر قاری کے اندر سرایت کر جاتا ہے اور اپنے ساتھ ان کہے اور نا تحریر کردہ(Unsaid and unwritten) سینکڑوں واقعات جمع کرلیتا ہے۔قاری مبہوت سا ہو کر رہ جاتا ہے۔اسے بہت دیر تک کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوا؟افسوس کس کو ہو رہا ہے؟کس بات کا افسوس؟ کون سی غلطی ہو گئی۔مشٹیک لفظ قاری کو لمحاتی طور پر خالی الذہن کردیتا ہے۔تھوڑی دیر بعد جب قاری خود کو سنبھالتا ہے تو سوچتا ہے کہ منٹو نے لوہے کی گرم سلاخ اس کے ذہن کے پار کردی ہے۔قاتل کاچ چ چ چ....کرنا منظر کو ایسا زندہ کرتا ہے کہ گویا قاری کے سامنے یہ قتل ہوا ہو۔
سعادت حسن منٹو کے بعد اس صنف کو استحکام و استناد عطا کرنے وا لے جو گندر پال ہیں بلکہ نام افسانچہ بھی جو گندر پال کا ہی دیا ہوا ہے۔ جو گندر پال اردو کے کہنہ مشق ناول نگار اور افسا نہ نگار ہیں۔انہوں نے افسا نچے کو اپنی کا وشوں سے مضبوط بنیاد یں عطا کیں۔جو گندر پال جب ادب میں دا خل ہو ئے تو نئی رو شنی سے معمور تھے۔ انگریزی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے غیر ممالک خصوصاً جنوبی افریقہ میں خا صا وقت گذا را۔ ان کے افسا نے، ناول اور افسا نچے ان کی با لیدہ نظر، نئی فکر اور فن پر مضبوط دسترس کے غماز ہیں۔ جو گندر پال نے افسا نچے کو نہ صرف نام دیا بلکہ متعدد تجربات کرتے ہو ئے افسا نچے کو استحکام بھی بخشا۔انہوں نے" نہیں رحمن بابو" کے عنوان سے سینکڑوں افسانچے قلم بند کیے۔انہیں اردو افسا نچے کا سعادت حسن منٹو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے دو افسانچے ملا حظہ کریں:

کچا پن
" بابا، تم بڑے میٹھے ہو"
" یہی تو میری مشکل ہے بیٹا۔ ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہو تا تو جھاڑ سے جڑا رہتا"

یہ دو سطر کا افسانچہ اپنے اندر مکمل کہانی لیے ہو ئے ہے۔ یہ علا متی افسانچہ ہے۔ میٹھا ہونا، کئی طرف اشا رے کررہا ہے ۔یعنی پھل بہت میٹھا ہے اور جب کوئی پھل زیا دہ میٹھا ہو تا ہے تو وہ یا تو خود بخود ٹوٹ کر شاخ سے الگ ہو جاتا ہے یا پھر زمانے کے ذریعہ توڑ لیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس کچے اور کھٹے پھل مضبوطی سے پیڑ سے جڑے ہو تے ہیں۔ اسے نہ صرف پیڑ کے اندرون سے غذا حاصل ہوتی رہتی ہے بلکہ پیڑ کے مالک اور محافظ اس کی خاطر مدارت بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کا ہر طرح کا خیال رکھا جاتا ہے۔یہی معاملہ بزرگوں کا بھی ہے۔آج کل اولا دیں اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہیں۔ پو را افسانچہ سماج پر ایک گہرا طنز ہے۔
بے درد
"آخر اس کا درد تھم گیا،
اور درد تھمتے ہی اسے چین آ گیا،
لیکن نہ تھمتا تو بے چا رہ مرنے سے بچ جاتا۔"

’بے درد‘ نام کا یہ افسانچہ جو گندر پال کے عمیق ذہن کی فکری غو طہ زنی ہے۔ افسا نچے میں کون بے درد ہے۔ بے درد یعنی ظالم، وہ جس نے اس کے درد کا علاج کردیا۔ یعنی اسے مار ڈا لا،لیکن بظا ہر تو وہ اس کا ہمدرد ہے کہ اس سے اس کا درد، دیکھا نہ گیا اور اس نے اسے مار کر ہمیشہ کے لیے درد سے نجات دلا دی۔ قاری یہ طے نہیں کر پاتا ہے کہ اسے درد سے نجات دینے والا اس کا ہمدرد ہے یا بے درد ۔ اس میں ایک پہلو اور ہے۔بے درد، یعنی ایسا شخص جس کے پاس درد نہ ہو۔ یعنی وہ صا حب درد، اب بے درد ہو گیا۔اسے ہمیشگی کا سکون عطا ہو گیا ہے۔ آپ کسی ایسے مریض کا تصور کریں جو بری طرح زخمی ہو، جس کی سا نسیں اکھڑ رہی ہوں۔دوا کا اثر نہ ہو رہا ہو اور اس کی یہ حالت طوا لت اختیار کر گئی ہو۔ پھر کیا ہو تا ہے۔ پھر ہر کوئی اس کے دکھ درد کو دیکھ کر اس کی موت کی تمنا کرتا ہے۔ بے درد ایسے ہی کسی مریض کی حا لت کا بہترین
ترجمان ہے۔
افسانچے کے فروغ میں جو گندر پال کے ہم عصر افسا نہ نگار رتن سنگھ کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے افسا نچے کو ایک نیا انداز دیا۔ انہوں نے افسا نچوں کے عنوانات قائم نہیں کیے۔ ان کے افسا نچوں کا مجمو عہ مانک موتی، کے نام سے منظر عام پر آیا اور مجمو عے میں عنوان کے بجائے نمبر شمار سے افسانچے درج ہیں۔ ابھی حال ہی میں پنجابی میں ان کے افسا نچوں کے مجمو عے"کن من کلیاں" نے شائع ہو کر خاصی مقبو لیت حا صل کی ہے۔ لیکن رتن سنگھ اپنے اس نظریے پر آج بھی قائم ہیں کہ طوالت یا اختصار کے سبب کہانیوں کو خانوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔ ان کا ایک مانک مو تی ملاحظہ کریں۔

مانک موتی(36)
"ہنستے ناچتے خوشیاں مناتے ایک ہجوم کو قریب آ تا دیکھ کر ایک بھکارن نے اپنے تین چار سال کے بچے کو جلدی سے گود میں اٹھا لیا اور ایسی آڑ میں لے گئی جہاں سے بچہ ان رنگ رلیاں منانے والوں کو نہ دیکھ سکے۔نا بابانا، وہ بڑ بڑاتے جارہی تھی۔
"میرے ننگے بھو کے بچے نے اگر ہنسنا سیکھ لیا تو کل کو اسے بھیک کون دے گا۔"

رتن سنگھ کا یہ افسانچہ نفسیاتی افسانچہ ہے۔ نفسیات کے ساتھ ساتھ معاشیات کا بھی دخل افسانچے کو نیا رخ عطا کرتا ہے۔ایک غریب بھکارن کا سہارا اس کا گود کا بچہ ہو تا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر لوگ عورت کو جلدی بھیک دے دیتے ہیں اور اگر بچہ روتا دھو تا ہو، بیمار ہو، ہاتھ پا ؤں ٹیڑھے ہوں تو زیا دہ بھیک ملتی ہے۔ عورت کی اس نفسیات کا افسانچہ عمدگی سے ترجمانی کرتا ہے۔ افسانچہ قاری کو متحیر کردیتا ہے۔ قاری کبھی عورت پر رحم کھاتا ہے تو کبھی اسے، اس بچے کی زندگی پر رحم آ تا ہے اور اسی طرح قاری بہت دیر تک دو نوں کے درمیان ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔
بشیر مالیر کو ٹلوی نے افسا نے کے ساتھ ساتھ افسا نچے کی بھی خدمت کی ہے اور اپنی منفرد پہچان قائم کی ہے۔ وہ افسانچے میں نپے تلے جملے مرکزی کردار سے وابستہ،قصہ پن، مقصدیت کو اپنے مخصوص انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ان کی یہ صفت ان کے افسا نچوں کو تیز دھا ری تلوار جیسا بنا دیتی ہے۔ان کا ایک افسانچہ "صلیب سے بڑھ کر" ملاحظہ کریں:

صلیب سے بڑھ کر
" وہ مسیحا تو نہ تھا مگر دین دکھیوں کا سچا خدمت گار تھا۔اس کو خدمت خلق کے جرم کی سزا، ابن مریم سے کہیں زیا دہ ملی تھی۔
اس غیر ملکی فرشتہ خصلت انسان پر پٹرول ڈال کر جب آگ لگائی گئی تو جیپ کے اندر اس نے اپنے دو نوں بچوں کو جلتے ہوئے دیکھنے کا کرب بھی جھیلا تھا۔"
بشیر مالیر کوٹلوی نے فنی مہا رت سے افسا نچے میں پو ری داستان کو سمو دیا ہے۔ ایک ایسی درد بھری دستان جس میں سب کچھ موجود ہے۔ایک خاندان، خاندان کا مکھیا، اس کے دو بچے، اس کی پو ری زندگی، ایمانداری اور دوسروں کی خدمت کی گواہ ۔نیک ،شریف،ہر وقت دوسرے کے کام آ نے وا لا شخص....غیر ملکی سر زمین پر خدمتِ خلق کرنے وا لا ایک شریف النفس شخص،لیکن اسے اس کی شرافت کا انعام یہ ملا کہ نہ صرف اسے بلکہ اس کے دو معصوم بچوں کو بھی زندہ جلا یا گیا اور یہ حرکت کس نے کی، محا فظ دستے نے، جس پر حفاظت کا ذمہ ہو تا ہے وہی درندہ بن گیا۔ بشیر مالیر کوٹلوی نے مناسب ترین لفظوں میں ایک درد ناک کہا نی کو افسا نچے کے قالب میں ڈھالنے کا لائق تحسین کام کیا ہے۔

اردو میں ڈا کٹر ایم اے حق وا حد ایسے تخلیق کار ہیں جو افسانچہ نگاری کی بنیاد پر ہی مشہور ہیں۔ ایم اے حق صرف اور صرف افسانچہ نگار ہیں۔شا ید وہ اس طرح کے وا حد افسانچہ نگار ہیں۔ورنہ زیا دہ تر افسا نہ نگار ہی افسانچہ نگار ہیں۔ ایم اے حق نے افسانچہ نگاری میں وا قعی اپنی مہارت کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ ان کا افسا نچوں کا پہلا مجمو عہ" نئی صبح" کو خاصی مقبولیت حا صل ہوئی۔ اب انہوں نے"موج ادب" سہ ما ہی کے ذریعہ بھی افسا نچوں کی اشا عت میں خا صی محنت کی ہے اور رسالے میں افسا نچے مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ ان کا ایک افسانچہ ملا حظہ کریں:
مجرم
"میری بیٹی ٹرین کے باتھ روم سے وا پس آتے ہی بولی
"پا پا آپ ابھی تک غلط ہندی لکھتے ہیں۔" اور میں دوہری شرم سے گڑ گیا۔"

دو سطروں میں ایک پو ری کہانی از شروع تا آخر انگڑا ئی لے رہی ہے۔ چھو ٹی سی کہانی اپنے اندر کتنےDimensionرکھتی ہے۔افسانچہ نگار نے ٹرین کے باتھ رو م کی دیواروں پر فحش جملے لکھنے اور تصا ویر بنانے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہم سب کا آئے دن ایسے جملوں اور تصا ویر سے واسطہ پڑتا ہے لیکن ہم اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کر پاتے سوا ئے اس کے لکھنے وا لوں کو کبھی زبان سے کبھی دل کے اندر دو چار صلواتیں سنا کر خود کی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ مگر"مجرم" افسانچہ ایسے حضرات کو ایسی شرم دلاتا ہے کہ اگر وا قعی ان کے اندر کچھ روا داری، اقدار اور شرم با قی ہو تو انہیں ڈوب مرنا چا ہیے۔لفظ"دوہری" افسانچے کے اثر کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
افسانچے کی روا یت کو استحکام بخشنے وا لوں میں اورنگ آ باد کے عارف خو رشید کا نام خا صی اہمیت کا حامل ہے۔ عارف خورشید کے افسا نچوں کا مجمو عہ"یا دوں کے سائے" 1987ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی باریک بیں نگاہ افسانچے میں نئے تیور پیدا کرتی ہے۔ وہ عورت مرد کے مابین رشتوں کو بڑی فن کاری سے افسا نچے میں پیش کرتے ہیں:
سوالیہ نشان
"جنت میں غلطی کی سزا .....دنیا
"دنیا میں غلطی کی سزا.......؟
شو ہر دبئی میں خود ہندوستان میں،
دو نوں اپنی اپنی آگ میں"

سوالیہ نشان قاری کے ذہن کو جھنجھوڑتے ہو ئے بے شمار سوال داغ دیتا ہے۔ قاری کا ذہن سوالات کے گھیرے میں آ جاتا ہے۔افسانچہ اپنے آپ میں پورے نا ول کی کہانی سموئے ہو ئے ہے۔ جنت سے آدم کے نکالے جانے کے واقعے سے موجودہ عہد کے سلگتے ہو ئے روز گار اور جنسی مسائل کو فنی کا وش سے قصے میں پرو دیتا ہے۔ افسا نچے میں مرد کی دنیا بھی آ باد ہے اور عورت کا جہاں بھی۔دونوں ایک دوسرے کی فرقت کا شکار بھی ہیں اور اپنی اپنی دنیا ؤں میں خوش بھی۔ ہر دو طرف اپنی اپنی آگ سلامت ہے۔ یہ آج کے دور کے نفسا نفسی کے ماحول کی خوبصورت
عکاسی ہے۔

عظیم راہی نے افسانچہ نگاری کے دو طرفہ فروغ میں تعا ون دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف عمدہ افسانچہ نگاری کی ہے بلکہ انہوں نے افسانچہ نگاری کی تنقیدی روا یت کو بھی بنیاد فرا ہم کر نے کا اہم کام کیا ہے۔ انہوں نے اردو میں افسانچہ کی روا یت:ُ تنقیدی مطالعہ کتاب لکھ کر افسانچہ نگاری کی تنقید میں میل کا پتھر ثبت کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب2009ء میں منظر عام پر آ ئی ہے اور اس کتاب کی اشاعت کے بعد افسانچہ نگاری کی مقبو لیت میں روز افزوں فروغ حا صل ہوا ہے۔ افسانچہ لکھنے، افسا نچے پر تنقید اور افسا نچے کے فروغ کے لیے عملی کاوشوں کو ایک نئی سمت ملی ہے۔ عظیم راہی کا ایک افسانچہ ملاحظہ ہو:
چلن
"وہ شخص، جس نے میرے قتل کی سازش رچی تھی
معجزاتی طور پر.......میرے بچ جانے پر.........
مبارک باد دینے وا لوں میں وہی سب سے آگے تھا۔"

عظیم راہی نے" چلن" میں سماج کے منا فقانہ رویے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ افسانچہ سفید کالر اور سیاہ دل لوگوں، ڈھونگی مذہبی رہنماؤں، دوغلی شخصیت کے مالک افراد کی زندگی پر کاری ضرب ہے۔آج زمانہ اس طرح کا ہو گیا ہے۔سیاسی لوگ پہلے کسی کیس میں پھنساتے ہیں اور بعد میں ہمدردی جتانے پہنچ جاتے ہیں۔
نذیر فتح پوری اردو کے زود نویس ادیب و شاعر ہیں۔ انہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ افسانچہ نگاری میں بھی وہ کامیاب ہیں۔ ان کے افسا نچوں کا مجمو عہ"ریزہ ریزہ دل" بہت پہلے شائع ہو چکا ہے۔ ان کا ایک افسانچہ ملاحظہ کریں:
ترقی
"آدمی نے کمپیوٹر بنایااور کمپیوٹر بننے کے بعد آدمی خود بگڑ گیا۔کمپیوٹر کی خرا بی آدمی دور کرسکتا ہے۔لیکن آدمی کے بگاڑ کاعلاج؟؟؟
تین سطروں کا افسانچہ’ترقی‘ موجودہ عہد کی کامیاب ترجمانی کرتا ہے۔ آج کا عہد IT کا عہدہے۔ اسITکے عہد میں ہر طرف کمپیوٹر ہی کمپیوٹر ہے۔ ہر کام کمپیوٹر کررہا ہے۔Internetنے آج انسان کو ہر طرح کی سہولتیں مہیا کرادی ہیں۔ آج انسان کے پاس رشتے ناطوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ کمپیوٹر کی طرح اسکرین اور ماؤس ہو گیا ہے۔ انسان میں آنے وا لے اس بگاڑ کا کیا علاج ہے۔Porn sites, social sitesنے وا قعی آج کے انسان کو کردار کی سطح پر خاصا بگاڑ دیا ہے۔ انسان کے اندر ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ انسانی ترقی ہے یا؟ افسانچہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ کر قاری کو بے چین کرجاتا ہے۔
میں نے یہاں چند افسانچوں کے تجزیے اپنے طور پر کیے ہیں۔ آج افسانچہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن یہاں مقصد فہرست سازی نہیں ہے۔سینکڑوں افسانچہ نگار آج مستعدی سے افسانچے لکھ رہے ہیں۔ پچاس سے زائد افسانچوں کے مجمو عے زیور طبع سے آراستہ ہو کر شا ئع ہو چکے ہیں۔یہاں میں نے اپنی پسند سے چند افسانچے پیش کیے ہیں۔ان افسانچوں کے انتخاب میں، میں نے ایک خاص خیال رکھا ہے۔ کہ یہ سب کے سب دو تین یا چار سطروں کے افسانچے ہیں اور سب کے سب اپنے اندر طویل کہانی کا لا وا لیے ہو ئے قطرے میں سمندر کی مثال ہیں۔افسانچہ اسی طرح اپنے قارئین کو موضوع کے تیکھے پن، اختصار، زبان کی چابکدستی اور غیر متوقع اختتام سے سحر زدہ کردیتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب قطعی کہ ان سے کچھ طویل یا دو تین صفحات کے افسانچے یہ کام بخوبی نہیں کر پاتے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث میں نے قدرے مختصر افسانچے اپنے مطالعے میں شامل کیے ہیں بعد میں ہر طرح کی افسانچے کا مطالعہ پیش کرنے کا ارادہ ہے۔

افسانچے کے فروغ کے لیے مشورے
افسانچے کے فروغ میں رسالوں اور میگزین کا بہت اہم کردار رہا ہے اور اس سلسلے میں شمع کے کردار سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ شمع نے افسا نچوں کو ہمیشہ اپنے صفحات پر جگہ دی۔کبھی ایک صفحے کے افسانچے"اسی صفحے پر مکمل" کےTagکے ساتھ اور کبھی مختصر مختصر اور کبھی مِنی کہانی کے لیبل کے ساتھ افسانچوں کو تصا ویر سے مزین،دیدہ زیب بنا کر شائع کرنا۔ شمع کے افسا نچوں نے افسانچے کے فروغ میں خاصا اہم کردار ادا کیاہے۔
شمع کے ساتھ ساتھ اردو میں کئی فلمی میگزین اور رسالے شائع ہو ئے ان میں روبی، فلمی ستارے، گلفام، فلم ویکلی وغیرہ رسائل نے بھی افسا نچوں کی اشاعت میں مستقل حصہ لیا۔ یہی نہیں اردو روز نامہ، اخبارات کے اتوار کے ضمیمے بھی افسانچوں سے مزین ہو تے تھے۔ اخبار مشرق، آزاد ہند، اقرا، انقلاب، راشٹریہ سہارا، عظیم آ باد ایکسپریس، سنگم، فاروقی تنظیم، قومی تنظیم، سیاست، ہند سماچار، تیج، پرتاپ، ملاپ، اردو ٹائمز، آگ، صحافت،سالار،جیسے اہم اردو روزناموں میں افسانچوں کی مسلسل اشاعت ہوتی رہی ہے۔ہفت روزہ اخباروں میں بھی افسانچے شا ئع ہوتے رہے ہیں۔
ادبی رسائل میں’شاعر‘ نے افسانچے کے فروغ میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ شاعر نے افسانچہ نمبر، افسانچے پر خاص شمارے، افسانچہ نگاروں کے گوشے وغیرہ شائع کر کے اپنا ایک الگ مقام بنا لیا ہے۔اسی طرح آجکل، ایوانِ اردو،اسباق، عالمی انوارِتخلیق ،رہنمائے تعلیم، امیدِ سحر، پاسبان،پرواز ادب، چنگاری، موجِ ادب،روشن ادب،روشن چراغ، گونج وغیرہ رسائل نے اپنے افسانچے شائع کر کے اس کے فروغ میں حصہ لیا۔

***
Dr Aslam Jamshedpuri
aslamjamshedpuri[@]gmail.com
موبائل : 09456259850
ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری

Urdu Afsancha, yesterday, today & Tomorrow. -Article: Dr Aslam Jamshedpuri

3 تبصرے:

  1. "آدمی نے کمپیوٹر بنایااور کمپیوٹر بننے کے بعد آدمی خود بگڑ گیا۔کمپیوٹر کی خرا بی آدمی دور کرسکتا ہے۔لیکن آدمی کے بگاڑ کاعلاج؟؟؟
    واہ کیا ترقی ہے!!!

    جواب دیںحذف کریں
  2. اچھی تحقیق ھے. افسانچے کے تاریخی پس منظر سے واقفیت ہوئی نیز چند نمایاں افسانچہ نگاروں کے متعلق بھی جانکاری فراہم ہوئی.
    لیکن دو مقامات پر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں :
    محمد بشیر مالیر کوٹلوی کا افسانچہ "صلیب سے بڑھ کر" عیسائی مشنری سے تعلق رکھنے والے اسٹینس کے دردناک قتل پر مبنی ہے جسے اڑیسہ میں اس کے دو ننھے بیٹوں کے ساتھ ان کی جیپ کے اندر جلا کر مار ڈالا گیا تھا. اور یہ جرم بجرنگ دل کے کیڈروں نے کیا تھا. (شاید سرغنہ کا نام بجرنگی تھا، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا ہے) یہ واقعہ نیشنل اور انٹرنیشنل نیوز بھی بنا تھا. پتہ نہیں اسلم صاحب نے کیسے اس کا الزام حفاظت کرنے والوں یعنی پولیس پر دھر دیا. کہیں وہ میرٹھ فسادات میں ملوث پی اے سی (Provincial Armed Constabulary) سے کنفیوژڈ تو نہیں ہو گئے؟
    دوسرے، جوگندر پال سے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں :
    "انہیں اردو افسانچے کا سعادت حسن منٹو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا"
    کیا منٹو کسی اور زبان کے ادیب تھے؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. اسلم جمشید پوری اردو تحقیق وادی کا ایک اہم نام ہے۔زیر نظر مضمون نہایت عرق ریزی سے قلمبند کیا گیا ہے جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہاں افسانچہ نگاروں میں نئے نام بھی متعارف کرانے کی ضرورت ہے
    خورشید بھارتی

    جواب دیںحذف کریں