لا کمیشن کے سوالنامہ کا مسلم پرسنل لا بورڈ بائیکاٹ کرے گا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-14

لا کمیشن کے سوالنامہ کا مسلم پرسنل لا بورڈ بائیکاٹ کرے گا

نئی دہلی
آئی اے این ایس
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے سلسلہ میں لاء کمیشن کی طرف سے جاری کردہ سوالنامہ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ بورڈ کے مطابق یکساں سول کوڈ ملک کے حق میں نہیں ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے آج یہاں پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں بورڈ کے جنرل سکریٹری مولاناولی رحمانی نے یہ اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ لاء کمیشن نے اس سوالنامہ میں غلط رہنمائی کرتے ہوئے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم اس سوالنامہ کا بائیکاٹ کریں گے ۔ کوئی بھی مسلمان اس کا جواب نہیں دے گا کیونکہ یہ گمراہ کن ہے ۔ یکساں سول کوڈ خلفشار پیدا کرے گا اور سماجی بے چینی کی طرف لے جائے گا۔ انہو ں نے الزام عائد کیا کہ اس سوالنامہ میں جانبداری کی جھلک واضح طور پر نظر آرہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستانی آئین تیا رکرتے وقت ملک کے عظیم رہنماؤں نے ملک کے تمام عوام کو مکمل مذہبی آزادی کا حق دیا ہے جس کی بنیاد پر تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد اور رسوم و رواج کے مطابق عمل کرنے اور زندگی گزارنے کا مکمل اختیار دی اگیا ہے ۔ یکساں سول کوڈ، کا نافذ ملک کی اقلیتوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ اس طرح کی کسی بھی حق تلفی کو ہرگزبرداشت نہیں کرے گا ۔ مسلمانوں کے تمام مسالک کے نمائندہ تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ آئین کے معمار بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے ملک کی وحدت و سالمیت، قومی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو برقرار رکھنے کی غرض سے آئین میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہے لیکن مرکز کی مودی حکومت، ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرتے ہوئے ملک کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ جمعیۃ العلماء ہند (ارشد مدنی) کے صدر مولانا ارشد مدنی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت کے ڈھائی برس کے دور اقتدار کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے مقصد سے وہ اس طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے ملک کو انتشار کی راہ پر ڈال رہی ہے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا مودی حکومت نے ملک کی سرحدوں کو صحیح ڈھنگ سے سنبھالنے کے بجائے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مسئلہ اٹھا کر ملک میں داخلی جنگ چھیڑ دی ہے جو ملک کی جمہوریت کے لئے سنگین خطرہ ہے ۔ مولانا مدنی نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت، جمہوریت کے نام پر ملک کو بد ترین حالات کی طرف ڈھکیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی جمہوریت کی بقا و تحفظ کے لیے ہی اقلیتوں کو آئین میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے جس کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ آئین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا ۔ مولانا ولی رحمانی نے اس اقدام کے وقت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے دانستہ طور پر اس وقت یہ مسئلہ اٹھایا تو کہ گزشتہ ڈھائی سال کی اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرسکے ، واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے کل سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ طلاق ثلاثۃ ، نکاح حلالہ اور تعدد ازدواج، اسلام کا جزوئے لازم نہیں ہیں ۔ بعد ازاں لاء کمیشن نے7اکتوبر کو اپنی ویب سائٹ پر ایک سوالنامہ پیش کیا تھا جو16سوالات پر مشتمل ہے تاکہ یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر عوام کی رائے حاصل کی جاسکے ۔ پریس کانفرنس میں موجودی دیگر ممتا مذہبی رہنماؤں میں مولانا ارشد مدنی جمعیۃ العلماء ہند، محمد جعفر جماعت اسلامی ہند، مولانا اصغر امام م ہدی مرکزی جمعیت اہلحدیث ، مولانا محمود مدنی جمعیۃ العلماء ہند ، ایم منظور عالم آل انڈیا ملی کونسل، نوید حمید آل انڈیا مجلس مشاورت ، اور مولانا ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند ان کے علاوہ بریلوی عالم مولانا توقیر رضا خان اتحاد ملت کونسل ، اور شیعہ عالم مولانا محسن نقوی بھی پریس کانفرنس میں شرکت کرنے والے تھے لیکن کسی وجہ سے قاصر رہے۔ پرسنل لاء بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے یہ بات بتائی ۔ قبل ازیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر جماعتوں نے لاء کمیشن کے سوالات کے جواب میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی بشمول طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے اور انہوں نے اس اقدام کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اقلیتی طبقہ کے خلاف جنگ کررہی ہے۔ اگر تم یکساں سول کوڈ کے نام پر کوئی چیز جبری طور پر نافذ کرو گے تب یہ ملک کی سالمیت اور اتحاد کو ختم کردے گا۔ یہ صحیح نہیں ہوگا کہ اسے مسلمانوں کے نظریہ سے دیکھنا غلط ہوگا کیوں کہ ہندوستانی گونا گوئی میں دلتوں اور قبائلیوں کے بھی قوانین آتے ہیں ۔ خود ہندو ازم میں بھی مختلف روایات موجود ہین ۔ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر قانون اور کانگریس قائد ویرپا موئلی نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کو ہندوستان جیسے ملک میں کیسے نافذ کیاجائے جب کہ یہاں مختلف طبقے اور گروہوں کے پرسنل لاء موجود ہیں ۔ اس ملک میں یکساں سیول کوڈ کو روبہ عمل لانا ناممکن کے قریب ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اسے فرقہ وارانہ ایجنڈہ یا ہندو۔ مسلم اختلافی مسئلہ نہیں سمجھے گا۔ انہوں نے کہا کہ200تا300پرنسل لاء مختلف طبقوں کے ہندوستان میں موجود ہیں ۔ بی جے پی کے نیشنل سکریریٹری سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ لاء کمیشن تمام طبقوں سے اس ضمن میں اس کی رائے معلوم کرے گا اور وہ ایک سمجھا گیا اظہار خیال تیار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کرے گا ۔ اب یہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ہے کہ آیا وہ اس شامل ہونا چاہے گا یا اپنی الگ شناخت رکے گا، اگر پرسنل لاء بورڈ کے لوگوں کو غلط اطلاعات ملی ہیں، تب میں اسپر کچھ نہیں کرسکتا۔ جے ڈی یو رکن پارلیمان علی انصاری نے حکومت سے سوال کیا کہ کیوں وہ صرف مسلمانوں پر توجہ مرکوز کررہے ہیں اور یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ ایسی بحث کی جائے۔ وہ سماج کو منقسم کرنا چاہتے ہیں۔ شیو سینا نے کہا کہ ہماری پارٹی کا موقف ایک کوڈ، ایک قانون ہے اور ہم اس مسئلہ کو ایک قومی مسئلہ مانتے ہیں ناکہ مذہبی ۔ شاید یہ اپنی تاریخ کا پہلا ایسا اقدام ہے کہ لاء کمیشن7اکتوبر کو عوام سے اس ضمن میں جواب چاہتا ہے کہ آیا طلاق ثلاثہ کو ختم کیاجائے اور یکساں سول کوڈ کو اختیار کیاجائے ۔

Law Commission questionnaire Muslim Personal Law Board would boycott

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں