چمتکار - بھوپال گیس المیے کے پس منظر میں ایک کہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-05-14

چمتکار - بھوپال گیس المیے کے پس منظر میں ایک کہانی

bhopal-gas-tragedy
کوشلیا ؔ اورنرنجن پلیٹیں ، ڈونگے اور چمچے دھونے میں کڑکتی سردی کی چُبھن کا احساس بھول گئے۔ ذائقہ دار کھانے کی خوشبو گرم پانی کے ٹب میں گھلتی جارہی تھی۔ زیادہ تر مہمان جاچکے تھے اور رسمیں پوری ہوچکی تھیں دُلہن بِدا ہوکے اپنے بَر کے ساتھ پھولوں سے سجی ماروتی کار کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ سب کچھ ہورہا تھا جو صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ نرنجن ؔ،شہر کے نامی ہوٹل مالک ویرومل کا ملازم تھا۔ شہر اورآس پاس کی شادی بیاہ میں کھانے اور سجاوٹ کیلئے ویرومل کا بڑا شہرہ تھا۔ ایسے سماروہ(تقریبات) میں نرنجن اپنی دس سال کی بیٹی کو محلہ والوں کی نگرانی میں کمرے میں چھوڑ کر کوشلیا کو ساتھ لے آتا تھا۔ سوروپئے بھی مل جاتے اور قسم قسم کا کھانا بھی۔ پوری ، کچوری ، تندروی روٹی ، مٹر پنیر، دَم آلو اور سبزی پلاؤ ۔ کوشلیاؔ پولی تھین کی تھیلی میں بچا کھچا کھانا اتنا سمیٹ لیتی کہ نرمل بیٹی اور خود یعنی د ونوں کیلئے ایک دو دن کی خوراک ہوجاتی ۔ ویروملؔ کے وِیٹرس اوردوسرے ملازم زمین پر فرش بچھائے بھوک مٹانے کو تیاربیٹھے تھے۔
2/ دسمبر کی سردی سے ٹھٹھرتی رات 3/ دسمبر میں داخل ہوئی کہ اچانک عجب سی بٗوفضا میں پھیلتی گئی ۔ یہ بُو دار چینی ، جائفل اوردوسرے مسالوں جیسی فرحت افزا نہ تھی۔ دھوئیں جیسے دُھندلے مرغولے نے ملازمین اور براتیوں کے سینے میں دھڑکتے دلوں کو بے چین کردیا۔ سب کھانس رہے تھے اورہتھیلیوں سے آنکھیں مسلتے انجانے خوف سے گِھر گئے۔ باہر سڑک پر ہزاروں قدموں کی دھمک نے سیٹھ مگن لال کی قمقموں سے روشن کوٹھی کو ہِلا کے رکھ دیا۔ باراتیوں میں بھگدڑمچ گئی۔ دھوئیں نے بجلی کے ننھے ننھے بلبوں کو نگل لیا اور بڑی ٹیوب لائٹس بھی دُھند میں ڈوب گئیں۔ باراتی ، رشتہ دار ، مہمان عورتیں اور بچے ہوش وحواس چھوڑ باہر کو دوڑپڑے۔ دُلہن کا نسوانی لوچ اور رنگ برنگی چوڑیاں جو کچھ منٹ پہلے سہاگ کو دوبالا بنارہی تھیں پل بھر میں پھیکی پڑگئیں۔
" ہائے رام " کوشلیاؔ کی لڑکھڑاتی آواز نرنجن کے کانوں میں سرسرائی اور غائب ہوگئی۔ نرنجن نے اونی مفلر منہ اور کانوں سے لپیٹ رکھا تھا۔ وہ برتن چھوڑ کھڑا ہوگیا۔ فرش پر کھانے کیلئے بیٹھے ویٹرس کو اوندھے پڑا دیکھ کے اس کی سانس رُکنے لگی۔ سڑک پر کہرام بڑھتا گیا چاروں طرف چیخ وپکار اورہاہا کار تھی۔ ہزاروں لوگ ایک دوسرے کو روندتے اندھا دھند سراٹھائے بھاگ رہے تھے۔ جیسے آدم خور شیروں کا جھنڈان پر جھپٹنے دوڑا آرہا ہو۔
" جان بچاؤ ۔ بھاگے چلو"
کچھ ہیروٹائپ کے نوجوان بلند آواز میں چلاتے کوٹھی کے سامنے سے دوڑتے گئے۔
" بھاگو۔ زہریلی گیس کے کنوئیں پھٹ گئے۔
زندہ رہنا ہے تو شہر چھوڑدو!"
نرنجن دھیرے سے کوشلیا کے پاس آیا۔ ٹھنڈی اُنگلیوں سے اسے ٹٹولا اور چاہا کہ ہاتھوں میں اٹھالے لیکن کملا برف کی سِل بن گئی تھی۔ نرنجن نے چھاتی پر گھی تیل سے چپڑے دونوں ہاتھ پھیرے مگرکوئی کپکپاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ ہمت کرکے اس نے کوشلیا کی کمر پکڑکے اُٹھانے کی کوشش کی تو اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔
" ہے بھگوان۔ یہ تو شانت ہوگئی!"
وہ بڑبڑایا اور مایوس سے سرگھمایا۔ کوٹھی اورلان ویران ہوچکے تھے۔ کہیں کہیں انسانی جسم بکھرے دکھائی دیئے جیسے پت جھڑ میں زردبے جان پتّے تیز ہوا کے تھپیڑوں سے ٹوٹ کر اِدھر اُدھر پھیلے پڑے ہوں۔ جہاں بینڈ باجوں کی مستانی دُھن پر زندگی تھرک رہی تھی۔ عورتوں کے جنونی قہقہے بچوں کی کوئل جیسی کلکاریاں اورنشہ بکھیرنے والے سینٹ کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ اب وہاں ساری رونق اور خوشیوں کے پھول مرجھاگئے تھے۔ نرنجن نے سوچا اسے فوراً گھر جانا چاہئے۔ معصوم بچی دہشت ناک افراتفری دیکھ کی دیوانی ہوگئی ہوگی۔ آس پڑوس والے بھی گھربار چھوڑ جاچکے ہوں گے۔ ایشور جانے نرمل پر کیا بیتی اوراس کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ جب کو شلیا نے زہریلی بٗوکے آگے ہتھیار ڈال دیئے تو دس سال کی بچی کی کیا اوقات! ماں جن جن گھروں میں جھاڑو پونچھا اورکپڑے دھونے جاتی وہ بھی انگلی تھامے ساتھ ہولیتی ۔ بڑی ڈرپوک اور دھان پان۔ بارش کے دنوں میں بجلی کڑکتی تواس کی زبان لٹک جاتی اورآنکھیں پھیل جاتیں۔ کوشلیا ؔکی چھاتی سے لپٹ ہی کر شانتی ملتی ۔ رات کو بِلّی کی مِیاؤں میاؤں اور کتوں کے بھونکنے سے اُٹھ بیٹھتی ۔ بلک بلک کے روتی۔ اب نرنجن کو بیٹی کی فکر ستانے لگی۔
" وہ بھوکی ہوگی" نرنجن نے پولی تھین میں تھوڑا سا کھانے کا سامان رکھا اورپانی کی سیل بنددوبوتلیں اٹھائیں۔ یہ پانی امیر لوگ پیتے ہیں۔ صاف ستھرا ہوتا ہے اورکہتے ہیں صحت بناتا ہے۔ محلہ کے نلوں سے کئی بار چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی نکلے۔ نرمل ؔتو ہیضہ میں مرتے مرتے بچی تھی۔ ایسا صاف شفاف پانی نرمل نے کبھی نہیں پیا۔ وہ منڈپ کے پاس آیا۔ کسی کا ریشمی سفید اسکارف اور دبیز اونی شال کرسی پر رکھی دیکھی اورجھجکتے ہوئے ہاتھ میں دبوچ لی۔ اسکارف سے آنکھیں ڈھانپیں اور شال اوڑھ لی، کچھ خیال آیا اور تیزی سے کوشلیا ؔکی طرف لپکا شال اُتاری اور لاش پر پھیلا دِی۔
" کتنی ٹھنڈ ہے۔ مُردے کوبھی لگتی ہے۔ "
وہ کوٹھی سے باہر آگیا ایسی بھاگم بھاگ اس نے جیون میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بوڑھے ، مرد ، عورتیں او ر بچے جگہ جگہ فٹ پاتھ پر گرے پڑے ہائے توبہ کررہے تھے۔ کوئی اُنہیں دیکھنے سننے والا نہ تھا۔ گلا پھاڑ کے اپنوں کو آوازیں دے رہے تھے۔ ہندو ، مسلم ، سکھ اور عیسائی سب دریا کی طغیانی جیسی رفتارسے جدھر راستہ ملتا اُدھر کودوڑ لگارہے تھے۔ نرنجن کو تین سال پہلے کا نربداندی کا سیلاب یاد تھا۔ طرح طرح کے زہریلے سانپ اور بے بس انسان ایک ہی درخت سے لپٹے تھے۔ وہ کاٹنا بھول گئے اور آدمی ڈرانہیں کیونکہ حقیقی موت پانی تھا زہر نہیں۔
" باوا۔ ادھر آؤ۔ میں یہاںہوں"
' ' چاچا ۔ مجھے اُٹھالو۔ میری آنکھیں جل رہی ہیں۔ "
" بھیّا مجھے پانی دو۔!
نرنجن نے پانی کی بوتل کی ناب توڑی اور اس ضعیف عورت کی طرف بڑھا دی جس نے بھیا کہہ کر اسے پکارا تھا۔
" بہن۔ ان بچوں کو بھی پلا دینا"
نرنجن کے کانوں میں نرمل کی کمزور آواز دستک دینے لگی۔ جس میں خوف اور لاچاری تھی۔ نرنجن دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگا۔ بیڑی سگریٹ نے اس کے پھیپھڑوں کو مدھومکھّی کا چھتّہ بنادیاتھا۔ اسی لمحے اسے خیال آیا کہ گھر کے آس پاس زیادہ تر آبادی مسلم رنگیزوں کی تھی۔ چار مسجدیں تھیں اورمحلے میں مشکل سے دس گھر ہندوؤں کے تھے۔ پچھلے سال قریب کی بستیوں میں دنگا بھی ہواتھا۔ کہیں رنگریز اس آپادھاپی میں بدلہ لینے کا منصوبہ نہ بنالیں۔ گھر تھوڑے فاصلے پر رہ گیاتھا۔ نرنجن نے برے اندیشے کو جھٹک دیا ۔ سوچا نرمل ؔجاگ رہی ہوگی۔ ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ وہ کوشلیا کے ساتھ شادی بیاہ میں جاتا تو کھانا ساتھ لے کے آتا اورنرمل پلیٹ ہاتھ میں لئے بیٹھی ملتی ۔ اس کے گھرکے باہر اور چاروں طرف کے گھروں میں سناٹا چھایاہواتھا۔ نرنجن ؔ کا دل بیٹھ گیا۔ کمرہ کا دروازہ کھلا ہواتھا۔ سامنے سڑک کے کنارے کوئی بیٹھا تھا اوراسے دیکھ کر بکری جیسی منمناہٹ میں بولا۔
" اے بھائی۔ پانی پلادو"!
نرنجن قریب پہنچا اورحیرت سے سٹپٹاگیا۔ لال مسجد کے مولوی صاحب سرپکڑ ے بُری طرح کھانس رہے تھے۔ بغل میں کوئی عورت بے سدھ اوندھی پڑی تھی۔ شاید اُن کی بیوی تھی۔ موت کے تانڈو میں بھی پردے کا خیال رہا ہوگا کہ چہرے پر دوپٹہ پڑا ہواتھا۔ کسی نامحرم نے برسوں اُن کے بالوں کی ایک لٹ نہ دیکھی ہوگی۔ نرنجن نے تھیلی سے پانی کی بوتل نکالی اور سیل توڑکے مولوی صاحب کے لرزتے ہاتھوںمیں تھمادی۔
" مولوی صاحب! میری بیٹی نرمل بھی کہیں نظرآئی!
مولوی صاحب نے گردن ہلاتے مسجد کی طرف اشارہ کیا۔ بوتل کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہ ڈال سکے بوتل ہاتھ سے گری اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئے۔ نرنجن گھبرایا ہوا مسجد کے دروازے پر آیا۔ کچھ دیر سوچتا رہا کہ اندرجانے سے ہنگامہ نہ ہوجائے اورلینے کے دینے پڑجائیں۔ گئے سال کا فساد نگاہوں میں لوٹ آیا۔ پتنگ کٹ کے آئی اورمسجد کے صحن میں آگری۔ پرشادی لال اور گنگا سنگھ کے بچے ننگے پاؤں اسے اٹھانے اندر گھس آئے تھے۔ نرنجن پس وپیش میں پڑگیا۔
چاروں طرف خاموشی تھی۔ کتے بلی بھی نظرنہ آئے۔ اس نے چپل اُتاریں۔ سرپہ بندھے اسکارف کو کھولا اورپیر کے تلوے صاف کئے اورجلدی سے صحن میں آگیا۔ اسکارف کو فرش پر بچھایا اور پولی تھین تھیلی میں سے سارا کا سارا کھانا انڈیل دیا۔ اس نے بار ہادیکھاتھا۔ رمضان میں نت نئی افطاری چادر پر سجائی جاتی اور ارد گرد روزہ دار گولہ چھوٹنے کا انتظارکرتے تھے۔ نرنجن کو وہاں صرف چھوٹی چھوٹی چمگادڑیں اُڑتی دکھائی دیں۔ نہ جانے مولوی صاحب نے گردن گھماکے کیوں اشارہ کیاتھا۔ حجرے میں بلب کی روشنی تھی۔ اس نے آہستہ سے دوبار آواز لگائی۔
"نرمل ۔ نرمل " خاموشی چھائی رہی۔ اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ ہمت کرکے حجرے کی کنڈی کھولی دس بارہ بچے سردی سے بچنے کیلئے ایک دوسرے سے لپٹے آرام سے سورہے تھے۔ دولڑکوں کے سینے پر سیپارے رکھے تھے۔ پڑھتے پڑھتے سوگئے ہوںگے۔ ایک کونے میں نرملؔ گنگا سنگھ اور پرشادی لال کے لڑکوں پر نظر پڑی تو نرنجن بھونچکا رہ گیا۔ سرتھامے اُ کڑوں بیٹھے خوش ہوا کہ یہ دیوی دیوتاؤں کا چمتکار ہے ۔ تبھی اسے مولوی صاحب اور اُن کی بیوی کا خیال آیا۔ " ہائے رام ۔ اصلی چمتکار اُن ہی کاتھا۔ " وہ بجلی کی طرح اٹھا اور حجرے کا دروازہ بندکرکے باہر کودپڑا۔

***
Nayeem Kausar
Mob: 09200000905

Chamatkaar, story based on Bhopal gas tragedy. Article: Waris Tudilvee

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں