عشرت جہاں انکاؤنٹر اور تفتیشی مراحل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-06-19

عشرت جہاں انکاؤنٹر اور تفتیشی مراحل

عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملہ اب تفتیش کے اُس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں اُس کی صداقت کو جان بوجھ کر سرے سے ہی حذف کیا جا رہا ہے تاکہ یہ ثابت ہو جائے کی واقعی عشرت جہاں اور اُس کے دیگر ساتھیوں کے لشکرِ طیبہ سے تعلقات تھے۔در اصل عشرت اور اس کے دیگر ساتھیوں کی موت کا حقیقی راز ابھی تک افشاں نہیں ہو سکا۔یا تو اس کے افشاں ہو نے سے حقیقی معنوں میں مجرموں کو سزا ہو سکتی ہے جنہیں بچانے کے لئے تفتیش و تحقیق کو ایک ڈرامائی روپ دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے جس سے اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تحقیق کے دوران پرساد سے کیے گئے سوالات کا ڈرامائی انداز ایک بچکانہ حرکت کے ساتھ ساتھ اصل مجرموں کی پُشت پناہی تھا۔اس ضمن میں ڈائرکٹر اشوک کے ذریعے پرساد کو کیے گئے سوالات کا اشوک نے کنایتََا جواب بھی دے دیا ہے کہ آیا اس سوال کے جواب میں پرساد کو کیا کہنا ہے۔گویا اس د لفریب اور گمراہ کن تحقیق سے اب عشرت جہاں معاملہ شک کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا ہے۔خاطیوں کو بچائے جانے کی خاطر پہلے تو یہ فایئلیں گُم کروائی گئیں اور اب ملنے کے بعد ابھی مطلع صاف ہونے ہی کو تھا کہ اُسے بھونڈے سوالات و جوابات کا مذاق بنا کر گرد آلود بنایا گیا۔اگر عشرت جہاں معاملے کی اسی طرح چھان بین کی گئی تو اس کے بعد دیگر سنگین معاملات کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔اور یونہی مجرموں کی پُشت پناہی سے جہاں اصل مُجرم آزاد ہو جائیں گے وہیں انصاف کے نام پر گمراہ کُن فیصلے صادر کیے جائیں گے اور ایک زہریلی طاقت کے عزائم بھی مزید مستحکم ہو جائیں گے۔ہر معاملے کے دستاویزات ہی اُس کی تفتیش و تحقیقی مرحلے کا مغز ہوتے ہیں اگر انہیں کے ساتھ باضابطہ طور پر کھلواڑ کیا جائے تو عدالتی فیصلے ہر معاملے اور ہر دور میں متاثر ہو سکتے ہیں۔خاطیوں کی اس طور پُشت پناہی سے جرائم کی شرح اور انصاف کے نام پر مجرموں کی رہائی اور بے قصوروں کو سزاؤں کا مستحق قرار دی جا سکتا ہے جس واضح الفاظ میں تفتیش کے ساتھ کھُلا کھلواڑ ہی گردانا جا سکتا ہے۔آج وقت مجرموں کو بچانے میں صَرف کیا جا رہا ہے۔جس کے نام پر بے گناہوں اور اُن کے عزیز و اقارب کو ذہنی اذیتوں اور کلفتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن عشرت جہاں تحقیق کے معاملے میں اشوک جی کااس طور سوالات کرنا کہ اس کہ جواب میں پرساد کو کیا کہنا ہے یہ اُنہیں کہ سوالات سے واضح ہو ہوتا ہے جس سے اس تحقیق کو منظم سازش کا نتیجہ بنا یا جا رہا ہے تاکہ اس انکاؤنٹر میں ماخوذ اہم شخصیات کا نام مجرموں کی فہرست میں نہ آسکے۔ آج مجرموں کو کلین چٹ ملنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔اور وہ بھی حساس مقدمات میں جس کے فیصلے پر عوام کی خاص نظر اور عوامی قیاس آ رائی بھی کی جاتی ہے۔تاہم ایسے حساس معاملات میں مجرموں کو کلین چٹ ملنا تفتیشی حکام کو گمراہ کیے جانے کے عین مترادف ہے۔عشرت جہاں تحقیق کیمعاملے میں اب جھوٹ کی آمیزش کی اس قدر انتہا ہو گئی ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا جس کی تازہ مثال اشوک اور پرساد کے مابین تفتیش کے تحت کی جانے والی گفتگو سے کیا جا سکتا ہے۔جھوٹ کے دھاگوں سے بنائے گئے معاملات کے دھاگے کتنی دیر ٹک سکتے ہیں اسے تو آنے والا وقت ہی بتا پائے گا۔لیکن اس امر کے ساتھ یہ بھی غور طلب ہے کہ تفتیش کے اس مرحلے کی بنیاد ہی جہاں جھوٹ سے گڑی گئی ہواُسے بچانے کے لئے سینکڑوں مرتبہ بھی جھوٹ کا ہی سہارا لینا ہوگا مگر وقت کے اُس پڑاؤ میں جب یہ معاملہ داخل ہو گا اُس وقت ہر جھوٹ خود اپنے غیر معتبر ہونے کی شہادت دے گا۔آج عشرت جہاں مرڈر کیس سنگینی کم اور مذاق کا نشانہ زیادہ بن گیا ہے۔اس معاملے میں خاطیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے مگر اُس کے نتائج بھی صفر ہی مل رہے ہیں کیونکہ معاملے کی تحقیقات بچکانا طور پر کی جا رہی ہیں۔اب یہ معاملہ تحقیق کے اُس درجے پر جہاں اُسکی صداقت پر بھی حرف آگیا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ اب تک کی گئیں جملہ تحقیقات بھی اسی پیمانے پر کی گئی ہونگی۔تاکہ آخر میں یہ امر واضح ہو جائے گا کہ عشرت جہاں اور اُسکے دیگر ساتھیوں کو انکاؤنٹرمیں ہی مارا گیا تھا جو فرضی نہ تھا۔اس مزید ایک امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اشوک اور پرساد کی گفتگو میں جہاں جواب دینے کے لئے تعاون کیا گیا ہے جس سے اس کے مشکوک ہونے کے سارے راستے کھُل گئے ہیں وہیں اس بات کی بھی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ چھان بین کرنے والوں کو ہی شاید اصل خاطیوں کا سُراغ لگ چکا ہو۔اس لئے تفتیش کے نام پر جھوٹے طریقے سے ٹال مٹول کیا جانا اب طشت از بام ہو گیا ہے۔اب اشوک اور پرساد کے ما بین ہونے والے دل فریب ا مکالمے سے مکاری اور تعصب کی بُو ضرور آتی ہے۔ اس دل فریب اور مکاری سے لبریز مکالمے کو اگر دانائی کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہیکہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کی دستاویزات جس کے تحت تفتیشی مراحل جاری ہیں وہ بھی کتنی صداقت سے بھری پڑی ہیں یا اُن میں بھی اشوک نما ہیرا پھیری کی گئی ہے جیسا کہ اشوک نے جوابات دینے کے لئے پرساد کی معاونت کی تھی۔تفتیش کے حالیہ مرحلے سے اس بات کی گنجائش کی جا سکتی ہے کہ اس معاملے کو ہیرا پھیری کا اس قدر شکار بنا یا گیا ہے کہ جھوٹ سچ تو نہیں البتہ جھوٹ خالص جھوٹ ضرور بن گیا ہے۔اس لئے تفتیشی ایجنسیاں بھی اب الیکٹرانک میڈیا کی طرح ہی اپنی خدمات انجام دیتی نظر آ رہی ہیں۔تفتیشی ایجنسیوں کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لئے غیر جانبدارانہ طریقہ بغیر کسی سیاسی دباؤ کے ذریعے کیا جائے تا کہ ہر خاطی کو اُس کے کیے کی سزا بھی ملے تاکہ ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو۔آج مجرموں کو بچانے کی خاطر سیاسی دباؤ ہی سب سے موثر آلہ کار ثابت ہوتا ہے جس سے اصل مجرم کو کلین چٹ ضرور مل جاتی ہے اور بے گناہ بھی کلین چٹ کے زمرے میں آہی جاتا ہے مگر دونوں کے معنی و مفہوم میں بھی بلا کا فرق ہے۔اول الذکر کلی طور پر آزاد اور آخر الذکر کو بھی کھُلا دھوکہ دیکر قید و بند کی صعوبتوں کا حقدار بنایا جا تا ہے۔ہر معاملے کی ابتدائی تفتیش اگر غیر جانبدارانہ اور ایمانداری سے کی گئی ہو تو وہی تفتیش اپنے اگلے مراحل بڑی آسانی کے ساتھ طے کرتی ہے اور انصاف بھی صحیح معنوں میں اُسے دیا جا تا ہے جو قرارِ واقعی انصاف کا ہی حقدار ہو۔اس کے برعکس ابتدائی مرحلے میں ہی جھوٹ کواور مکر و فریب کی آمیزش اُس معاملے کو ایسی پیچیدگیوں کی طرف لے جا سکتی ہے جہاں مجرموں کو بچانے کی خاطر ہر قد م پر ایک نئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اور گتھی سلجھنے کے بجائے مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو کرہر طور سے ایسے اُلجھ جاتی ہے کہ اُسے مزید مکر و فریب کے سہارے حسب دل خواہ سلجھایا نہیں جا سکتا ۔آخر کار حقیقت بھی سچائی کا لباس پہنے سامنے آہی جاتی ہے جیسا کہ ابھی عشرت جہاں فرضی معاملے کی تازہ تفتیش میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہو نہ ہو دال میں ضرور کچھ کا لا ہے۔اس لئے تفتیش کا ابتدائی ہی مرحلہ ہی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اگر اُسے خالص اور غیر جانب دارانہ طور پر کیا جائے اس کے بر خلاف ہر ابتدائی گمراہ کن تفتیش اپنے آخری مرحلے میں اُسی مقام پر پہونچ جاتی ہے جہاں تمام جھوٹ مکمل ہو جاتے ہیں اور مزید مکرو فریب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔آج ایسے خطرناک مجرموں کو کلین چٹ مل جاتی ہے جو پھانسی کے ہی سزاوار ہیں مگر تفتیش کے نام پر ثبوتوں اور دستاویزی ہیرا پھیری ہی تمام دیگر مراحل پر اثر انداز ہو تی ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تفتیش کا مرحلہ مکمل صاف و سُتھرا ہو۔اس میں اس بات کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے کہ کسی طور کسی مجرم کی پُشت پناہی کی جا رہی ہو۔تاکہ عدل و انصاف کی آخری ڈگر پر خاطیوں کو کیفرِ کردار تک پہونچانے میں کو ئی کسر باقی نہ رہے۔اب عشرت جہاں مرڈر معاملہ اس دہلیز پر ہے جہاں اُس کے مشکوک ہونے کے سارے نکات واضح ہو گئے ہیں جس سے اصل مجرموں کی پُشت پناہی صاف لفظوں میں واضح ہو گئی ہے اس لئے اس معاملے کی دوبارہ غیر جانبدارنہ اور ایماندارنہ طرز پر تحقیق کی جانی چاہئے تا کہ جو اصلیت چھُپانے کی کوششیں کی گئی ہیں وہ عوام کے سامنے واضح ہو جائیں اور اصل مجرمین ہی سزا کے مستحق قرار دیے جائیں۔قتل کو حادثہ یا فرضی انکاؤنٹر کا نام دینا اب اسلئے آسان ہو گیا ہے کہ تفتیش کی ساری جڑیں کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہیں اور انہیں کھوکھلی اور غیر مستحکم بنیادوں کے پیش نظر ہی باقی ماندہ تفتیشی مراحل متاثر ہوتے ہیں۔معاملہ چاہے عشرت انکاؤنٹر کا ہو یا کوئی اور دونوں صورتون میں چھان بین کی کاروائی انتہائی صاف سُتھرے طرز پر ہی کی جانی چاہئے تا کہ انصاف کے ساتھ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بھی رہے۔اگر تفتیشی مراحل میں ہی اس قدر دھاندلیاں کی گئیں اور اُنہیں برداشت بھی کر لیا گیا تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد ہونے والے اس سے بھی سنگین وارداتیں صرف اسی کسوٹی پر پرکھی اور تولی جائیں گی جس کی بنیاد دھندلیوں اور ہیرا پھیری پر ہی ہوگی۔اب عشرت جہاں معاملے کی تفتیش کے مرحلے میں اور مزید دھاندلیاں طشت از بام ہونے کو ہیں اس سے اس بات کا بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اصل مجرموں کو بچانے کے لئے اب تک کون کون سے اقدامات کس نوعیت کے ساتھ انجام دیے گئے ہیں۔

***
Waris Tudilvee
Mob: 09967245403
waristudilvee[@]gmail.com
وارث توڑیلوی

Investigation stages for Ishrat Jahan encounter. Article: Waris Tudilvee

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں