انتخابات میں مجرمین کے حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے کی سپریم کورٹ میں درخواست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-09-15

انتخابات میں مجرمین کے حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے کی سپریم کورٹ میں درخواست

نئی دہلی
پی ٹی آئی
لوک پال اور لوک آیوکت کے تقررات سے متعلق مفاد عامہ کی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے آج حکومت کو جواب داخل کرنے کو کہا۔ جسٹس رنجن گو گوئی اور جسٹس پی سی پنت پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی اس درخواست کا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ۔ اس درخواست میں لوک پاک اور لوک آیوکت کو موثر کارکردگی کے لئے بجٹ اور درکار انفراسٹرکچر فراہم کرنے کی خواہش کی گئی ہے ۔ مفاد عامہ کی یہ درخواست دہلی بی جے پی کے لیڈر اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے داخل کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ لوک پال اور لوک آیوکت قانون2013ء کی یکم جنوری2014ء کو صدر جمہوریہ ہند کی منظوری حاصل ہوئی ہے ، حکومت نے ہنوز لوک پال کا تقرر نہیں کیا ہے ۔ لوک پال اور لوک آیوکت قانون کے دفعہ63کے تحت ہنوز تقررات عمل میں نہیں لائے ہے ۔ ایک اور مفاد عامہ کی درخواست میں مجرمین کے سیاست میں داخلہ روکنے سے متعلق مفاد عامہ کی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کو جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ۔ مفاد عامہ کی اس درخواست میں عدالت سے کہا گیا کہ وہ مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ مجرمین پر انتخابات میں حصہ لینے پر تا حیات پابندی عائد کی جائے تاکہ وہ سیاست میں داخل نہ ہوسکیں ۔ جسٹس رنجن گو گوئی اور جسٹس پی سی پنت پر مشتمل سپریم کورٹ نے بنچ نے حکومت ہند اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس درخواست پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ۔ اس درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاست دانوں کی اقل ترین تعلیمی قابلیت اور اعظم ترین حد عمر مقرر کی جائے ۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی اور نکسلائٹس سر گرمیوں کے علاوہ کرپشن اور مجرمانہ سیاست کے باعث سے ملک کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی جانب سے داخل کردہ اس درخواست میں کہا ہے کہ عاملہ اور عدلیہ میں جب ایک شخص کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ راست طور پر معطل ہوجاتا ہے اور اس کی خدمات پر تا حیات پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔ تاہم مقننہ میں اسی قانون کو مختلف انداز میں عمل آوری کی جاتی ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں