اردو رسالہ کی تاریخ کا انمول باب - رسالہ معارف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-07-03

اردو رسالہ کی تاریخ کا انمول باب - رسالہ معارف

maarif-azamgarh monthly
اردو رسائل کی تاریخ میں ، معارف اسم باسمی کی حیثیت رکھتا ہے ۔گزشتہ ایک صدی کی علمی اور ادبی تاریخ کا بجاطور پر اسے اشار یہ کہا جاسکتا ہے ۔یہ اردو کے ان رسالوں میں ہے جس نے مذہب اور ادب دونوں کے لیے معرفت کا سامان پیدا کیا ۔ایک طرف جہاں تحقیق و ادب کے میدان میں اردو زبان کو ثروت مند کیا تو دوسری طرف اسلامی علوم افکار خصوصا قرآن وحدیث کی بیش بہاخدمت انجام دی۔معارف کا یہی امتیاز نہیں ہے کہ وہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے ، بلکہ اس کے تمام شمارے بھی موجود ہیں ۔
اردو کے کتنے ایسے رسالے ہیں، جن کی مدت چند برسوں پر محیط ہے، لیکن ان کی پوری جلد کہیں ایک جگہ محفوظ نہیں ہے، بشمول وہ جگہ جہاں سے وہ رسالہ نکلتا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رسالہ’معارف‘ کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔کیونکہ اس ادارے نے مشکل حالات ، محدود وسائل کے باوجود ’معارف‘ کو جاری رکھا،اور اس کے معیار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، نیزاپنی تمام خوبیوں کے ساتھ آج بھی یہ رسالہ جاری و ساری ہے۔
معارف کی ایک مہتمم بالشان تاریخ ہے ۔ایک صدی کے دوران اس رسالے نے صرف تین خصوصی شمارے شائع کیے ۔پہلا سید سید سلیمان ندوی دوسرا حبیب الرحمن خاں شروانی اور ابھی شبلی صدی کے موقع پر شبلی نمبر کی اشاعت ہوئی تھی ۔ معارف کے ہند وپاک میں اشاریے بھی تیار کیے گئے۔ہندو پاک کی مختلف جامعات میں رسالہ معارف پر تحقیق کا کام بھی ہوا۔اگر ہم اس کی خدمات کے ایک حصے کو لیں تو مضمون نہیں پوری کتاب تیار ہو جائے گی۔معارف کا تحقیقی سرمایہ ہویا پھر تنقیدی، چاہے وہ غالبیات کے تعلق سے ہو یا پھر اقبالیات سے، اس کا تعلق ادب سے ہو یا پھر مذہبی لٹریچر سے، اسی طرح سے اگر صرف معارف میں شائع شدہ ادبی کتابوں پر تبصرے کو یکجا کر دیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی۔معارف میں چھپنے والے کالم ’وفیات‘ کو تو یکجا کر دیا گیا ہے، البتہ مکتوبات اور شاعری کا جو گوشہ ہے اس پرلوگوں کی نگاہ کم ہی گئی ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی سے لے کرپروفیسر اشتیاق احمد ظلی تک جتنے بھی مدیر معارف رہے سب نے ’شذرات‘ کا معیار باقی رکھا ، اوراس حصے میں نہ جانے علم و ادب کے کتنے گوشوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔شذرات سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نسخۂ حمیدیہ کو دریافت عبدالسلام ندوی نے کیا تھا، لیکن اس کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ہے ۔سید سلیمان ندوی نے اس کاتفصیلی ذکر شذرات میں کیاہے۔ اسی طرح کی بے شمار علمی چیزیں معارف میں موجود ہیں، جو علم وتحقیق کے باب میں ایک روشن ستارہ کی مانندہے۔سید سلیمان ندوی نے معارف کے مقاصد کو اس کے پہلے شمار ہ میں بیان کیا ہے:
’’فلسفۂ حال کا اصول اور اس کا معتدبہ حصہ پبلک میں لایا جائے، عقائد اسلامی کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے، علوم قدیمہ کو جدید طرز پر از سر نو ترتیب دیا جائے، اسلامی علوم کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہاں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا۔مذہبی علوم کی تدوین اور ان کے عہد بہ عہد کی ترقیوں کی تاریخ لکھی جائے، اکابر سلف کی سوانح عمریاں ترتیب دی جائیں، ان میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو، عربی زبان کی نادراور کم یاب کتابوں کے تعارف کے ساتھ ان پر ریویو لکھا جائے اور دکھایا جائے کہ ہمارے اسلاف نے ان خزانوں میں کیا کیا زر و جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر بلکہ سب سے اول یہ ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جو عقلی، ادبی، تاریخی، تمدنی اور اخلاقی مباحث پیدا ہو گئے ہیں، ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔‘‘
(معارف، جولائی1916، ص، 5)
معارف کے شذرات علم وادب کا خزینہ ہیں۔اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک کے حالات کیا رہے ہیں اور کس کس انداز سے مسلمانوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے ۔اور اس کے لیے معارف کی فکر مندی کیا رہی ہے ۔اقلیتی تعلیمی اور ملی اداروں کے تئیں معارف کی فکر مندی بھی غیر معمولی ہے ۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،عثمانیہ یونی ورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ جو کہ ہمیشہ سے فرقہ پرستوں کی نگاہ میں کھٹکتے رہے ہیں اور حکومتوں کی نیتیں بھی ان اداروں کے بارے میں بہت اچھی نہیں رہی ہے، اسی لیے جب بھی ایسا کوئی اندیشہ لاحق ہوا تو معارف نے نہ صرف یہ کہ صحیح صورت حال کو نمایاں کیا ، بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ کثیر سماجی اور لسانی ملک میں ان اداروں کی اہمیت کتنی اہم ہے ۔اس جیسے نہ جانے کتنے موضوعات ہیں جس کو معارف نے پیش کیا اور اس سلسلے میں کبھی کسی تردد یا تکلف سے کام نہیں لیا ۔
اردو زبان کے بارے میں معارف کی تاریخ ساز خدمت رہی ہے ۔اس زبان کو آزادی کے بعد جن تعصبات کا شکار ہونا پڑا اس کی داستان کسے نہیں معلوم ۔معارف نے روز اول سے اردو زبان اور اس سے وابستہ افراد کے مسائل و معاملات پر نہایت پرزور انداز سے ان کا موقف پیش کیا ۔معارف کا یہ ایک روشن باب ہے اور زبان کی خدمت کا یہ جذبہ اور اتنا کام اردو کے کسی دوسرے رسالہ نے نہیں انجام دی ہوگی۔
ایک صدی پر مشتمل یہ رسالہ اپنے اندر علم و ادب کا ایک خزانہ جمع کئے ہوئے ہے۔اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس کے علمی خدمات کے اعتراف میں ملک و بیرون ملک کی مختلف جامعات میں ایم۔فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالات لکھے گئے ہیں۔اشاریے تیارکیے گئے۔اس رسالہ میں نظریاتی و فکری جہت نمایاں ہیں اور اس کا بنیادی رجحان علمی اور تحقیقی ہے۔ ترجیحات اول میں علوم اسلامی، ادبی تحقیق اور ادبی وتاریخی تحقیق شامل ہیں۔معارف میں شذرات حالات حاضرہ ، قومی ووطنی معاملات اور علمی و ادبی مسائل پر ہوتے ہیں۔معارف کی طباعت و اشاعت میں جو سادگی ابتدا میں سید سلیمان ندوی نے شروع کی تھی، وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس رسالہ کی ضخامت اور تقطیع بھی یکساں ہے۔ماہنامہ معارف علمی، تحقیقی اور ادبی مزاج کا حامل ہے۔اس کی خاص پہچان اسلام اور مشرقیت سے لگاؤ ہے۔باوجود اس کے اس کا اردو ادبی سرمایہ کسی بھی معاصر رسالے سے کم نہیں ہے۔ابتدا میں معارف میں منتخب شعرا کا کلام بھی شائع ہوتا رہا ہے۔تحقیق و تنقید کے ساتھ تخلیق کا امتزاج قارئین نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔
ماہنامہ معارف کی اردو ادبی تحقیقات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔-1قلمی نسخوں اور نادر مطبوعات سے متعلق مقالات و مضامین۔-2ادبا وشعرا کے احوال سے متعلق تحریریں۔-3متفرق تحقیقی موضوعات۔-4ذخیرہ ہائے مخطوطات کا تعارف اور-5اردو شعرا کے تذکروں سے متعلق مقالات ، جیسے اہم موضوعات کے تحت تفصیل سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے تنقیدی سرمایے پر بھی چند امور پر گفتگو کی جاسکتی ہے، جس میں معارف کے تنقیدی سرمائے کی نوعیت، قدیم و جدید شاعری پر تنقیدی مقالات اور معارف کا تصور نقد اہمیت کا حامل ہے۔
بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ ماہنامہ معارف نے جس طرح سے اپنی صدی مکمل کی ہے، وہ قابل فخر ہے۔کیونکہ جنگ آزادی جیسے ماحول میں بھی معارف کی اشاعت کا تسلسل منقطع نہیں ہواتھا۔ہاں کاغذ کی عدم فراہمی کی صورت میں صفحات کی تعداد کچھ کم ضرور ہو گئی تھی، لیکن بند نہیں ہوا۔یہ علامہ شبلی نعمانی کی محبتوں کا ثمر ہ ہی کہا جائے گا، انھوں نے اس کا خاکہ ضرور بنایا، لیکن اشاعت کی نوبت آنے سے پہلے ہی مالک حقیقی سے جا ملے۔علامہ شبلی نعمانی کے لائق شاگردوں نے ان کے خواب کی تکمیل کی، اور اسی شان سے معارف کی اشاعت عمل میں آئی جس طرح سے شبلی چاہتے تھے۔اردو رسائل کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، ماہنامہ معارف کا شمار قدیم اور معیاری رسالوں میں ہوگا۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ماہنامہ معارف اردو رسالے کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

***
Shahnewaz Faiyaz
Research Scholar, Department Of Urdu
Jamia Millia Islamia, New Delhi-110025
Mob: 9891438766
شاہ نواز فیاض

Monthly Maarif from Azamgarh, invaluable urdu magazine. Article: Shahnewaz Faiyaz

1 تبصرہ:

  1. بہت ہی اعلیٰ اور معیاری مضمون۔۔۔۔۔۔۔تعمیر نیوز کو بہت بہت مبارکباد

    جواب دیںحذف کریں