اعجاز عبید سے انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-21

اعجاز عبید سے انٹرویو

aijaz-obeid-interview
اردو زبان کو محض شعر و ادب اور دینی سرگرمیوں کے علاوہ بھی استعمال کریں!
جناب اعجاز عبید سے مصاحبہ
مصاحبہ کار : ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل، لیکچرار ایم وی ایس ڈگری کالج، محبوب نگر، تلنگانہ۔

محمد اعجاز اختر جنہیں اردو دنیا بلخصوص اردو یونی کوڈ سے واقف کار اعجاز عبید کے نام سے جانتے ہیں اردو کے اہم خدمت گزار ہیں جن کی خدمات اردو کو ٹکنالوجی سے جوڑنے میں کافی اہمیت کی حامل رہی ہیں،یونی کوڈ کے حوالے سے انہوں نے قابل قد ر کام انجام دیا ہے اور اپنے متعلق ان کا یہ کہنا ہے کہ" میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے اردو کی بطور زبان یہی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے ٹکنالوجی سے جوڑ سکوں۔ بطور اردو ادیب اردو ادب میں رطب و یابس کا اضافہ ضرور کیا ہو گا لیکن اردو ادب کو میں اردو زبان کی ترقی نہیں مانتا۔ اب بھی مجھے انٹر نیٹ پر اردو کی جگہ رومن رسم الخط لکھا ہونے سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ میری یہی خواہش ہے کہ ہر اردو داں شخص محض اردو میں گوگل تلاش بھی کرے، اردو ویب سائٹس ہی مطالعہ کرے اور اردو میں ہی ای میل کرے یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، فیس بک وغیرہ پر اردو میں ہی لکھے۔ اسی نصب العین کے حصول کے لئے میں نے یونی کوڈ کو عام بنانے کی کوششیں کی ہیں"۔اعجاز عبید نے یونی کوڈ میں اردو ادب اور شاعری کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، وہ تقریبا پندرہ سالوں سے لگاتار اردو کو انٹرنیٹ پر عام کرنے کی مہم سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی تیار کی ہوئی "بزم اردو لائبریری" میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں،انہوں نے"'سمت "نامی ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا، ان سے مسلسل اصرار کے بعد انٹرویو لیا گیا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں،یہ مکالمہ اردو دنیا کے قارئین کیلئے پیش کیا جارہا۔تاکہ اعجاز عبید کی اردو خدمات سے اردو دنیا وقف ہوں۔

عزیز سہیل:
آپ کا مکمل نام،قلمی نام، تاریخ پیدائش اور آبائی مقام کی تفصیلات سے قارئین کو واقف کروائیں؟
اعجاز عبید:
مکمل نام، محمد اعجاز اختر، تاریخی نام: اعجاز بلند اختر، قلمی نام: اعجاز عبید،پیدائش:22 جنوری 1950ء لیکن غلطی سے ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ میں تاریخ 20 جون ہو گئی، جو سرکاری طور پر درست مانی گئی۔ مقام: جاؤرہ، ضلع رتلام، مدھیہ پردیش،(ننھیال) بچپن: اندور، مدھیہ پردیش (ددھیال)، ہجرت: علی گڑھ 1968ء، والدہ اور بہن علی گڑھ میں ہی مقیم ہیں۔والد کے آباء و اجداد البتہ نصیر آباد، راجستھان سے تھے۔

عزیز سہیل:
آپ کی تعلیمی قابلیت اور کن تعلیمی اداروں سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے؟
اعجاز عبید:
ہائی اسکول بلکہ ہائر سیکنڈری اسکول، اسلامیہ کریمیہ ہائر سیکنڈری اسکول، اندور،1966ء،1968ء سے1973ء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بی ایس سی (آنرس)، اور ایم ایس سی، جیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ، اس کے بعد کچھ دن وہیں ریسرچ اور لکچرر شپ 1975ء تک۔

عزیز سہیل:
اپنے خاندان سے متعلق کچھ بتائیے ؟
اعجاز عبید:
والد، مرحوم صادق ؔ اندوری، اندور کے معروف استاد شاعر،والدہ، عبیدہ انجمؔ ، وہ بھی شاعرہ ہیں۔ اور کافی شائع بھی ہوئی ہیں اپنے زمانے میں۔

عزیز سہیل:
اساتذہ یا والدین میں سے، کس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور کیوں ؟
اعجاز عبید:
دونوں سے کافی حد تک، والد سے عروض کیُ شدبد حاصل ہوئی۔

عزیز سہیل:
آپ اپنا وقت کیسے گزارتے ہیں(مشغولیات)؟
اعجاز عبید:
آج کل، رٹائر مینٹ کے بعد، تو ضروریات جن میں مسجد بھی شامل ہے، کے علاوہ محض کتابوں کی تدوین میں۔ اس کے علاوہ اردو کی جس خدمت کا موقعہ مل جائے اور میں انجام دے سکوں۔ اردو محفل فورم میں اصلاح سخن کا کام بھی میں نے لے رکھا ہے۔

عزیز سہیل:
روزگار کی کیا مصروفیات رہی ہیں؟
اعجاز عبید:
علی گڑھ میں لکچرر شپ کے بعد1975ء میں بطور جیالوجسٹ جیالوجیکل سروے آف انڈیا میں جائن کیا، وہیں سے 2010ء میں رٹائر بطور سلیکشن گریڈ ڈائریکٹر۔کولکتہ ، حیدر آباد، شیلانگ۔ حیدر آباد ناگپور اور پھر حیدر آباد میں پوسٹنگ رہی، اگرچہ ٹریننگ وغیرہ کے سلسلے میں تقریباً ہندوستان کے ہر صوبے کی سیر کی، سوائے پنجاب اور ہماچل پردیش کے۔ ان ۵۳ سالوں میں کوئی ۲۲ سال فیلڈ ورک بھی کیا ، یعنی شہروں سے دور دور مقامات پر کیمپ کر کے سروے کئے۔

عزیز سہیل:
کون سی بات آپ کو فوری ناراض کر دیتی ہے؟
اعجاز عبید:
مجھ کو تو لگتا ہے کہ میں ناراض ہی نہیں ہوتا، البتہ جس بات سے دلی تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ اس بات پر کہ جب مجھ پر کوئی غلط الزام لگاتا ہے۔ اور میرا توجیہی بیان سننا نہیں چاہتا۔

عزیز سہیل:
کون سا شاعر پسندہے ،ادباء میں کس کو پسندکرتے ہیں اورآپ کس شاعر یا ادیب سے زیادہ متاثر ہیں؟
اعجاز عبید:
بہت سے، اساتذہ کے علاوہ فیضؔ ،فراقؔ ، ابن انشاؔ ء ، ناصرؔ کاظمی،ظفر اؔ قبال، عرفانؔ صدیقی وغیرہ،نثر میں بھی بہت نام ہیں۔ کرشن چندر، احمد ندیم قاسمیؔ ،بیدی، قر ۃالعین حیدر، مشتاق احمد یوسفی۔ اور ابن صفی بھی۔علی گڑھ میں شروع میں بشیر بدرؔ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا تو کچھ ان سے، ناصر ؔ کاظمی سے، لیکن ان کے چنگل سے نکلنے کے بعد کسی سے نہیں۔

عزیز سہیل:
کوئی کتاب جس نے آپ کی زندگی پر اثرات مرتب کیے ؟
اعجاز عبید:
ایسی تو کوئی کتاب نہیں،البتہ بہت سی کتابیں پسند ضرور آئیں۔ عبد اللہ حسین کی اداس نسلیں، قدرت اللہ شہاب کی یا خدا، شوکت صدیقی کی خدا کی بستی ، عینی آپا کے آگ کادریا سے زیادہ پت جھڑ کی آواز، میرے بھی صنم خانے اور آخر شب کے ہم سفر، مشتاق یوسفی کے چراغ تلے، خاکم بدہن اور آب گم وغیرہ ۔

عزیز سہیل:
آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟
اعجاز عبید:
کہ میرے خزانے میں موجود ہزاروں کتابوں کے مواد کو اپنی زندگی میں ہی تدوین کر کے اپ لوڈ کر سکوں۔

عزیز سہیل:
آپ کتنی کتابوں کے مصنف ہیں نام اور موضوع بتلائیے ؟
اعجاز عبید:
پکی روشنائی سے تو کوئی کتاب چھپی ہے نہ میں نے اس طرف توجہ دی ہے۔ برقی طور پر شایع شدہ کتابیں ہیں دو غزلوں کے مجموعے 'تحریرِ آبِ زر' اور 'اپنی برہنہ پائی پر'، ایک طویل نظم 'صاد' اور ایک مکمل مجموعہ 'صاد اور دوسری نظمیں'، ایک ناولٹ 'مائل بکرم راتیں' افسانوں کا مجموعہ 'تتلی کے پر' اور حج کا سفر نامہ مزاحیہ اندازِ تحریر میں 'اللہ میاں کے مہمان'۔یعنی 'صاد' کو ملا کر کل سات کتابیں۔

عزیز سہیل:
اپنا کوئی پسندیدہ شعر/نظم شئیر کریں۔
اعجاز عبید:
یہ کہنا تو بہت مشکل ہے۔ ویسے شاعری سے زیادہ مجھے اپنا ناولٹ 'مائل بکرم راتیں' پسند ہے۔ اور اتفاق سے وہی غزلیں بھی مجھے زیادہ پسند ہیں جو ناصر ؔ کاظمی کے اتباع میں کہی گئی ہیں، کچھ ان کی ہی زمینوں میں۔

عزیز سہیل:
اردو ادب میں آپ کی کیا خدمات ہیں،اردو کو ٹکنالوجی سے جوڑ نے میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟
اعجاز عبید:
ان دونوں سوالوں کا مشترکہ جواب دینا پسند کروں گا۔ وہ اس لئے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے اردو کی بطور زبان یہی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے ٹکنالوجی سے جوڑ سکوں۔ بطور اردو ادیب اردو ادب میں رطب و یابس کا اضافہ ضرور کیا ہو گا لیکن اردو ادب کو میں اردو زبان کی ترقی نہیں مانتا۔ اب بھی مجھے انٹر نیٹ پر اردو کی جگہ رومن رسم الخط لکھا ہونے سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ میری یہی خواہش ہے کہ ہر اردو داں شخص محض اردو میں گوگل تلاش بھی کرے، اردو ویب سائٹس ہی مطالعہ کرے اور اردو میں ہی ای میل کرے یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، فیس بک وغیرہ پر اردو میں ہی لکھے۔ اسی نصب العین کے حصول کے لئے میں نے یونی کوڈ کو عام بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میدان میں میں اردو میں بعد میں آیا، اس سے پہلے ہندی کے میدان میں آیا۔ اس کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میں نے قرآن درپن کے نام سے ہندی میں قرآن کے آخری پارے کی تفسیر شروع کی تھی۔ ویسے میں کوئی دینی عالم تو نہیں، لیکن یہ ضرور محسوس کرتا تھا کہ ہندی میں کوئی قابل قدر تفسیر موجود نہیں، اور اس ضمن میں کام کیا جائے۔ اس سے پہلے کمپیوٹر سے واقف ہو چکا تھا اور انگریزی میں مائکرو سافٹ ورڈ وغیرہ میں کام کرتا رہا تھا۔ لیکن جب ہندی کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس کے لئے محض کچھ سافٹ وئر ہی دستیاب ہیں، اور اگر یہ استعمال کر کے ٹائپ بھی کیا جائے تو پڑھنے والوں کو وہی سافٹ وئر بھی استعمال کرنا ہو گا جسے ٹائپ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی تو 'شوشا' نامی فانٹ مل سکے جن کو اس طرح استعمال کیا جا سکتا تھا جو ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے کسی بھی سافٹ وئر میں پڑھا جا سکتا تھا۔ محض مذکورہ فانٹ کی ضرورت ہوتی تھی، جو اس وقت مجھے اس لئے بہتر لگا کہ صارف کو محض فانٹ انسٹال کرنے کی ضرورت تھی، اور مائکرو سافٹ ورڈ کے ڈاکیومینٹ میں فانٹ کو شامل بھی کیا، بلکہ تکنیکی اصطلاح میں امبیڈ (embed)بھی کیا جا سکتا تھا اس وقت یہ ترکیب مجھے بہت پسند آئی۔ اور شوشا میں ایک ہی حرف کو دو کنجیوں کی مدد سے لکھنے کی بجائے میں نے ایسے فانٹس بنانے کی سوچی جو ایک Key stroke میں ہی پورا حرف لکھ سکیں۔ اور اس طرح میں فانٹ بنانے کے میدان میں کود پڑا۔ اس کی ضرورت یوں بھی تھی کہ اس زمانے میں اپنے دفتر میں دوسرے جیالوجسٹس کی رپورٹس کی نشر و اشاعت کے شعبے میں تھا، اور ضروری تھا کہ ہر انگریزی رپورٹ کا کم از کم خلاصہ ہندی میں بھی دیا جائے۔ تو میں نہ صرف ترجمہ خود کرتا تھا، بلکہ ہاتھ سے سٹینسل پر لکھ کر سائکلو سٹائل کرواتا تھا اور اسے انگریزی رپورٹ میں شامل کرتا تھا۔ اسی کے بعد حج بیت اللہ پر بھی گیا1977ء میں تو حج کا مزاحیہ سفر نامہ لکھا۔'اللہ میاں کے مہمان' کے نام سے۔ اسے بھی کمپیوٹر میں ٹائپ کرنے کا خیال آیا تو پھر اردو کمپیوٹنگ کی دنیا میں بھی داخل ہوا۔ پہلے اشہر فرحان کے 'اردو صفحہ ساز'کاپتہ چلا۔ یہ جیلانی بانو کے صاحب زادے ہیں۔ ان کے دوست راجیو سے اس سافٹ وئر کا کام کرنا سیکھا اور اس زمانے میں رائج فلاپی ڈسکس میں اس کا شئر وئر ورڑن حاصل کیا جو قابل استعمال تھا۔ اسی میں ٹائپ کرنا شروع کیا لیکن پھر انٹر نیٹ سے ربط ہوا، اور ان پیج کا معلوم ہوا، تو اسی چوری کے سافٹ وئر پر پہلی بار مکمل کتاب ٹائپ کی۔ لیکن وہ احساس ضرور ہوا کہ اگر اس سافٹ وئر کی جگہ محض کوئی فانٹ استعمال کیا جا سکے۔ حالانکہ اسی زمانے میں یونی کوڈ آ چکا تھا1998ء میں، لیکن مجھے2000ء میں اس کا پتہ چل سکا۔ اس سے پہلے اسی تلاش و جستجو میں یاہو گروپس بنائے، ایک اردو کمپیوٹنگ، ایک انڈک کمپیوٹنگ اور ایک قرآن ان ہندی۔ اسی گروپ کے مراسلوں کے ذریعے ہی یونی کوڈ سے واقفیت ہوئی۔ اور ساتھ ہی نبیل نقوی اور زکریا اجمل سے تعلق ہوا۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسی آن لائن سوشل کمیونٹی بنائی جائے جہاں سب لوگ ٹکنالوجی سے دور رہنے والے بھی اردو میں ہی بات چیت کر سکیں، اردو رسم الخط میں ہی۔ نبیل نے ایک جاوا سکرپٹ میں اردو ایڈیٹر لکھا تھا، اور وہی اردو ایڈیٹر اب بھی کئی ویب سائٹس، فورمس اور بلاگس میں استعمال میں آتا ہے۔ بہر حال ای میل کے ذریعے ہی سب دوستوں نے مل کر اردو محفل (اردو ویب ڈاٹ آرگ/محفل) کی شروعات کا طے کیا۔ اردو محفل ہی انٹر نیٹ پر اردو کی نہ صرف پہلی یونی کوڈ اردو فورم ثابت ہوئی بلکہ یونی کوڈ اردو کی ترقی کے لئے بنیادی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ سارے ہی اردو والنٹئرس کا تعلق کسی نہ کسی مرحلے پر اردو محفل سے رہا ہے۔ میں نے بھی اپنی صلاحیت کے مطابق کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ فانٹس اور کی بورڈس بنائے۔ ان پیج سے یونی کوڈ کنورٹربنانے میں تعاون کیا۔ اور اس کے بعد اردو الفاظ کی فہرست سازی میں حصہ لیا۔ اصل میں تو فہرست سازی پاکستان کے ایک ادارے، سنٹر فار ریسرچ ان اردو لینگویج کمپیوٹنگ (CRULP) نے بنائی تھی، لیکن معلوم ہوا کہ یہ فہرست سازی موجود ویب سائٹس سے حاصل شدہ مواد سے ہی بنائی گئی تھی، اور ہم اردو والے ٹائپنگ کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس لئے اس لسٹ میں بے شمار 'غیر الفاظ 'کا شمول ہو گیا تھا۔ مثلاً اصل فہرست کا پہلا لفظ تھا 'آآکر' جو در اصل تین الفاظ کا مجموعہ ہے: 'آ'،' آ' اور 'کر'، اور واحد لفظ نہیں کہا جا سکتا۔پھر جب مائکرو سافٹ نے اپنے مائکرو سافٹ آفس میں اردو میں عمل لفظی کی شروعات کی تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی الفاظ کی فہرست بہت کم ہے۔ اور میں نے کرلپ کی فہرست کو درست کر کے اس فہرست کو کسٹم ڈکشنری کے طور پر استعمال کیا۔ اور اب یہی اسٹینڈرڈ مانی جاتی ہے۔ یونی جہاں بھی مائکرو سافٹ آفس میں اردو میں عملِ لفظی کیا جاتا ہے، یہی میری تبدیل شدہ فہرست بطور کسٹم ڈکشنری استعمال ہوتی ہے۔ بزم اردو لائبریری اور برقی کتابوں کی تدوین کی وجہ سے اس میں کئی الفاظ شامل ہوتے جا رہے ہیں اور یہ فہرست مزید ضخیم ہوتی جا رہی ہے۔
ابھی میں نے ہم اردو والوں کی 'غیر سنجیدگی' کی بات کی تھی۔ اسے کچھ مزید واضح کر دوں۔ در اصل اردو ٹائپنگ کرنے والے اس حقیقت سے رو گردانی کرتے ہیں کہ کسی بھی لفظ کی پہچان اس سے ہوتی ہے کہ جہاں یہ ختم ہو، وہاں اس کے اگلے لفظ سے پہلے ایک عدد خالی اسپیس دینی ضروری ہے۔ جیسے اوپر کی مثال میں 'آ' کے بعدا سپیس، پھر 'آ' کے بعد ایک اسپیس، اور پھر 'کر' لیکن ہم اردو والے نہ جانے کیوں اس کا خیال نہیں رکھتے اور جہاں حروف نہیں ملتے ہیں، وہاں بغیر اسپیس دئے اگلا لفظ ٹائپ کر دیتے ہیں۔'ا' یا 'آ' کیونکہ اگلے حرف سے نہیں ملتا ہے، اس لئے اس کے بعد کی ضروری اسپیس نہیں دی جاتی۔ اسی طرح 'ر' بھی اگلے حرف سے نہیں ملتا ہے، اس لئے 'کرسکتا' کو ملا کر لکھ دیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے 'کرسک' اور 'جاسک' یا 'آسک' کو مائکرو سافٹ آفس کی اصل اردو لغت بھی غلط قرار نہیں دیتی!!اسی طرح اکثر واحد لفظ کو بھی توڑ دیا جاتا ہے۔ 'اور' جیسے عام لفظ کو بھی میں نے 'او' اور 'ر' یا 'ا' اور 'ور' کے طور پر دو الفاظ کی صورت میں اکثر لکھا دیکھا ہے۔ یعنی 'اور' جیسے اکلوتے لفظ میں اسپیس دے کر دو الفاظ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ میں اسے صرف غیر سنجیدگی سے ٹائپ کرنے کی غلطی سمجھتا ہوں۔ابھی حال ہی میں میں نے اپنے لئے پروف ریڈنگ میں مدد کے لئے اردو محفل کے ہی رکن اور فعال پروگرامر اسد سے وڑول بیسک میں پروگرام بنوایا ہے، جس سے ایسے تمام غلط الفاظ خود کار طور پر درست ہو جاتے ہیں۔ یہ پروگرام بھی اردو محفل پر ہی موجود ہے۔

عزیز سہیل:
اپنے رسالے کے بارے میں بتلائیے؟
اعجاز عبید:
میں نے یہ محسوس کیا کہ اردو یونی کوڈ کی ترویج زیادہ ضروری ہے، اور اس کا تجربہ ہوا کہ اردو کی ترقی ایک طرف شعر و ادب سے جڑی ہے تو دوسری طرف دین اسلام سے۔ اسی سلسلے میں پہلے برقی کتابوں کی لائبریری بنائی۔لیکن دینی ویب زیادہ تر مسلکوں میں تقسیم ہے، اس لئے اسے دوسروں کے لئے چھوڑ کر محض ادبی سائٹ کے طور پر 'سمت' کا اجراء کیا۔ جو یونی کوڈ اردو کا پہلا ادبی رسالہ تھا۔ اس کا پہلا شمارہ نومبر2005ء میں سامنے آیا۔ اس وقت یہ ایک بلاگ کی صورت میں تھا۔ مختلف ڈومین کے بعد اب یہ تین چار سال سے بزم اردو کے پلیٹ فارم سے سہ ماہی جریدے کے طور پر نکل رہا ہے اور ماشاء اللہ خاصا مقبول ہے۔

عزیز سہیل:
اپنی ویب سائٹس اوراس کی اہمیت کو بیان کیجئے؟
اعجاز عبید:
آج کل بزم اردو پلیٹ فارم سے ہی منسلک ہوں۔ 'سمت' بھی اسی پلیٹ فارم سے نکلتا ہے اور بزم اردو برقی لائبریری بھی۔ کچھ کتابیں جو با قاعدہ چھپ چکی ہوتی ہیں، ان کی کمپوز کی ہوئی (ان پیج سافٹ وئر میں جو اردو کا مقبول سافٹ وئر ہے) فائلیں مصنفین یا ناشرین بھیجتے ہیں۔ میں ان کو یونی کوڈ اردو میں تبدیل کرتا ہوں، پھر اک کی فارمیٹنگ اور پروف ریڈنگ کرتا ہوں، جسے عملِ لفظی یا محض تدوین کہتا ہوں، اور پھر اس متن کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیتا ہوں۔ ویب سائٹ کی اینڈرائڈ ایپ بھی ہے۔ اور سمارٹ فون پر بھی اس ایپ کے ذریعے ساری کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں۔

عزیز سہیل:
اردو تکنالوجی اور یونی کوڈ کی وضاحت کیجئے؟
اعجاز عبید:
یونی کوڈ سے پہلے اردو میں کمپیوٹر پر لکھنا جیسے ای میل ممکن نہیں تھا۔ ویب سائٹس نہیں تھیں۔ ان پیج پروگرام کی اس قدر حکمرانی تھی کہ اسی کے ذریعے ایک ایک صفحہ کو تصویر کی شکل میں اکسپورٹ کیا جا سکتا تھا۔ اور یہی تصویریں اٹیچ کر کے اردو میں ای میل کیا جاتا تھا۔ ویب سائٹس بھی انہیں تصویروں کی شکلوں میں ہوتی تھیں۔ جب یونی کوڈ کا استعمال شروع ہوا تب بھی نستعلیق فانٹس نہیں بن سکے تھے۔ سب سے پہلے کرلپ نے ہی 'نفیس نستعلیق' نامی فانٹ بنایا جو بہت سست رفتار کی وجہ سے مقبول نہیں ہو سکا۔ لیکن 2006 ء میں پاک نستعلیق اور 2008ء میں علوی نستعلیق کے اجراء کے بعد تو جیسے انقلاب آ گیا ہے۔ نسخ سے اجتناب برتنے والے بھی اب نستعلیق فانٹس میں ویب سائٹس اور بلاگس بنانے لگے۔ علوی نستعلیق کے کچھ ہی عرصے بعد جمیل نوری نستعلیق کا اجراء بھی ہوا جو سب سے زیادہ مقبولیت کا حامل رہا ہے۔
ایک بات اور کہہ دوں کہ تصویروں کی شکل میں ویب سائٹس میں کیا مشکل در پیش تھی۔ انٹر نیٹ پر سب سے ضروری چیز 'تلاش' ہوتی ہے۔ آپ کو جب بھی کسی چیز کے بارے میں جاننا ہوتا ہے، تو اس کا نام لکھ کر 'گوگل' کرتے ہیں۔ اس میدان میں 'گوگل' کی ایسی حکمرانی ہے کہ تلاش کرنا اور 'گوگل کرنا' ہم معنی ہو گئے ہیں۔ تو جب تک اردو تصویروں کی شکل میں تھی، گوگل اور اس قسم کے دوسرے سرچ انجنوں کی دسترس سے دور تھی۔ کہ یہ تصویریں تھیں، متن نہیں تھا۔ جب متن ہی انٹر نیٹ پر شامل ہونا شروع ہو گیا تو سرچ انجن بھی کامیاب ہونے لگے۔ انگریزی میں تلاش کرنے پر درست اسپیلنگ کا معلوم ہونا بھی ضروری تھا۔فرض کیجئے کہ آپ میرا نام ہی تلاش کریں، اعجاز عبید انگریزی میں کتنی مختلف صورتوں میں لکھا جاتا ہے۔ اعجاز کو، Ajaz،Ejaz،Aijaz،Aejaz،Ejaaz،اور عبید کو بھیUbaid،Obaid،Ubed،Obedکے طور پر لکھا جا سکتا ہے۔ اور مختلف اعجازوں اور عبیدوں کے بارے میں روابط ملیں گے، لیکن اگر اردو میں ہی تلاش کریں تو آپ کو یقیناً میرے بارے میں ہی روابط مل سکیں گے۔
یہی نہیں، بلکہ اگر آپ کو اگر اپنے مضمون میں کوئی اقتباس شامل کرنا ہے تو اسے بھی راست کاپی پیسٹ کر کے اپنے مضمون کو کمپیوٹر میں ہی ٹائپ کر سکتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی کی شاعری پر کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں، تو شاعر مذکور کے اشعار ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں، اگر ان کا متن ویب سائٹس پر مل جائے تو کاپی پیسٹ کیا جا سکتا ہے۔ ار آپ خود اردو میں ٹائپ نہ بھی کر سکتے ہوں یا کسی اور کمپیوٹر پر کام کر رہے ہوں جہاں اردو کی بورڈ دستیاب نہ ہوتو آپ کسی معلوم ویب سائٹ کھول کر جس چیز کی سرچ کرنا ہے، اس کا نام وہاں سے کاپی کر سکتے ہیں۔ جیسے غالب کے تصوف پر آپ کو مضمون لکھنا ہے۔ تو 'غالب' لفظ اور 'تصوف' لفظ کاپی کر کے گوگل کے سرچ باکس میں پیسٹ کر سکتے ہیں۔ اگر خود ہی ٹائپ کر سکیں تو بس ٹائپ کیجئے۔ یا کسی کے شعر کا ایک مصرع آپ کو یاد آ رہا ہے، تو وہ مصرع ٹائپ کیجئے اور سرچ کیجئے، یقین واثق ہے کہ معروف شعر ہونے کی صورت میں آپ کو مکمل شعر مل جائے گا۔

عزیز سہیل:
آپ ابھی کس پروجکٹ پر کا م کر رہے ہیں؟
اعجاز عبید:
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، 'سمت' اور 'بزم اردو لائبریری' ہی میرا بنیادی پروجیکٹ ہے۔لیکن اپنی خدمات جہاں ضرورت ہوتی ہے، اور میں جس کی اہلیت رکھتا ہوں، وہاں پیش کر دیتا ہوں۔

عزیز سہیل:
اردو کے عصری منظر نامہ سے متعلق آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟سوشیل میڈیا اور اردو کا فروغ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اعجاز عبید:
اردو سے میں مایوس نہیں ہوں۔ کم از کم کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی حد تک۔ البتہ تعلیم و تدریس کی صورت حال بہت مایوس کن ہے۔ جب تک اردو داں طبقہ یہ طے نہ کر لے کہ ہم کو اپنے بچوں کو اردو پڑھانا ضروری ہے، اردو کی ترقی ممکن نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں نوجوان طبقہ اپنا کافی وقت لگا رہا ہے (ضائع کر رہا ہے نہیں کہہ رہا ہوں کہ ممکن ہے اس کا مثبت استعمال بھی کیا جا رہا ہو) لیکن زیادہ تر پوسٹس اب بھی رومن میں ہی کی جا رہی ہیں۔ خود فیس بک بھی اردو میں عرصے سے دستیاب ہے۔ اردو والے اسے اردو میں ہی استعمال کریں اور اردو میں ہی ٹائپ کر سکیں تو بہتر ہو گا۔

عزیز سہیل:
ہم شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔کیا آپ اپنے سبکدوشی کے بعد کے حالات کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
اعجاز عبید:
سبکدوش ہونے کے بعد میرا زیادہ تر وقت بزم اردو لائبریری میں ہی گزر رہا ہے۔ اس کے علاوہ دینی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کے سفر بھی زیاد ہونے لگے ہیں جہاں بچے مقیم ہیں۔

عزیز سہیل:
عام روش سے ہٹ کر آپ نے اردو زبان کی تعلیم کو سائنس وغیرہ کے مضامین پر کیوں ترجیح دی؟
اعجاز عبید:
نہیں، تعلیم تو میں نے سائنس کی ہی حاصل کی۔ البتہ مادری زبان ہونے کی وجہ سے اردو سے تعلق کبھی ٹوٹا نہیں۔ بلکہ علی گڑھ کے زمانے سے ہی اس وقت ترقی اردو بورڈ کے اردو انسائکلو پیڈیا پروجیکٹ سے منسلک بھی تھا۔ اصطلاح سازی کمیٹیوں میں بھی حصہ لیا، اور انسائیکلو پیڈیا کے لئے جیالوجی کے ہی موضوعات پر کئی مضامین بھی لکھے۔1970ء سے 1980ء تک۔ اب این سی پی یو ایل کے تحت ان کی کچھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں، لیکن اتفاق سے جیالوجی والی جلد اب تک شائع نہیں ہو سکی۔ شاید اس کا بھی ذکر مجھے اردو کی ترویج میں اپنی خدمات کے ضمن میں کرنا تھا۔

عزیز سہیل:
تخلیقی اعتبار سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
اعجاز عبید:
میرا تعلق کسی ازم سے نہیں ہے اور میں یہی چاہتا ہوں کہ ادب بھی آزاد رہے۔ ادب اگر سچا ہے تو وہ پسند کیا ہی جائے گا۔ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے فلسفوں اور رجحانوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔شاعری میں مثلاً مجھے میر مومن ؔ اور مصحفی ؔ بھی اتنے ہی پسند ہیں جتنے فیضؔ ، ساحرؔ ، سردار ؔ جعفری اور ناصرؔ کاظمی، عرفانؔ صدیقی، زیب غورؔ ، شہر یارؔ اور نداؔ فاضلی۔

عزیز سہیل:
اردو کے فروغ کیلئے کس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے؟
اعجاز عبید:
اردو زبان کو محض شعر و ادب اور دینی سرگرمیوں کے علاوہ بھی استعمال کریں۔ جب تک دوسرے میدانوں میں اردو کا بول بالا نہیں ہو گا، اردو ترقی نہیں کر سکے گی۔ ہر جگہ اردو کے فروغ کے لئے آواز اٹھائیں۔ جہاں رہ رہے ہوں، وہاں کوشش کریں کہ سڑکوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور بس اسٹینڈس کے ناموں کو اردو میں لکھا جائے۔ مختلف فارمس وغیرہ اردو میں دستیاب ہوں۔ اردو میں ہی بات چیت اور خط و کتابت/ ای میل/ایس ایم ایس کریں۔ اور اپنے بچوں کو اردو تعلیم ضرور دیں۔

عزیز سہیل:
آپ اردودنیا کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
اعجاز عبید:
اپنے بچوں کو اردو میں تعلیم دیں۔ اگر آپ ہند و پاک سے باہر کسی ملک میں مقیم ہیں تو گھروں میں اردو ہی بولیں اور بچوں کو اردو بولنے پر مجبور کریں۔اگر آپ اردو بولتے ہیں تو اردو لکھنا بھی سیکھیں، کمپیوٹر اور فون پر بھی اور ان کے علاوہ بھی۔اور اردو ہمیشہ درست لکھنے کی کوشش کریں، دو الفاظ کے درمیان اسپیس چھوڑ کر، اور واحد لفظ میں غیر ضروری اسپیس نہ دے کر۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 09299655396
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

An interview with Aijaz Ubaid. Interviewer: Dr. M.A.A.Sohail

4 تبصرے:

  1. ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل صاحب نےبہت عمدہ انٹرویو لیا ہے۔ بہت ہی معلوماتی

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب۔ ایک لفظ مکمل ہونے پر اسپیس ضرور دیں۔ ایک لفظ کے اندر اسپیس نہیں دیں اور نہ ہی وقفہ اور قومہ سے پہلے اسپیس دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت اعلیٰ انڑویو ۔۔۔۔بہت خوبصورت انداز
    سلامت رہیں اُستادِ محترم اعجاز عبید صاحب
    سیما علی

    جواب دیںحذف کریں