مسلم مجلس مشاورت ۔ کل آج اور کل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-13

مسلم مجلس مشاورت ۔ کل آج اور کل

آزادی کے ستر سال بعد بھی ملک کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے ۔ بھارتی مسلمان بے شمار نشیب و فراز، آزمائشوں اور ٹھوکروں ، محرومیوں اور ناکامیوں، بربادیوں، اور تباہیوں سے دوچار ہونے کے باوجود ایک نئے جوش وحوصلہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے وجود و بقا ، مذہبی ، سماجی، تعلیمی، سیاسی سطح پر رہبری و رہنمائی کے لئے کئی جماعتیں ، تنظمیں، تحریکیں وجود میں آئیں ۔ جن میں سے ہر ایک نے اس وقت کے حالات و تقاضوں کے مطابق ملک و ملت کے لئے اپنی خدمات پیش کیں ۔ ان تنظمیوں نے نئے چیلنجوں کا مقابلہ بڑی پامردی سے کیا، انہیں بے شمار ٹھوکریں بھی کھانی پڑیں ، ان کے قدم یقینا وقتی طور پر ضرور لڑکھڑا ئے مگر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہبری و قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ ان میں سے چند تنظیموں کے نام یہ ہیں، تبلیغی جماعت، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ ، جمعیۃ العلماء ہند، جمعیۃ اہل حدیث، مسلم لیگ ، کل ہند تعمیر ملت ، جماعت اسلامی ہند، مجلس اتحادالمسلمین ، مسلم مجلس مشاورت، مسلم مجلس، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، آل انڈیا ملی کونسل و دیگر بے شمار علاقائی مسلم جماعتیں شامل ہیں ۔ آئیے کچھ گفتگو مسلم مجلس مشاورت کے بارے میں ہوجائے ۔
مسلم مجلس مشاورت:
مسلم مجلس مشاورت کا قیا م ایسے وقت عمل میں آیا جس وقت پورے ملک میں مسلم قیادت کا کہیں وجود نہیں تھا۔ بھارتی مسلمان بغیرقیادت کے زندگی گزار رہے تھے ۔، دور دور تک کوئی رہبر و رہنما نظر نہیں آتا تھا ۔ مسلمان عجیب کشمکش میں مبتلا تھے ۔ ملک کی آزادی کو بیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا ۔ نہایت ہی ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ تقسیم ہند کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی تھی۔ ملک کی اکثریت یہ سمجھنے لگی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد بھارتی مسلمان مساوی حقوق مانگنے کا اپنا حق کھو چکے ہیں ، اور آج بھی اکثریہ کہاجاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کا کیا ہے ان کو پاکستان دے دیا گیاہے وہ وہاں جائیں ۔ آزادی کے فوری بعد ہی ایسے خفیہ سرکیولر اور جی آر نکالے جانے لگے کہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں جگہ نہ دی جائے ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ دنیا کے سامنے ہمارا ملک ایک عظیم جمہوری ملک کہلایاجانے لگا لیکن یہاں کے سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا جس نے نا انصافیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے جس سے مسلمانوں کے وجود کو ہی چیلنج کیاجانے لگا ۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا ، مسلمانوں کی معیشت کو تباہ و تاراج کردیا گیا ، بڑی بڑی صنعتیں ان سے چھین لی گئیں ۔ گویا ملک کے اندر ہر شعبہ حیات سے ان کو بے دخل کیاجانے لگا۔ کلکتہ ، جمشید پور ، بھاگلپور کے فسادات نے مسلمانوں کے قتل عام کا جو منظر پیش کیا اس سے تاتاریوں اور ہلاکو کے ظلم و ستم کی یادیں تازہ ہوگئیں۔1961ء کے فسادات میں مسلمانوں کا بہت جانی مالی نقصان ہوا۔ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، کئی لوگوں نے اپنے نام بدل لئے اور ڈاڑھیاں تک منڈوالیں ۔ ملک کے مسلمانوں کی اس صورتحال پر بعض صاحب بصیرت افراد جن کو اللہ نے دل درد مند اور فکر ارجمند سے نوازا تھا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جب انہو ں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ میدان میں آگئے اور انہوں نے دیکھا کہ ملک کی کوئی بھی ایسی تنظیم یا جماعت نہیں جو ان حالات کا تنہا مقابلہ کرسکتی ہو۔ ڈاکٹر سید محمود ، عالم اسلام کی مشہور معروف شخصیت دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ، مفتی عتیق الرحمن (جمعیۃ العلماء ہند) مسلم لیگ کے قائد محمد اسماعیل اور جنوبی ہند کے رفقاء ابراہیم سلیمان سیٹھ نامور صحافی وسہ روزہ دعوت کے ایڈیٹر محمد مسلم و دیگر اکابرین کی موجودگی و سرپرستی میں اور ڈاکٹر سید محمود کی صدارت اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کی میزبانی میں۸۔۹؍اگست1964ء کو ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ملک کی کئی نامور شخصیتوں نے حصہ لیا اور ان سب کی رائے و صوابدید سے مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا۔مشاورت میں ملت کے ہر طبقہ، ہر فرقہ و جماعت کے افراد کو نمائندگی دی گئی ۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نہ پرجوش تقریریں تھیں اور نہ کسی قسم کی نعرے بازی اور نہ ہی کوئی گرما گر م و جوشیلی تجاویز پاس ہوئیں ۔ ان بزرگوں کے خلوص کی برکت سے اس اجلاس کو میڈیا نے غیر معمولی کوریج دیا ، نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی پریس نے اس مسئلہ کو اٹھایا جس سے مسلمانوں میں ایک نیا جوش وولولہ پیدا ہوا اور انہیں ایسا لگنے لگا کہ کوئی توہے جو ہماری آواز کو سننے والا ہے ۔ ملک کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کا یہ واحد ایسا پلیٹ فارم تھا جس میں تمام ہی مکاتیب فکر کے لوگ شامل تھے اور ہر جماعت کو اس میں نمائندگی دی گئی تھی ۔
مشاورت کے رہنماؤں نے ایک مثبت اور ٹھوس لائحہ عمل بھارتی مسلمانوں کے لئے بنایا اور اسے لے کر پورے ملک میں دورے شروع کردئیے ۔ اس میں اس بات کا ضرور خیا ل رکھ اگیا کہ مسلم جماعتوں کا یہ اتھاد وقتی اور عارضی نہ ہو اور نہ ہی کچھ محدود مسائل کے لئے کام کیاجائے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خیر امت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کو اس لائق بنایاجائے کہ وہ حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتیں اپنے اند ر پیدا کرے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اور مخلص رہنماؤں کی خلوص کی برکت سے کچھ ہی عرصہ میں مشاورت کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ۔بقول مفکر اسلام سید ابوالحسن ندوی ؒ اس تحریک میں سچی حب الوطنی ، صحیح انسان دوستی، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی قدروقیمت کا بڑی و طاقت اور خوبی سے احساس دلایا گیا ۔ ساتھ ہی ملک کے لئے حقیقی خطرہ کی نشاندہی کی گئی ۔ ایک طرف مختلف الخیال مسلمانوں کی اور دوسری طرف دور دور رہنے والوں اور ہندو مسلمانوں کو بار بار مل کر بیٹھنے اور قریب سے ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع ملا۔
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا
آج یہی تڑپ یہی درد اور یہی لگن لے کر پھر کچھ درد مندان ملت میدان عمل میں اترتے ہیں۔آپ کو شخصیتیں ضرور نئی لگیں گی لیکن یہ بزرگوں کے اس مشن کو لے کر اٹھے ہیں ۔ جس سے سابق میں مسلمانوں عزم و حوصلہ پایا تھا ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ حالات اب بھی وہی ہیں جو ماضی میں تھے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں اور فیصلہ کریں ۔ اس سلسلہ میں ماہ رواں کی13تا17تاریخوں میں ممبئی میں مسلم مجلس مشاورت مہاراشٹر زون کی جانب سے مختلف مقامات پر تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی سر کردگی میں تعلیم ، ریزرویشن ، اوقاف ،مذہبی آزادی ، اتحاد و رواداری جیسے مختلف عنوانات کے تحت پروگرام منعقد ہورہے ہیں ۔ مذکورہ پروگراموں میں کثیر تعداد میں شرکت فرماکر ملت بیداری کا ثبوت دیں۔

History of Muslim Majlis-e-Mushawarat

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں