اس طرح توڑ میرے دل کو کہ آواز نہ ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-06-27

اس طرح توڑ میرے دل کو کہ آواز نہ ہو

holy-month-of-Ramadan
یہ ماہ مبارک بھی یونہی گزرا جاتا ہے - خالق کل کی رحمتیں اپنے ہر ایک بندے پر سوا ہیں، بے شمار ہیں۔۔۔۔۔ اور بزم کے تمام احباب بھی ان رحمتوں میں برابر شریک ہیں – شکر ہے پچھلے دو روز میں بزم کچھ گرمائی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا خیال بھی گزرا تھا کہ ابھی تبھی کوئی بزم سے یہ کہہ کر اٹھ نہ جائے بقول پروین شاکر صاحبہ کہ: تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی۔۔۔۔۔۔۔ اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے - لیکن شکر ہے رب کا ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ کئی نئے اہل فکر و قلم سے بزم کی رونقیں بڑھتی گئیں، ان میں شاید اکثر نئے نہ ہوں بلکہ آغاز سے ایک اچھے قاری کی طرح بزم میں موجود ہوں - خیر سے پچھلے دنوں پیر میخانہ کی آواز پر لبیک بھی تو کہا گیا۔۔۔۔ اور اکثر احباب نے بزم میں واپسی بھی کی ۔۔۔۔ اور حاضری بھی درج کی – کچھ دل جوڑنے آئے اور کچھ بھلے ہی دل توڑنے آئے لیکن آئے تو سہی کہ گلشن کا کاروبار چلے-
ویسے علامہ کی بات مانیے تو، جنکی بات ہر کوئی مانتا ہے۔۔۔ پھر چاہے وہ لبرل ہو یا سیکولر، دین بیزار ہو یا دنیا بیزار، ریپبلیکن ہو یا ڈیموکریٹک، روادار ہو یا طرحدار، خوش عقیدہ ہو یا بد عقیدہ - الغرض علامہ فرماتے ہیں :
محبت کے لئے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا ۔۔۔ یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں-
خیر سے جو احباب دلوں کو جوڑنے آتے ہیں انہیں کچھ یوں کہہ دیا جاتا ہے بقول فراز کہ
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع۔۔۔۔۔
اور جو دل توڑنے آتے ہیں انہیں بلکل پتا ہوتا ہے کہ محبت کی مے کس مخلص دل کے آبگینہ میں موجود ہے کہ جس کے ٹوٹتے ہی محبت کا دریا بہہ نکلے گا، اور جو ایمان کے نور سے منور ہوگا، اور خاصکر اس ماہ مبارک میں اس کا نشہ دوبالا ہوگا- اور ہم تو بس یونہی کہہ دیتے ہیں(اہل آہنگ و عروض سے معذرت کے ساتھ ) کہ :

اس طرح توڑ میرے دل کو کہ آواز نہ ہو ۔۔۔۔۔ درد کی جلترنگ میں اور کوئی ساز نہ ہو
میری آنکھوں کو سیراب کر تو کرایسے ۔۔۔۔۔کہیں نشیب نہ ہو اور کہیں فراز نہ ہو
مجھکو وہ دن نہ دکھانا کہ جس دن یارب۔۔۔۔۔ تیرا سجدہ نہ ہو مجھ سے، تیری نماز نہ ہو
ضرورت سب کو ہے سبکی مگر میرے خدا ۔۔۔۔۔۔جز تیرے میرا کہیں کوئی کار ساز نہ ہو

الغرض ہم سب اپنے اپنے فکری تالاب میں غوطہ زن رہتے ہیں جبکہ بیکراں سمندر ہم نے جزدان میں لپیٹ کر رکھا ہوا ہے ، جو اس ماہ مبارک میں ٹھاٹیں مار رہا ہے اور کہہ رہا ہے، میرے ذکر کو آسان بنایا گیا ہے ، تو کیا ہے کوئی جو مجھ میں تدبر کرے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی ہے جو اپنے اپنے تالابوں کو چھوڑ کر میری پناہوں میں آکر اپنی خودی کو آشکار کرے- اور ہم اہل سمندر جو موروثی غواص بنائے گئے ہیں۔۔۔ وہ ہیں کہ چھوٹے چھوٹے فکری تالابوں میں تیراکی کر رہے ہیں- کوئی آزادی نسواں کا اسیر ہے اور تین طلاق کو لے کر اچھل کود مچایا ہوا ہے تو کوئی چار شادی کے نام پر اپنے فکری تالاب میں سر پٹک رہا ہے- جیسے دو ارب سے زائد مسلمانوں کی زندگی میں اب یہی چند مسائل رہ گئے ہیں۔۔۔۔ اور یہی چند اعمال ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو زوال پیش آیا ہے، یا شاید جس کے تصفیہ کے بغیر خرد مندان اہل مغرب ان سے انسان ہونے کی سند چھین لیں گے -
اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایسے تمام اعمال کا اوسط یا انکی شرح فیصد نکال کر انکا تجزیہ یا تقابلی موازنہ کیا جائے (ایسے تمام تجزیات تہذیب جدیدہ میں ناقابل تردید مانے جاتے ہیں) تو ان کے نتائج اس حقیقت کو ثابت کردینگے کہ ان اعمال میں ملوث اکثر مسلمان مغربی تعلیم و تربیت کے پروردہ امرا و روساء اور آسودہ حال ہی ہوتے ہیں، پھر وہ چاہے عربی ہوں یا عجمی ، ترکی ہوں یا ایرانی ۔۔۔۔۔ اور یہ اعمال ان قبیح اعمال سے کمتر ہیں جن میں مہذب انسان سر تا پا شرابور ہوکر معاشرے میں ناسور پھیلا رہا ہے ۔۔۔ کلنٹن اور برلسکونی کے شیدائی مسلمان ان اعمال کا ذمہ دار ان غریب غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت کو ٹہراتے ہیں جو بیچارے جانتے بھی نہیں کہ ماجرا کیا ہے اور کس نے کیا کیا ہے۔۔۔ اور جنکے دل کے آبگینوں میں محبت و ایمان کی مے رکھی ہوتی ہے، جن غریبوں کے پاس بھلے علم نہ ہوتا ہو ( جو بلکل ہونا چاہیے کیونکہ ایمان کا پودا علم کے بغیر پروان نہیں چڑھتا) لیکن انکے پاس تربیت تو اکثر ہوتی ہی ہے جو اس تعلیم سے بہتر ہوتی ہے جس میں تربیت نہیں ہوتی –
ایسے لگتا ہے جیسے بغیر دینی تربیت کی تعلیم میں اہل خرد نے ساری دنیا کے مسائل کا حل تلاش کر لیاہے، جبکہ حال یہ ہوا ہے کہ تربیت سے مبرا اسی نام نہاد مغربی تعلیم نے لندن سے امریکہ تک آج مغرب کو نہ دنیا کا رکھا ہے نہ آخرت کا، اور یہ تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرتی نظر آرہی ہے، ہاں منافقت کی عینک سے نظر نہیں آتی- اور رہی آخرت تو اسے مہذب مسلمان نے تہذیب کا دشمن بنا کر رکھ دیا ہے، اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق علمائے دین پر طعنہ زنی کرنا مہذب و متمدن ہونے کی سند حاصل کرنے کے لئے از حد ضروری بلکہ نا گز یر سمجھ لیا گیاہے ، یا شا ید سیکولر سٹ ، نیشنلسٹ ، سوشلسٹ یا کمیونسٹ کہلوانے کے لئے یہ ضروری کر دیا گیا ہو ۔۔۔ یا پتا نہیں ان دنوں برطانوی یا امریکی شہریت ، امیگریشن یا ویزا کے لئے اس منتر کو یاد رکھنا ضروری قرار دے دیا گیا ہو-
ہم میں کسی کو پردے کے نام سے چڑ ہے تو کسی کو فحاشی میں آزادی نسواں اور حقوق نسواں نظر آتے ہیں - کوئی مغرب کی اس نیلم پری کے نشے میں اس قدر غرق ہے کہ بقول علامہ : مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق ۔۔۔۔۔۔ طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری – ہمیں اس ٹھاٹیں مارتے سمندر کو اب جزدان سے نکالنا ہوگا ورنہ ہم تہذیب جدیدہ کے مارے مسلمانوں کے لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ: وہ کم نظر غواصئ خرد کیا جانے ۔۔۔ اک موج ریگ کو جس نے سمندر جانا–

اب اس خامہ فرسائی کو احباب سے معذرت کے ساتھ یہیں ختم کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ باقی باتیں رمضان المبارک کے بعد ہوگی ، انشااللہ ۔۔۔۔ گذشتہ رمضان المبارک میں ایک مضمون بہ عنوان "ان دنوں چپکے سے کوئی کہتا ہے" آپ تمام احباب کی محبتوں کو یاد کرتے ہوئے بزم میں شائع کیا تھا، اسی مضمون کے آخری چند کلمات اس ماہ مبارک کی نسبت سے دوبارہ آپ تمام احباب کی نذر ہے -

ان دنوں چپکے سے کوئی کہتا ہے ۔۔۔۔۔
اب بھی تجدید وفا کا ہے امکاں جاناں ۔۔۔۔۔ تو ذرا یاد تو کر وہ عہد و پیماں جاناں
ترے دل میں سدا بھیڑ لگی رہتی ہے ۔۔۔۔۔ ہم کیسے آئیں بن کر ترا مہماں جاناں
سورہ رحمان تم پڑھتے نہیں کہ یاد رہے۔۔۔ کسقدر ہم نے کئے تم پہ ہیں احساں جاناں

رمضان کریم، بہت ساری دعائیں اور آپ تمام احباب کو پیشگی عید مبارک

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

The holy month of Ramadan. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں