اجودھیا سے مذہبی رواداری کا پیغام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-17

اجودھیا سے مذہبی رواداری کا پیغام


ayodhya
دریائے سرجو کے کنارے آباد اجودھیا کو مندروں کا شہر کہاجاتا ہے ۔ یہ کہاوت بھی مشہور ہے کہ اجودھیا کا ہر گھر مندر ہے ۔ اجودھیا اتر پردیش کے ضلع فیض آباد میں واقع ہے ۔ فیض آباد اور اجودھیا کے جڑواں شہر کا درمیانی فاصلہ چھ کلو میٹر ہے ۔ اجودھیا کا خیال آتے ہی ذہن میں مندروں کا خیال آتا ہے لیکن یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اجودھیا میں مساجد کی بھی کمی نہیں۔1,50,000نفوس پر مشتمل اس شہر میں2011ء کی مردم شماری کے مطابق چھ فیصد مسلمان آباد ہیں اور اس شہر میں103مساجد موجود ہیں ۔ ان میں35مساجد آباد ہیں ۔ ان مساجد میں باقاعدہ پنچ گانہ نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔ کچھ مساجد میں چند وقتوں کی نمازیں ہوتی ہیں اور باقی مساجد ویران ہیں ۔ کچھ مساجد6دسمبر1992ء میں بابری مسجد کے ساتھ شہید کردی گئی ہیں۔ شہید بابری مسجد کے قطعہ اراضی کا ایک حصہ یعنی67ایکڑ زمین جو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لی ہے ، اسکی بائونڈری دیوار سے متصل کچھ مسجدیں ویران ہیں۔ شہید بابری مسجد سے قریب ترین قاضیانہ محلہ کی تہری بازار مسجد ہے ۔ اس مسجد میں پنچ وقتہ نماز ہوتی ہے ۔ فیض آباد اور اجودھیا کے چھ کلو میٹر فاصلے کے درمیان 12مساجد ہیں ۔ اس کے علاوہ سڑک کے اطراف و جوانب کے گائوں اور محلوں میں بھی مسجدیں آباد ہیں ۔ چالیس ایکڑ رقبہ پر پھیلا ہوا ہندوستان کا سب سے بڑا قبرستان اجودھیا میں واقع ہے ۔(1 acre = 43,560 sq. ft)اس قبرستان میں سینکڑوں پختہ قبریں ہیں۔ ایک121فیٹ لمبی قبر کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ حضرت شیث علیہ السلام کی ہے۔
سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں جب مرکزی حکومت کمزور ہوگئی تو وہ امراء کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی۔ اس زمانہ میں1724ء میں نواب سعادت علی خاں نے اودھ اسٹیٹ کی داغ بیل ڈالی اور فیض آباد کو دارالسلطنت بنایا۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق فیض آباد میں15فیصد مسلمان آباد ہیں ۔ آج کے اس دور میں جب ہندو ازم کی روح یعنی مذہبی رواداری کو برہمنی ذہنیت نے ایک نئی تشریح کے ساتھ پیش کرکے ہندو تو کا بھیانک روپ دے دیا ہے ۔ ہر طرف مذہبی عدم رواداری ، معاشرتی عدم تحمل اور نفرت کی آندھی چلنے لگی ہے ۔ بھارت کی مختلف النوع تہذیب اور قومی یکجہتی کو زبردست خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ بھگوا بریگیڈ کے رضا کار لوگوں کے باورچی خانوں میں تاک جھانک کررہے ہیں اور فریج میں رکھے ہوئے گوشت کی لیب میں جانچ ہورہی ہے ۔ لوگوں کو اپنی غذائی عادات ، پوشاک اور طرز دنگی بدلنے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ بھگواایجنڈے کے پرتشدد نفاذ کی وجہ سے قیمتی جانوں کا اتلاف ہورہا ہے ۔ ایسے سنگین حالات میں بھی دریائے سریو سے ہندو مسلم اتحاد کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔
ٍ اجودھیا یا اودھ نوابوں کے عہد سے ہی گنگا جمنی تہذیب کا ایک خوبصورت پیکر رہاہے ۔ ہندو مسلمان آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ تہواروں میں ایک ساتھ مل کر خوشیاں مناتے تھے وہ فضا آج بھی قائم ہے ۔ مندروں کے اس شہر میں آج بھی ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ بھی خالص زعفرانی سیاست کی پیداوار ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت میں بھی باشندگان اجودھیا یا مندروں کے مہنت اور پجاریوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔ مندروں کا یہ شہر ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہے اور سیکولرازم کی اعلیٰ قدروں کا حامل بن کر پورے ملک کو امن، اتحاد اور مذہبی رواداری کا پیغام دے رہا ہے ۔ اس شہر میں زمانہ قدیم سے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد ہے ۔گوشت کی خریدو فروخت پر بھی پابندی ہے ۔ ہوٹلوں میں یا شادی بیاہ کے موقع پر دعوت و ضیافت میں گوشت کا کوئی پکوان شامل نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن اجودھیا کے رہنے والے ، وہاں کے پجاری اور مہنت مسلمانوں کے مذہبی فریضہ کا دل سے احترام کرتے ہیں ۔ زمانہ قدیم سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو قربانی کی اجازت دے دیتے ہیں ۔ سال رواں میں بھی جب کہ پورا ملک مذہبی عدم رواداری اور معاشرتی عدم تحمل کے شعلے میں جھلس رہا ہے ، اہل اجودھیا نے اپنے مسلمان بھائیوں کو قربانی کی اجازت دے دی ۔ میونسپل بورڈ نے عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی پر عائد پابندی اٹھالی ہے ۔ میونسپل بورڈ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ دونوں ملتوں کی زبردست باہمی مفاہمت کی وجہ سے یہ سب کچھ انجام پاتا ہے ۔ میٹ اور بیف کے تمام تر تنازعات کے درمیان مندروں کا یہ شہر مذہبی رواداری اور مذہبی جذبات کے احترام کی عظیم مثال پیش کرتا ہے ۔ اجودھیا کے ایک مقامی شہری جمال اختر کا تبصرہ ملاحظہ ہو’’ مذہبی عدم رواداری کے اس دور میں جب کہ غذائی عادات کی بنا پر لوگوں پر حملے ہورہے ہیں اور ان کا قتل کیاجارہا ہے، اجودھیا نے عظیم مثال قائم کرکے سب پر مثالی سبقت حاصل کرلی ہے ۔ کسی مذہبی رہنما یا کسی مہنت نے آج تک کبھی فریضہ قربانی ادا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، سینکڑوں مسلمان اجودھیا میں یہ فریضۃ ادا کرتے ہیں۔‘‘اجودھیا میونسپل بورڈ کے کارپوریٹر حاجی اسد احمد نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایاکہ’’ہم لوگ اجودھیا میں ہمیشہ سے قربانی کرتے آئے ہیں۔ یہاں کے مسلمان بقرعید کی قربانی بے خوف ہوکر کرتے ہیں۔‘‘
اجودھیا میونسپل بورڈ کے چیئرمین رادھے شیام گپتا کا کہنا ہے کہ’’ اجودھیا کے پنچ کوسی اکناف میں جانوروں کے ذبیحہ کی اجازت نہیں ہے لیکن بقرعید کے موقع پر مسلمان اپنے گھروں میں قربانیاں کرتے ہیں۔ صرف اتنی احتیاط برتنا ہوتی ہے کہ قربانی پبلک مقامات پر نہ ہوں۔‘‘ مہنت یوگی کشور شرن شاستری، سریوکنج ٹیمپل کے پجاری نے کہا’’ قربانی بقرعید کا بہت ہی اہم فریضہ ہے ۔ اگر ہمارے مسلمان بھائی ا پنے گھروں کے احاطہ میں یہ فرض انجام دیتے ہیں تو اس پر کوئی کیوں اعتراض کرے گا۔‘‘ اس طرح مندروں کے اس شہر نے ایک عدیم المثال کارنامہ انجام دے کر اور قابل تقلید عمل کے ذریعہ ملک کو رواداری اور بقائے باہم کا پیغام دیا ہے ۔
جس اجودھیا میں آج سے تقریبا24سال پہلے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے المناک حادثہ پیش آیا اور آج بھی ہندوستان کی پیشانی پر ایک سیاہ داغ بن کر ہندوستان کی سیکولر زم کے لئے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ۔ جس اجودھیا میں ہندو تو کی دہشت پرستی نے ہندوستان کے تاریخی ورثہ بابری مسجد کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اس اجودھیا سے مذہبی رواداری کا ایک اور حیات افروز پیغام آیا ہے ۔ ہنومان گڑھی مندر کے احاطہ میں، ہنو مان گڑھی ٹیمپل ٹرسٹ کی ملکیت قطعی اراضی پر واقع’’عالم گیری مسجد‘‘ کی وہاں کے چیف پجاری مہنت گیان داس نے تعمیر نو کی اجازت دے ری ہے ۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کو انہوں نے بتایا’’ میں نے اپنے مسلمان بھائیوں سے کہا ہے کہ وہ مسجد کی جدت کاری اور اس کی تعمیر نو کا کام شروع کردیں ۔ میں نے اخراجات برداشت کرنے کی بھی پیشکش کی ہے ۔ میں نے مسلمانوں کو نمازادا کرنے کے لئے نو آبجکشن سرٹیکفیٹ بھی جاری کردیا ہے ۔ یہ بھی تو خدا کا گھر ہے ۔‘‘
عالم گیری مسجد کی تعمیر تقریباً تین سو سال قبل مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی مرضی سے اس کے ایک جنرل نے سترہویں صدی میں کی تھی ۔ پہلے اس مسجد میں پنچ گانہ نماز اد اکی جاتی تھی ۔ امتدادِ زمانہ اور موسم کی شکست و ریخت نے مسجد کو خستہ حال بنادیا اور مقامی شہری انتظامیہ نے اسے مخدوش قرار دے کر وہاں ایک نوٹس آویزاں کردی۔ لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دیدیا ۔ اب مقامی مسلمانوں کی درخواست پر مہنت گیان داس نے نہ صرف اس کی تعمیر نو کی اجازت دی بلکہ نماز قائم کرنے کے لئے نو آبجکشن سرٹیفکیٹ جاری کردیا اور ساتھ ہی تعمیری اخراجات کی بھی پیشکش کردی ۔ مسجد کی عمارت اور اس کی زمین جس علاقہ میں واقع ہے اس کا نام ار گرا ہے۔1764ء میں بکسر کی جنگ کے بعد نواب شجاع الدولہ نے اپنا دارالسلطنت فیض آباد سے لکھنو منتقل کر دیا۔ فیض آباد میں قیام کے دوران نواب شجاع الدولہ نے ہنومان گڑھی مندر کی تعمیر و توسیع کے لئے اجودھیا میں ایک قطعہ اراضی عطیہ کیا تھا۔ جب وہ لکھنو میں منتقل گئے تو مہنتوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کرکے مزید اراضی کی درخواست کی۔1765ء میں شجاع الدولہ نے انہیں مزید3پکا بیگھا زمین عطیہ کردیا۔(1 Pucca Bigha = 3 Kachcha Bigha) اسی قطعہ اراضی پر مسجد بھی واقع تھی ۔ شجاع الدولہ نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ مسجد کی حیثیت قائم رہے گی اور اس میں نماز جاری رہے گی۔ مندر ٹرسٹ اور پجاریوں نے اس روایت کو ہمیشہ قائم رکھا۔

Religious tolerance message from Ayodhya. Article by: Ishrat Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں