ابن صفی کے لازوال کردار فریدی و عمران ۔ واٹس اپ کا ایک دلچسپ مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-08-07

ابن صفی کے لازوال کردار فریدی و عمران ۔ واٹس اپ کا ایک دلچسپ مکالمہ

شائع شدہ: روزنامہ "خبریں" (نئی دہلی) ، بروز اتوار - 7/اگست 2016ء
اخبار لنک
بشکریہ : زین شمسی

مغربی بنگال کے معروف شاعر و ادیب احمد کمال حشمی کے قائم کردہ واٹس اپ گروپ "قرطاس و قلم" کا ایک مکالمہ۔
جاوید نہال حشمی: موبائل کے یہ ملٹی لنگ اور سوئفٹ کی۔بورڈ کا معاملہ بالکل فریدی اور عمران والے معاملے جیسا ہے، دونوں "فرقے" اپنی اپنی پسند کی خوبیاں بتاتے ہیں
مکرم نیاز: ملٹی لنگ بکواس ہے عمران کی طرح چھچورا۔
ارشد جمال: سوئفٹ بھاری بھرکم اور مصنوعی ہے فریدی کی طرح۔
خورشید اقبال: کیا کہا عمران چھچھورا؟ میں برا مان جاؤں گا۔ عمران کا بہت بڑا فین ہوں۔ اردو میں عمران کی طرح کا دوسرا کیرکٹر لکھا ہی نہیں گیا۔
ارشد جمال: ایک آپ پر کیا منحصر ہر ذہین اور سمجھدار آدمی عمران کا شیدائی ہوتا ہے۔
مکرم نیاز: عمران نہ صرف چھچورا ہے بلکہ غیرفطری ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ پرش ہی نہیں ہے، اب "مہا پرش" ہے مت کہیے گا، مہاپرش تو فادر ہارڈ اسٹون ہے۔
ارشد جمال: غیر فطری تو فریدی ہے۔ مادام تساد کا پتلا معلوم ہوتا ہے۔ مہا پرش نہیں، مہا روبوٹ ہے۔
مکرم نیاز: فریدی اور غزالہ کے متعلق کیا خیال ہے پھر ؟
خورشید اقبال: سچ ہے فریدی مہا پرش لگتا ہے لیکن عمران ایک عام انسان ہے جو کبھی شو آف نہیں کرتا فریدی کی طرح۔
ارشد جمال: غزالہ کا معاملہ بھی مصنوعی ہی لگتا ہے۔ فریدی کے مصنوعی پن کو رفع کرنے کی ابن صفی کی ایک شعوری کوشش۔
خورشید اقبال: فریدی کے ناولوں میں حمید حماقتیں کرتا رہتا ہے۔ فریدی کہیں غائب ہو جاتا ہے اور اچانک آکر سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیتا ہے
ارشد جمال: بالکل صحیح تجزیہ، یہی بات بالکل غیر فطری لگتی ہے۔
خورشید اقبال: لیکن عمران کے ناولوں میں کیس اچانک حل نہیں ہوتا۔ کہانی دھیرے دھیرے آگے بڑھ کر اختتام کو پہونچتی ہے۔
محمد علی صدیقی: فریدی ذہانت کا پتلا نظر آتا ہیے۔ لیکن عمران کا کیرکٹر ایسا ہیے کہ وہ ذہین ہوتے ہوے بھی ذہانت کو چھپاتا ہے۔
خورشید اقبال: چھچھورا تو حمید ہے
ارشد جمال: فریدی کو حمید اس کی ذہانت کی وجہ سے عزیز ہے۔ جبکہ حمید کے کردار میں ذہانت دور دور تک نہیں دکھائی دیتی۔
خورشید اقبال: وہ جتنے اندازے لگاتا ہے سب کو فریدی آخر میں غلط ثابت کر دیتا ہے
ارشد جمال: اصل میں فریدی کا قد مصنوعی طور پر حمید کا کردار خلق کیا گیا ہے تاکہ اس کو پستی میں گرا کر فریدی کو بلندی پر دکھایا جا سکے۔
مکرم نیاز: ایں ؟؟ ابن صفی کے کرداروں کا تجزیہ کرنے والے ماہرین نے تو یہی کہا کہ۔۔۔۔ فریدی کا کردار نہایت خشک ہے لہذا ناول کو بوریت سے بچانے حمید اور قاسم تخلیق کیے گئے۔
ارشد جمال: ہرگز نہیں۔
خورشید اقبال: فریدی کا کردار سپاٹ ہے جس کی نقل بڑی آسانی سے کی گئی۔ جمیل انجم کا فرازی۔ اکرم الہ آبادی کا خان اور ایسے ہی کئی دوسرے۔۔۔۔۔ لیکن عمران کی نقل کوئی نہ کر سکا
احمد کمال: جب ابن صفی کے کرداروں پر کی گئی گفتگو کا مزہ اتنا ہے تو ناولوں کا کیا کہنا۔ ابن صفی زندہ باد
مکرم نیاز: حمید کے کردار کے باوجود بھی فریدی اپنے محیرالعقل عادتوں کے سبب بلندی پر نظر آتا ہے۔۔۔ جس کی واحد مثال "زمین کے بادل" ہے جہاں عمران فریدی سے مار کھا جاتا ہے
خورشید اقبال: اس ناول میں بھی عمران بھلے ہی فریدی کا احترام کرتا دکھائی دیا ہو لیکن کردار مضبوط وہی تھا
احمد کمال: جب خود ابن صفی کا پسندیدہ کردار فریدی ہے تو بحث فضول ہے۔
مکرم نیاز: اور اسی زمین کے بادل میں فریدی نے عمران کے متعلق کیا کہا تھا؟ یاد ہے کسی کو؟ "مجھے یہ شخص چند ماہ کی تربیت پر دے دیا جائے تو اسے ہیرا بنا دوں گا"۔
ارشد جمال: فریدی کے ناول میں مصنف قاری کو حمید کے ساتھ گھماتا رہتا ہے اور حمید ہی کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آخر میں قاری فریدی کو نیچے سے سر اٹھا کر بلندی پر بیٹھا ہوا دیکھے اور اس کی عظمت کا قائل ہو جائے۔
خورشید اقبال: اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران کا کردار۔ فن کردار نگاری کے نکتہ نظر سے۔ ایک complicated کردار ہے جسے نبھانا خود مصنف کے لئے بھی چیلنج رہا ہوگا۔
ارشد جمال: میں نے کہا نا کہ فریدی کو عمران پر فوقیت دینے کی شعوری کوشش ابن صفی نے کی ہے کیوں کہ فریدی ان کا پہلا پیار ہے، عنفوان شباب کے زمانے کا۔ جبکہ عمران کا کردار اس زمانے کی پیداوار ہے جب ابن صفی زہنی طور پر زیادہ پختہ اور بالیدہ ہو چکے تھے۔
خورشید اقبال: ایکسٹو کا پراسرار کردار عمران کے کردار کو بہت پیچیدہ بناتا ہے۔
مکرم نیاز: ایکسٹو کی ٹیم نہ ہو تو ایکسٹو بالکل نہ چلے، جبکہ فریدی بلیک فورس کے نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہے، فریدی زندہ باد !!
خورشید اقبال: کیوں اس کے پاس مافوق الفطرت قوتیں جو ہیں
احمد کمال: تو کیا یہ مان لیا جائے کہ فریدی کی شکل میں ابن صفی نے ایک کمزور کردار کی تخلیق کی ہے؟ یعنی ابن صفی کو نہ کردارسازی آتی ہے اور نہ اچھے کردار کی پہچان۔۔
ارشد جمال: فریدی کا کردار اوریجنل ہے ہی نہیں۔ ابن صفی کے شروع کے زمانے میں شرلاک ہومز کے زیر اثر تخلیق کیا گیا ہے۔
خورشید اقبال: ابن صفی کو اگر کردار سازی نہ آتی تو عمران کیسے پیدا ہوتا؟
مکرم نیاز: عمران بھی کوئی کردار ہے بھلا؟ چوں چوں کا مربہ
خورشید اقبال: یہ میں کل ہی لکھ چکا ہوں کہ فریدی شرلاک ہومز کی نقل تھا
ارشد جمال: شعور بالیدہ ہونے کے بعد انہوں نے عمران کی شکل میں ایک منفرد کردار کی تخلیق کی۔ جو ان کا اوریجنل کارنامہ ہے۔
احمد کمال: لیکن شعور بالیدہ ہونے کے بعد بھی ابن صفی نے فریدی کو اپنا پسندیدہ کردار قرار دیا
ارشد جمال: کہا نا پہلا پیار
مکرم نیاز: بیساکھیوں کے بل پر عمران کھڑا ہے۔۔۔۔۔ سلیمان جوزف صفدر جولیا گلرخ کے ساتھ جیمسن اور ظفر و بلیک زیرو کو نکال دیا جائے تو عمران دھڑام سے منہ کے بل گرے گا فرش پر
خورشید اقبال: وہ الگ بات ہے۔ آپ کو اپنی کوئی غزل پسند ہو سکتی ہے بھلے ہی آپ نے اس سے اچھی غزلیں بھی کہی ہوں
مکرم نیاز: غزل تو فی کیلو کے حساب سے کہی جا سکتی ہیں۔۔۔۔ یہاں تو صرف دو کرداروں کی بات ہو رہی
ارشد جمال: ہر مصنف ابتدائی زمانے میں کسی بڑے مصنف یا قلمکار یا شہکار کے سائے میں قد نکالتا ہے۔ بعد میں اس کی اپنی انفرادیت ابھرتی ہے۔
خورشید اقبال: کئی ناول ہیں جن میں عمران تن تنہا ہے اور ناول کی دلچسپی پھر بھی کم نہیں ہوئی ہے
مکرم نیاز: سرکس میں اکیلا جوکر بھی ایک آدھ گھنٹہ نکال لیتا ہے ہنسا کر
ارشد جمال: اور صرف حمید کو نکال دیا جائے تو فریدی صرف ایک صفحے میں سمٹ آئے۔ کیونکہ فریدی غیب داں ہے سپر پاور ہے زیادہ دوڑ دھوپ کی کیا ضرورت۔
مکرم نیاز: عظیم شخصیات کا ایک صفحہ ہزار جوکروں کی ٹیم پر بھاری پڑ جاتا ہے فرزند!
احمد کمال: عہد طفلی کے پیار پر جوانی میں پچھتاوا ہوتا ہے مگر پیار سچا ہو تو پیری میں بھی انسان اسے نہیں بھولتا۔
ارشد جمال: چٹکی بجاتے ہی یا یوں کہہ لیجئے کہ چٹکی سے ایک صفحہ پلٹتے ہی ناول ختم۔ وہ تو حمید ہے جو ناول کے سو صفحات میں سے ننانوے سیاہ کرتا ہے۔
خورشید اقبال: بھائی فریدی ہو یا عمران۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ابن صفی کی تخلیق ہیں اور ہم سب ابن صفی کے فین ہیں۔ میں تو اب بھی یہ ناول پڑھتا ہوں۔ کچھ چیزوں کا لطف لینے کے لئے اپنے اندر کے بچے کو زندہ رکھنا چاہئے
مکرم نیاز: ڈورومان یا اینگری برڈز دیکھیں
ارشد جمال: وہ فریدی کے ناول پڑھنے والے دیکھتے ہیں
احمد کمال: عمران کی مسخری سے لطف اندوز ہونے کیلئے بھی اپنے اندر کے بچے کو زندہ رکھنا پڑتا ہے
خورشید اقبال: ہاہاہا کبھی کبھی بچے کے ساتھ ڈوریمان بھی دیکھ لیتاہوں۔ مزہ آتا ہے۔
احمد کمال: مسخری سے بچے ہی زیادہ محظوظ ہوتے ہیں
مکرم نیاز: آج کے بچے کے ساتھ چلیں۔۔۔۔ ورنہ دقیانوسی بوڑھے کہلائیں گے۔۔۔ چاہے اندر سے اپنے آپ کو 60۔70 کی دہائی کے بچے کیوں نہ کہہ لیں۔
خورشید اقبال: اب مسخری کی جب بات آئے گی حمید عمران سے بڑا مسخرہ دکھائی دے گا جو کبھی بکرا لے کر گھومتا ہے تو کبھی چوہیا۔
جاوید نہال: ارے باپ رے! ابھی کھانا کھانے کے بعد ٹہلتے وقت اچانک موبائل فون جیب سے نکالا تو دل دہل کر رہ گیا۔۔۔۔ ایک ہی گروپ میں 80 نوٹیفکیشن! اور چیٹنگ روم میں آیا تو وہ اودھم کہ خدا کی پناہ! ابن صفی کے قارئین کی دنیا بھی " بائی پولار" ہے۔۔۔ دراصل یہ سب میرا کیا دھرا ہے۔ نہ میں کی۔بورڈس کی دو اقسام کا موازنہ ابن صفی کے کرداروں سے کرتا اور نہ یہ "عالمی جنگ" چھڑتی۔ ویسے عمران نوازوں کے دلائل اتنے وزنی ہیں کہ کرنل ہارڈ اسٹون بھی جو گرانڈیل احمق قاسم کو کندھے پر اٹھائے ہوا سے باتیں کرتے دوڑتے ہیں، نہیں اٹھا پائیں گے۔
ارشد جمال: فریدی کا ناول پڑھنے کے لئے اندر کے بچے کو خود زندہ کرنا پڑتا ہے جبکہ عمران کا ناول اندر کے بچے کو خود زندہ کر دیتا ہے۔
مکرم نیاز: یعنی مسخرا بہرحال دیکھنے/پڑھنے والے کو بھی مسخرا بنا ہی جاتا ہے
جاوید نہال: عمران بحیثیت سکریٹ سروس چیف بین الاقوامی کیسوں سے نبرد آزما ہوتا ہے جب کہ فریدی بحیثیت انٹیلیجنس آفیسر بیشتر درون ملک اور فیملی معاملات کے کیس دیکھتا ہے۔ ھم تو بھئی اس رو سے بھی عمران کو فریدی سے "بڑا" کہیں گے
ارشد جمال: فریدی کو پڑھنے کے لئے اس بچے کی ضرورت ہوتی ہے جو اسپائڈر مین کے کارنامے دیکھ کر اچھل اچھل کے تالیاں بجاتا ہے۔ جبکہ عمران اس بچے کو جگاتا ہے جو اس بات پر حیران ہوتا رہتا کہ بچہ پیدا کیسے ہوتا ہے اور مر کر کہاں چلا جاتا ہے۔
احمد کمال: عمران کو پڑھنے کیلئے اس بچے کی ضرورت ہوتی ہے جو بندر اور بندریا کی اچھل کود پر تالیاں بجاتا ہے
مکرم نیاز: ہاہاہا۔۔۔۔ اس کے باوجود زمین کے بادل والی بین الاقوامی مہم میں سردار فریدی تھا ، مسخرہ عمران نہیں، حالانکہ یہ ابن صفی کے آخری دور کا ناول ہے
جاوید نہال: یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ بڑھاپے میں ابن صفی بھی فریق بن گئے تھے۔
ارشد جمال: ایک مثال۔ فائرنگ سے بچنے کا فن تخیلاتی سہی مگر عمران نے انسانی طریقے سے سیکھا، سنگ ہی کو دیکھ کر، مطالعہ کر کے اور مشق کر کے۔ لیکن فریدی نے کسے سے سیکھا نہیں، کبھی مشق نہیں کیا لیکن اچانک جب "زمین کے بادل" میں عمران کا سامنا ہوتا ہے تو اس پر یہ فن "وحی" کی طرح نازل ہوتا ہے اور وہ اس فن میں عمران سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ بھئی فریدی پر "وحی" نازل ہوتی ہے جبکہ ہم ختم نبوت کے قائل ہیں۔ وہ غیب کی باتیں جاننے والا ہے اور ہم لا الٰہ کے قائل۔ سو ہم فریدی کو نہیں مانتے۔
مکرم نیاز: یہی تو عمران کے معاملے میں ابن صفی کی غلطی ہوئی۔ آپ نے "مطالعہ" زیب داستاں کو لکھ دیا غالباً ورنہ عمران اس ناول میں صرف سنگ ہی کو دیکھ کر سیکھتا ہے۔۔۔۔ اور غالباً پستول کے 12 راؤنڈ پر، جبکہ سنگ ہی بتاتا ہے کہ اس نے یہ فن بڑی عرق ریزی سے سیکھا۔۔۔۔ اور عمران مسخرہ 12 راؤنڈ گولیاں چلا کر سیکھ لیتا ہے؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟؟ اس سے بہتر تو فریدی رہا کہ۔۔۔۔ اس نے کیسے فن سیکھا۔۔۔ یہ تخلیق کار نہیں بتاتا۔۔۔۔ ویسے ہی جیسے تخلیق کار فریدی کی بہت سی خوبیوں کی تفصیل نہیں بتاتا۔
احمد کمال: جب خالق خود اپنے مخلوق کو اپنا محبوب کہتا ہے تو اسے نہ ماننا "کفر" ہے۔ عمرانیو، کفر نہ بکو۔
ارشد جمال: لات و منات کے بنانے والے نہ صرف اپنی مخلوق کو محبوب رکھتے تھے بلکہ اسے سب سے طاقتور اور مختار کل سمجھتے تھے، فریدی کی طرح۔
جاوید نہال: فریدی کھلی آنکھوں سے سونے پر "قدرت" رکھتا ہے، اور جتنے بجے چاہے بس سوچ لیتا ہے اور اس کی نیند ٹھیک اتنے بجے "ذہنی" الارم سے جاگ جاتا ہے۔۔۔۔ کیا غیر حقیقی اوصاف سے سرفراز کیا ہے ابن صفی نے فریدی کو۔۔۔ پوہ۔۔۔ عمران کامیابی سے پہلے چوٹیں بھی کھاتا ہے، شکست کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اسے۔۔۔ نیچرل کیریکٹر لیکن فریدی؟ اسے کبھی کوئی گزند ہی نہیں پہنچتی۔
مکرم نیاز: آپ نے شاید محی الدین نواب کا دیوتا نہیں پڑھا۔۔۔۔ یہ سونے والی خوبی کا تعلق ہپناٹزم سے ہے اور اسی کے سہارے دیوتا کا ہیرو فرہاد علی تیمور بارہا بغیر الارم کے سوتا اور وقت مقررہ پر اٹھ جاتا ہے۔۔۔۔ اس کی تیکنیکی تفصیل بھی نواب صاحب نے کسی قسط میں لکھی تھی۔ ویسے ، فریدی زیرولینڈ کا سراغ کبھی پا نہیں سکا اور نہ ہی فریدی کبھی سنگ ہی کو شکست دے سکا۔
ارشد جمال: "اس نے کیسے فن سیکھا۔۔۔ یہ تخلیق کار نہیں بتاتا۔۔۔۔ ویسے ہی جیسے تخلیق کار فریدی کی بہت سی خوبیوں کی تفصیل نہیں بتاتا"
کیونکہ مصنف نے فریدی کو پہلے ہی لم یزل اور لم ولد کے درجے پر فائز کر دیا ہے تو بھلا اس کے بارے میں کیا بتائے گا سوائے سجدہ کرنے اور کرانے کے۔
مکرم نیاز: خیر بھئی ہم تو چلے سونے۔۔۔۔ میچ کا فیصلہ پھر کبھی سہی۔

***

Ibne Safi's everlasting characters Faridi & Imran, a dialogue at a WhatsApp group.

1 تبصرہ:

  1. ارشد جمال حشمی8/07/2016 12:30 PM

    تمہید میں ایک غلطی رہ گئی ہے۔ "قرطاس و قلم" گروپ میرا قائم کیا ہوا ہے۔ اور میں بھی "معروف" شاعر و ادیب ہوں اگرچہ بڑے بھائی کے مقابلے میں کم۔

    جواب دیںحذف کریں