اے یوم مادر - ذرا دیکھ وہ کتبے جو ماؤں نے خون جگر سے لکھے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-05-08

اے یوم مادر - ذرا دیکھ وہ کتبے جو ماؤں نے خون جگر سے لکھے

Mothers-Day
مادیت پرستی کے اس دور نے انسان سے اسکے بے شمار جذبات و احساسات اور اوصاف چھین لئے ہیں، اور ان میں سب سے اہم انسانیت اور بندگی جیسے اوصاف ہیں۔۔ جو اب اپنا مفہوم کھوتے جارہے ہیں۔۔۔۔ بلکہ اچھے انسانوں کے ساتھ ساتھ یہ اوصاف دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔ ان اوصاف کے علاوہ، احسان، انکسار، صبر، معافی، خدمت، محبت، شفقت، مروت، بے غرضی، وفا شعاری جیسے اور بھی اوصاف ہیں جو انسانی تہذیبی ارتقاء کی بلی چڑھائے جارہے ہیں، اور عصبیت ، نفرت، انتقام، غرور، بے مروتی، بے وفا ئی جیسے نقائص انسانی زندگی میں مستحکم ہوتے جارہے ہیں ۔۔ اور عالمی معاشرہ جسکا عکاس بھی ہے۔۔۔۔ لیکن ایک ایسا جذبہ، ایک ایسا منفرد وصف انسان کے اندر آج بھی موجود ہے، اور جو خیر سے صنف نازک کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔۔۔۔ اور جسے ماں کی ممتا سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔ رب کائنات نے ماں کی مامتا کے مخالف کوئی بھی جذبہ ودیعت نہیں کیا۔۔۔ جیسے مروت کی ضد میں بے مروتی اور نفرت کی ضد میں محبت کا جذبہ رکھا گیا۔۔۔۔ ماں کی ما متا کا وصف منفرد اور یکتا ہے۔۔ اور جس کا کوئی متبادل نہیں ۔۔۔۔۔ نظام حیات میں لاکھ تغیر آئے ہوں اور انسان اپنے اوصاف سے لاکھ ہاتھ دھو بیٹھا ہو لیکن ماں کی محبت یا ممتا میں عموما کوئی تبدیلی نہیں پائی گئی ۔۔۔۔ ماں چاہے کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو، کہیں کی بھی ہو، کچھ بھی کرتی ہو۔۔۔عموما ممتا کے جذبہ سے سرشار پا ئی گئی۔۔۔۔ اور اس طرح حیات انسانی میں ماں کی عظمت مسلم ہوگئی۔۔۔۔تخلیق کے کرب کے صلہ میں اس عظمت کی وہ حقدار بھی ٹہری۔۔۔ماں سے منسلک تمام درجات مہذب دنیا ہو یا غیر مہذب، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، سب کے نزدیک یکساں ہیں ۔۔۔ جنگل میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والا بچہ ہو یا گاؤں میں، قصبہ میں رہنے والا ہو یا شہر میں، جوان ہو یا بوڑھا، ہر ایک انسان کے دل میں ماں کے لئے محبت و عقیدت ودیعت کردی گئی ہے، اور ہر ایک ماں کو ممتا کے جذبے سے سرشار کر دیا گیا ہے۔۔۔۔اور رب کائینات کی رحمت کا یہ مظاہرہ انسان ہو یا چرند پرند درند سب میں نمایاں ہے ۔۔ ہر ماں کو اپنا بچہ چاہے جو بھی ہو جیسا بھی ہو، بہت پیارا ہے۔۔۔ لیکن کیا واقعی مادیت پرستی اور نفسا نفسی کے اس دور میں یہ سب محبتیں و عقیدتیں قائم و دائم رہ پائیں گی۔۔۔۔ کیا آنے والی نسلوں میں مائیں واقعی وہی مائیں ہونگی جن کے قدموں تلے جنت ہونگی، جنکے دلوں میں ممتا کا ٹھاٹیں مارتا وہی سمندر ہوگا، جنکی محبتیں بے غرض ہونگی، جو اپنی اولاد کی معمولی تکلیف پر آسمان سر پر اٹھا لےگی، جو اپنے بچے کی نیندوں پر اپنی نیندیں قربان کردےگی ، جو اپنے حلق کا نوالہ نکال کر اپنے بچے کے منہ میں رکھ دے گی۔۔۔۔۔جو شیر خواری سے لے کر پرورش تک اور تعلیم و تربیت سے لے کر ازدواجی زندگی تک تمام حقوق بے چوں چراں ادا کرتی رہے گی- پوچھے کوئی موجودہ نسل سے کہ کیا واقعی اب بھی محبتوں میں وہی نرمیاں اور عقیدتوں میں وہی گرمیاں ہیں کہ لوریوں اور کہانیوں کے دوش پر محبتیں اور عقیدتیں نسل در نسل سفر کرتی رہے گی، کیا اب بھی مائیں چندا ماما یا ٹوینکل اسٹار کو موضوع بنا کر لوریاں بنتی ہیں ۔۔کیا اب بھی اولاد "لب پہ آتی ہے دعا'' کا ورڈ کرتی ہے ۔۔ کیا عورت کو ماں کے فرائض ادا کرنے کے قابل کہیں چھوڑا ہے اس مادیت پرست دنیا نے- کیا اب اولادیں ماں اور نانی دادی کی تربیت کے سائے تلے پروان چڑھتی ہیں۔۔ کیا اولاد میں وہ وفاداریاں اور فرمانبرداریاں باقی رہی ہیں۔۔۔۔ کیا کوئی اولاد بیمار ماں کی پکار پر پانی کا گلاس لئے رات بھر سرہانے کھڑی رہ سکتی ہے۔۔۔ کیا کوئی اولاد ہے جو یمن سے مکہ مکرمہ تک اپنی ماں کو کاندھے پر بٹھا کر حج کرواسکتی ہے ۔۔ کیا اب بھی شراون کمار پیدا ہوتے ہیں، کیا اب بھی کوئی بندہ حق پیدا ہوتا ہے جو ماں کی فرمانبرداری میں ڈاکو لٹیروں کو زندگی بھر کی جمع پونجی سونپ سکتا ہے ۔۔۔۔جب وہ محبتیں، عقیدتیں اور وہ فرائض و حقوق ہی نہ رہے تو اب کہاں وہ مائیں اور اب کہاں وہ اولاد ہونگی جن سے کوئی دلپذیر داستان تخلیق ہوگی - کہاں سے آئیگا سینے کے اندر وہ گداز جو انسان کو نسل در نسل انسانیت کا پابند بنائے رکھے گا۔۔۔ انسان کو رب کائینات کے حضور سر خرو کرے ۔۔۔۔۔ کہاں سے آئیگی وہ وارفتگی اور وہ والہانہ پن جو آنے والی نسلوں کے دلوں میں انسانیت کے لئے تڑپ پیدا کریگی۔۔۔۔۔ جب ماؤں کے بچے ممتا سے دور بورڈنگ اسکول میں اپنا قیمتی بچپن گذراتے ہونگے، جب مائیں چوبیس ضرب سات کی طرز پر معاشرے کی ترقی میں ہاتھ بٹاتی ہوگی، جب شیر خوار " بے بی سیٹنگ" میں مصنوعات پر گزارا کرتے ہونگے، اور خادماوں کی انگلیاں پکڑ کا چلنا سیکھتے ہونگے، وارڈن کی ڈانٹ پھٹکار سن سن کر نو جوانی میں داخل ہوتے ہونگے، ایسی اولاد سے کیسی نسل پیدا ہوگی اور ایسی نسل سے کیسی مائیں !!!

آج انسان منافقت کے عجیب و غریب دور سے گزر رہا ہے۔۔۔۔ اپنی اور ایکدوسرے کی کجی اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کیسے کیسے حربے متعارف کراتا ہے ۔۔۔جسکا استعمال عالمی سطح پر اسقدر عام ہے کہ پھر کوئی کسی کو خود غرض اور منافق بھی نہیں سمجھتا۔۔۔۔۔۔ ان حربوں میں ایک کارگر حربہ یہ بھی متعارف کرایا گیا ہے کہ ہر ایک منافقت کے لئے ایک مخصوص دن مقرر کردیا گیا ہے ۔۔۔۔ پھر چاہے یوم نسواں ہو یا یوم اساتذہ، یا یوم مادر ہو یا یوم پدر، یوم اطفال ہو یا یوم حماقت۔۔۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے ہر ایک کو اپنی ماں اور اپنے بچوں، اپنے استاتذہ اور اپنے اپنے ملکوں سے بے حد محبت و عقیدت ہے۔۔۔ دوسروں کی ماں ہو یا دوسروں کے بچے۔۔۔۔ انکے مسائل، انکے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا خیال حضرت انساں کو اگر ہوتا تو دنیا کے کروڑوں اربوں ماں بچوں کے حالات پر غور کرتا۔۔۔۔ یہ محبتیں اور یہ عقیدتیں اتنی محدود نہیں ہو جاتیں کہ ملکوں، خطوں، سماجوں، گھروں اور عقائد تک سمٹ جاتیں۔۔۔۔۔ "میری ماں سے مجھے بے حد محبت و عقیدت ہے لیکن دوسروں کی ماؤں سے وہی محبت و عقیدت مجھے کیوں نہیں؟" یہ وہ سوال ہے جو انسان ایسے ایام میں یاد نہیں رکھتا۔۔۔۔ اگر رکھتا تو آج دنیا میں بے شمار روتی بلکتی ماؤں اور کروڑوں بلبلاتے بچوں سے بھی انسان کو اتنی ہی محبت و عقیدت ہوتی۔۔۔۔۔ مائیں جن کے جگر اور لخت جگر دونوں کہیں جنگ و جدل سے چھلنی ہیں۔۔۔۔ تو کہیں ظلم و ستم سے، کہیں مائیں پانی کو ترستی ہیں تو کہیں کھانے کو، کہیں اپنے نو نہالوں کی لاشوں پر نوحہ کرتی ہیں تو کہیں اپنے بے رحم، شرابی کبابی اور عیاش خاوندوں کے جور و ستم پر۔۔ کہیں بچے اپنی ماؤں کی تمناؤں کو روندتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔کروڑوں نو نہالوں کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ہیں کہ انہیں گولہ بارود، آگ اور خون کے دریاوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔۔۔۔ ملکوں اور حکومتوں کی پیدا کردہ جنگوں کے شکار ماں بچوں کو ان محبتوں اور عقیدتوں کا کیا پتا۔۔۔۔ وہ ماں بچے کیا جانے ان ایام کی اہمیت جنکی زندگی میں تاریک راتیں ہیں اور سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ان ماں بچوں کو کیا پتا انکا کیا قصور ہے۔۔۔ اور انہیں کیا پتا کہ آسودہ حال گھروں میں مائیں اور بچے ایکدوسرے کی محبتوں اور عقیدتوں کو گلے لگائے کیا پیغام دینا چا ہتے ہیں۔۔۔ کیا بتانا چا ہتے ہیں ۔۔۔۔ یہ محبتیں اور عقیدتیں کتنی مستحکم اور دیرپا ہیں۔۔۔۔۔ اگلے یوم مادر اور یوم اطفال تک کتنی بار یہ منافقتوں اور خود غرضیوں کے طوفانوں سے گذرے گی ۔۔۔۔۔یہ محبتیں اور عقیدتیں صرف دو افراد کے درمیان کیوں ہیں، ہم اپنی ماں کے علاوہ سبکی ماؤں کو اپنی ماں کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ کیا یہ منافقت، خود غرضی، آنے والی نسلوں کو منتقل نہیں ہورہی۔۔۔۔ کون سوچتا ہے۔۔۔۔۔ آنے والی نسلوں میں کیسے احساسات اور جذبات پنپ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ آنے والی نسلیں گزری نسلوں کے آپسی انتقام کا نشانہ کیوں بن رہی ہے۔۔۔ ترقی کے نام پر ترقی یافتہ ملکوں میں ماؤں اور بچوں کے ساتھ نا انصافی کیوں ہو رہی ہے۔۔ صرف اس لئے کے وہ غیروں کے ماں اور بچے ہیں! دہشت گردی کے جھوٹے الزاموں میں پھنسائے گئے لوگوں کے ماں بچوں کو کیا پتا ان کا کیا قصور ہے۔۔۔۔۔ ان بچوں کو کس گناہ کی پاداش میں زندگی سے در بدر کر دیا جارہا ہے۔۔۔۔ ان سب کے لئے ہر ایک دن یوم قیامت ہے۔۔۔۔ یہ یوم قیامت کیوں منا رہے ہیں۔۔۔ انہیں بے آسرا اور بے بس و مجبور کرنے والے بھی تو وہی انسان ہونگے جو دوسروں کے ساتھ مل کر یوم مادر اور یوم اطفال مناتے ہونگے۔۔۔۔۔اس یوم مادر اور آنے والے یوم اطفال میں دنیا بھر کی ماؤں اور بچوں کا کیا حال ہوگا۔۔۔ شاید کہیں کوئی بچہ جنگ کی آگ میں سے بچ کر انتقام کی آگ میں جلتی جوانی میں داخل ہورہا ہوگا ۔۔۔۔۔ تو کہیں کوئی بچہ نفرت کی آگ میں جل کر ہجرتوں کی تاریک سرنگ پار کررہا ہوگا۔۔۔۔ اور پھر بغض و عناد سے بھرپور جوانی میں داخل ہوجائیگا۔۔ ۔۔ ایسی نسلوں سے پیدا ہونے والے ماں بچوں کے چہروں کو غور سے دیکھنے پر کتبوں کا گمان ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جو معصوم جنگ و جدل اور انتقام کی آگ میں جل کر شہید ہو گئے انکے کتبے نہیں بنائے جاسکے۔۔۔۔ لاکھوں کروڑوں بچوں کے کتبے بھلا کیسے بنتے اور کون بناتا ۔۔۔۔ انکی شناخت یہی ہے کہ وہ سب مہذب دور کے انسانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔۔ ایکدوسرے کے انتقام، ایکدوسرے کے بغض و عناد اور عصبیت کے ہاتھوں ۔۔۔۔

آسمانی صحائف ہوں یا عالمی ادب سب نے جہاں ماں کی عظمتوں سے دنیا کو روشناس کرایا ہے ونہیں انسان کی عصبیت اور نسل پرستی پر احتجاج بھی کیا ہے- انگریزی ادب سے ہیرالڈ رابنس نے 'اے اسٹون فار ڈینی فیچر' ناول لکھ کر ایک یہودی بچے کے احساسات کو اجاگر کیا تھا ۔۔ وہ ایک یہودی مہاجر تھے، اور ایک کہنہ مشق امریکی قلمکار ۔۔۔۔ بقول انکے انہوں نے "اینٹی سیمانٹیک" یعنی "یہودی مخالف" یا 'یہودی دشمن' ماحول میں پرورش پائی تھی۔۔۔۔اسی ماحول سے متاثر ہوکر انہوں نے مذکورہ ناول تخلیق کیا تھا اور ٥٠ / ٦٠ کی دہائی میں دنیا کو امریکی معاشرے کا آئینہ دکھایا تھا۔۔ بلکہ معاشرے کو خود اسکا آئینہ دکھایا تھا، جس معاشرہ کا وہ خود بھی حصہ تھے۔۔۔۔۔۔۔ناول میں 'ڈینی فشر' کے کردار کے ذریعے یہودی نو نہالوں کے ان دکھوں کی عکاسی کی تھی۔۔۔ جسے وہ پچھلے دو ہزار برسوں سے کندھوں پر صلیب کی طرح اٹھائے نسل در نسل گھومتے رہے۔۔۔۔اور اہل مسیح کویہی جتاتے ہوئے مرتے کٹتے چلے گئے کہ "ہم نے یسوع مسیح کا قتل نہیں کیا ہے"، ہم تو ان سے ملے بھی نہیں ہیں، انہیں دیکھا تک نہیں ہے، ہم قاتل نہیں ہیں، ہمیں اس دو ہزار سالہ الزام سے بری کردو، ہم نے کبھی کوئی قتل نہیں کیا ہے۔۔۔ہم تو معصوم ہیں۔۔۔ لیکن نسل در نسل چلتی اس نفرت کو نہ ہی اہل مسیح ختم کرسکے اور نہ ہی اہل یہود۔۔۔۔۔۔یہودی بچے آج بھی مغرب میں اس جھوٹے الزام کا شکار ہیں، جبکہ خالق حقیقی نے نہ صرف یہ کہ اس واقع کا خلاصہ کر آنے والی مسیحی اور یہودی نسل کو بری کردیا تھا۔۔۔ بلکہ عدل و انصاف کی کلید اپنے حبیب کے ذریعہ یہ کہہ کر انسانوں کو پیش کر دی تھی کہ "کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گا" لیکن حیف کہ لوگوں نے اپنے رب کی بات نہ مانی۔۔۔ اور معصوم بچپن کو ایسے غلط الزامات کی چھریوں سے ذبح کیا جاتا رہا۔۔۔ اور بغض و عناد اور شرک و کفر کے بیچ بو کر نفرت کی فصلیں اگا ئی جاتی رہی، اور نسل پرستی کی کھیتی بھی کی جاتی رہی ۔۔۔ ہیرالڈ کے علاوہ آئیرش قلمکار بھی ہیں جنہوں نے اہل مسیح کے دو طبقوں کی نسل در نسل چلنے والی عصبیت اور نفرتوں کو اپنی تصنیفات میں آئینہ دکھایا ہے۔۔۔۔ آج بھی بیلفاسٹ علاقے میں پروٹیسٹینٹ اور کیتھولک میں یہ نفرت اسی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔۔۔۔یوم مادر اور یوم اطفال وہ بھی مناتے ہیں ۔۔۔ اسی طرح امریکہ اور جنوبی افریقہ میں آج بھی گورے اور کالے کے درمیان عصبیت اور نسل پرستی عام ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی یہ یوم مادر اور یوم اطفال اسی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔۔۔۔ پچھلے ہزار برسوں سے مسلم ممالک میں شیعہ سنی طبقوں میں یہی عصبیت کارفرما ہے۔۔۔۔ ہندوستان میں برہمنوں اور غیر برہمنوں کے درمیان عصبیت اور نسل پرستی کا یہ طوق صدیوں سے انسانیت کے گلے میں پڑا ہے۔۔۔ یہ سب یوم مادر اور یوم اطفال مناتے ہیں اور خوب مناتے ہیں۔۔۔۔۔ ان تمام نے کروڑوں بچوں کو نسل در نسل موت کے گھاٹ اتارا ہے۔۔۔۔۔جنکے کتبے انکی ماؤں نے خون جگر سے لکھے ہیں۔۔۔۔ بس مہذب انسان کو نظر نہیں آتے ۔۔۔اور وہ یوم مادر ہو یا یوم اطفال مناتا رہتا ہے۔۔۔۔۔اپنی ماں کی عظمتوں کو اور اپنے بچوں سے محبتوں کو یاد کرتا ہے۔۔ یہ بھول جاتا ہے کہ کہیں لاکھوں کروڑوں معصوم بچے شہید کیے جارہے ہیں اور انکی مائیں اپنے چہروں پر انکے کتبے اٹھائے پھر رہی ہیں ۔۔اے یوم مادر ! ذرا دیکھ وہ کتبے جو ماؤں نے خون جگر سے لکھے ہیں !

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Mother's Day. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں