بابری مسجد کی قانونی جنگ اور ہاشم انصاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-07-26

بابری مسجد کی قانونی جنگ اور ہاشم انصاری

Babri-Masjid-n-Hashim-Ansari
یکم فروری 1986کو فیض آباد کی ایک عدالت نے جب بابری مسجد کا تا لا کھول کر وہاں عام پوجا پاٹ کی اجازت دی تو پورے ملک میں کہرام مچ گیا ہر مسلمان کے چہرے پرا داسی تھی اور فرقہ پرستوں کے خیموں میں جشن کا سماں تھا۔ دور درشن نے جب بابری مسجد کے اندر پوجا پاٹ کے مناظر دکھائے تو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت کیا گیا تھا اور اس میں سیاست و عدالت کی ملی بھگت تھی ۔ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد راقم الحروف وہاں پہنچنے والا اردو کا پہلا صحافی تھا جس نے بھیس بدل کر بابری مسجد کے اندر داخل ہونے میں کامیابی حاصل کی ۔ کیونکہ ایک حکم نامے کے تحت وہاں پہنچ کر سو میٹر کے علاقے میں کسی بھی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا ۔ تقریبا ایک گھنٹہ بابری مسجد میں گزار کر وہاں کی پوری کیفیت اور سر گرمیوں کا جائزہ لیا اور مفصل حالات قلم بند کئے۔ اسی موقع پر ایودھیا میں بابری مسجد کے سب سے پرانے مدعی ہاشم انصاری سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ ایک سیدھے سادے دیہاتی بزرگ تھے ۔ میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ان کے گھر تک پہنچا ۔ ان کا رہن سہن بالکل عمومی انداز کا تھا۔اس وقت تک ہاشم انصاری سے زیادہ لوگ واقف نہیں تھے ۔ البتہ جب بھی بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت ہوتی تو کلیدی فریق کے طور پر ان کا نام خبروں کی زینت بنتا تھا۔ طویل گفتگو کے دوران انہوں نے مجھے بابری مسجد پر ڈھائے گئے برسوں کے مظالم کی داستان سنائی۔ ان کے پاس بابری مسجد سے متعلق معلومات کا ایک ایسا خزانہ تھا جسے سننے کے لئے پوری رات بھی کم تھی۔ انہوںنے اس معاملے میں امن و قانون کی مشینری سے لے کر ایودھیا کے سادھو سنتوں کی چالاکیوں اور عیاریوں کے قصے بھی سنائے ۔ وہ بولتے رہے اور میں دیر تک ان کی باتیں نوٹ کرتا رہا۔ ہاشم انصاری ایک بے ضرر قسم کے انسان تھے ۔ انہیں بابری مسجد سے والہانہ لگاؤ تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ22/23دسمبر1949کی درمیانی شب میں بابری مسجد کے منبر پر زور زبردستی مورتیاں رکھے جانے سے قبل وہاں باقاعدہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔23دسمبر1949کی رات کو بھی انہوں نے وہاں آخری بار عشاء کی نماز ادا کی تھی۔ اس کے بعد ہاشم انصاری نے اپنی پوری زندگی اسی خواہش اور کوشش میں گزاری کہ وہ دوبارہ بابری مسجد میں نماز ادا کرنے کا فخر حاصل کریں ۔ لیکن سیاست اور مذہب کے ٹھیکیداراپنا کھیل کھیلتے رہے اور انصاف کا نظام اس کا کھلونا بنا رہا۔ آج بابری مسجد صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے اور اس کی جگہ رام مندر کا غیر قانونی ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے ، جسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جمہوریت کے چاروں ستون اس ناجائز ڈھانچے کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں ہے کہ6دسمبر1992سے قبل یہاں جو پانچ سو سالہ قدیم عبادت گاہ کھڑی ہوئی تھی آخر اس کے بھی کوئی آئینی اور قانونی حقوق تھے اور یہ عبادت گاہ جن لوگوں سے منسوب تھی انہیں بھی آخر اس ملک کے آئین نے مساوی حقوق عطا کئے ہیں ۔
ہاشم انصاری ایودھیا میں ہی پیدا ہوئے تھے اور وہیں انہوں نے95برس کی عمر میں آخری سانس لی۔ ہاشم انصاری کی پوری زندگی کسمپرسی میں گزری۔ وہ جس تنازع کے فریق تھے اس نے ہندوستانی سیاست کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اگر وہ چاہتے تو اپنے ضمیر کا سودا کرکے عیش و آرام کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن اس عرصے میں نہ تو ان کی زندگی میں کوئی انقلاب آیا اور نہ ہی ان کے رہنے سہنے کا انداز تبدیل ہوا۔6دسمبر1992کے بعد انہیں ایک بڑے لیڈر نے دو کروڑ روپے اور ایک پیٹرول پمپ دینے کی پیشکش کی تھی۔ ہاشم انصاری نے نہ صرف یہ کہ اس پیشکس کو حقارت سے ٹھکرادیا بلکہ اس لیڈر کو بھی دوڑایا۔ مجھے یاد ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو وہ دہلی اور لکھنو میں اس کی میٹنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ وہ ایکشن کمیٹی کی ایودھیا شاخ کے ذمہ دار بھی تھے۔ انہوں نے بابری مسجد کی بازیابی کے سلسلے میں ہونے والے سینکڑوں مظاہروں اور دھرنوں میں شرکت کی۔30مارچ1987ء کو جب دہلی میں بابری مسجد کی بازیابی کے لئے بوٹ کلب تک ایک عظیم مارچ نکالا گیا اور جس میں لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی تو یہاں بھی سب کی توجہ کا مرکز ہاشم انصاری ہی تھے۔ انہیں بوٹ کلب پر منعقدہ عظیم اجلاس میں مسلم قائدین کے پہلو میں جگہ دی گئی ۔ میں نے ہر احتجاجی پروگرام اور دھرنے کے دوران ہاشم انصاری سے گفتگو کی اور ان کے خیالات کو اخباری قارئین تک پہنچایا۔ ہر بار ان کی گفتگو میں بابری مسجد کے لئے ایک ایسا درد اور تڑپ محسوس کی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جیتے جی اس مسئلے کا حل اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ہاشم انصاری کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا، وہ درزی کا کام کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے تھے ۔ آج بھی ان کے دو بیٹے اودھیا میں ٹیمپو چلا کر گزر بسر کرتے ہیں ۔1949میں بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھے جانے کے بعد مقامی انتظامیہ نے نظم و نسق قائم رکھنے کے لئے جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا ان میں ہاشم انصاری بھی شامل تھے ۔ الزام تھا کہ انہوںنے بابری مسجد میں اذان دینے کی کوشش کی۔1975میں ایمر جنسی نفاذ کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا اور وہ آٹھ ماہ تک بریلی سینٹرل جیل میں قید رہے ۔ ہاشم انصاری نے ہی سب سے پہلے1949میں فیض آباد کی ایک ذیلی عدالت میں بابری مسجد کا مقدمہ دائر کیا تھا اور اسے خاموشی کے ساتھ تمام تر بے سروسامانی کے ساتھ لڑتے رہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بابری مسجد کے بارے میں لوگوں کی معلومات بہت محدود تھی۔1961میں جب سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اسی عدالت میں بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ درج کیا تو اس مقدمے میں چھ دیگر افراد کے ساتھ ہاشم انصاری کو اصل مدعی بنایا گیا۔ ہاشم انصاری نے بابری مسجد کے مقدمے کی الہ آباد ہائی کورٹ میں بھی پیروی کی۔ بابری مسجد کا یہ مقدمہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے کیونکہ فریقین نے2010کے ہائی کورٹ کے اس عجیب و غریب فیصلے کو چیلنج کررکھا ہے جس میں بابری مسجد کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ نرموہی اکھاڑے کو دیا گیا تھا جب کہ دو مساوی حصے سنی وقف بورڈ اور رام للا کو دے دئیے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہاشم انصاری پچھلے کچھ عرصے سے اس مسئلہ کو عدالت سے باہر باہمی رضا مندی سے حل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن یہ ایک سعی لا حاصل تھی کیونکہ فریق ثانی ان پر یہ دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ ا پنے دعوے سے دستبردار ہوجائیں ۔ بڑھتی ہوئی عمر اور بیماری نے آخری وقت میں ان کے ذہن پر بھی اثر ڈالا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنی طویل عدالتی جنگ لڑنے کے باوجود ہاشم انصاری کے دل میں اپنے مخالفین کے لئے کوئی سختی نہیں تھی اور وہ اپنے مد مقابل رام جنم بھومی کے پیروکار ہنس رام چندرداس کے ساتھ ایک رکشہ میں بیٹھ کر عدالت جایا کرتے تھے ۔ جب پرم ہنس کا انتقال ہوا تو ہاشم انصاری کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آج ہاشم انصاری کے انتقال پر رام مندر کے پیروکار گیان داس بھی آبدیدہ نظر آئے ۔ انہوں نے ہاشم انصاری کے جسد خاکی پر عقیدت کے پھول چڑھائے اور ان کے کئی ہندو پڑوسی قبرستان تک انہیں ودا ع کرنے گئے ۔ مہنت گیان داس کا کہنا ہے کہ ہاشم انصاری اس تنازع کو عوام کے درمیان لے جانے کے خلاف تھے ۔ وہ مجھ سے ملنے ہنومان گڑھی آتے تھے ۔ ہندو مسلم دونوں لیڈروں کی سیاست انہیں پسند نہیں تھی۔1992میں جب کارسیوکوں نے ہاشم انصاری کے گھر مین آگ لگا دی تھی تو پڑوسی ہندوؤں نے ہی اسے بجھایا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک موقع پر وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل کی کار میں ڈیزل ختم ہوگیا اور وہ پیٹرول پمپوں کی ہڑتال کی وجہ سے بالکل بے دست و پا ہوگئے تو ہاشم انصاری نے ہی اپنے گھر سے انہیں ڈیزل بھجوایا تھا۔ ہاشم انصاری کے چھوٹے سے کمرے مین دو تخت پڑے رہتے تھے ۔ وہی ان کا ڈرائنگ روم بھی تھااور بیڈ روم بھی۔ ان کے گھر کی دیوار پر بابری مسجد کی ایک پرانی تصور آج بھی آویزاں ہیں اور گھر کے باہر انگریزی میں بابری مسجد تعمیر نو کمیٹی کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے ۔

***
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Legal war of Babri Masjid and Hashim Ansari. - Article: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں