ججوں کے تقرر کے مسئلہ پر چیف جسٹس آف انڈیا جذبات سے مغلوب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-04-25

ججوں کے تقرر کے مسئلہ پر چیف جسٹس آف انڈیا جذبات سے مغلوب

نئی دہلی
پی ٹی آئی
چیف جسٹس آف انڈیا ایس ٹھاکر آج وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں اجلاس کے دوران اشک بار ہوتے ہوئے ججوں کی موجودہ تعداد میں21,000سے40,000اضافہ کرنے مین حکومت کی عدم کارروائی پر تنقید کی اور کہا کہ مقدموں کی بھرمار سے نمٹنے میں عدلیہ کو مورد الزام قرار نہ دیاجائے۔ غیر معمولی طور پر جذبات سے مغلوب، چیف جسٹس ٹھاکر نے کہا کہ1987میں جب لا کمیشن نے ججوں کی تعداد فی دس لاکھ آبادی کے لئے دس سے پچاس ججوں کا اضافہ کیا تھا، اس وقت سے آج تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی عدم کارروائی کی وجہ سے ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ چیف منسٹروں اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی مشترکہ کانگریس کے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کرنے کے دوران روندھی ہوئی آواز میں جسٹس ٹھاکر نے ان خیالات کا اظہار کیا ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ اسل ئے نہ صرف مقدمات کے فریق متاثر ہیں یا عوام جیلوں میں محروس ہیں ملک کی ترقی اور فروغ کے نام پر وہ تہہ دل سے درخواست کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اس بات کو سمجھیں اور محسوس کریں کہ صرف تنقید ہی کافی نہیں ۔ آپ سارا بوجھ عدلیہ پر نہ ڈالیں ۔اس دوران وزیر اعظم ہمہ تن گوش چیف جسٹس کی تقریر سماعت کرتے رہے ۔ وزارت قانون کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں وزیر اعظم کی تقریر کا پروگرام شامل نہیں تھا ، مودی نے کہا کہ وہ ان کے( چیف جسٹس) درد کو سمجھ سکتے ہں ، کیونکہ1987کے بعد سے کافی وقت گزر چکا ہے اور کہا کہ جو کچھ بھی مجبوریاں رہی ہوں گی ، لیکن یہ بہتر ہوگا کہ مزید تاخیر نہ کی جائے ۔ مستقبل میں ہم اس کا بہتر حل نکالیں گے ۔ ہم دیکھیں گے کہ مستقبل میں اس بوجھ کو کم کرنے کی کیا پیشرفت کی جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہا گر دستوری رکاوتوں سے کوئی مسائل پیدا نہ ہوتے ہو، تو سرکردہ وزراء اور سپریم کورٹ کے سینئر ججس بند کمرہ میں اجلاس منعقد کر کے اس مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں اور کہا کہ یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے اس بات کا تیقن کرے کہ عام آدمی کا عدلیہ پر بھروسہ برقرار رہے اور حکومت اس ذمہ داری کی تکمیل کرے اور عام آدمی کی زندگی کو سہل بنانے میں مدد دینے میں ناکام نہ ہوں ۔مودی نے چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے شدت کے ساتھ اتھائے گئے مسئلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب جاگو تب سویرا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لا کمیشن کی سفارش کے بعد سال2002میں سپریم کورٹ نے بھی عدلیہ میں ججوں کی تعداد میں اجافہ کرنے کی تائید کی اتھا۔ وزارت انصاف سے متعلق پارلیمانی کمیٹی جس کے سربراہ پرنب مکرجی تھے، نے بھی ججوں کا تناسب دس سے پچاس کرنے کی سفارش کی تھی ۔ فی الوقت ججوں کا تناسب دس لاکھ آبادی کے لے پندرہ ہے ، جو امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کناڈا کے مقابلہ میں انتہائی کم ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کہ مرکزی حکومت اس موقف پر قائم ہے کہ وہ عدلیہ کی مدد کرنے کی پابند ہے ۔ ریاستی حکومتوں کا فرض ہے کہ عدلیہ کے انفراسٹرکچر اور ملازمین کی تعداد میں اضافہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستیں چاہتی ہیں کہ اس غرض کے لئے مرکز فنڈ فراہم کرے ۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مابین رسہ کشی میں ججوں کی تعداد جوں کی توں ہے ۔ تاہم گزشتہ سال پانچ کروڑ مقدمات سے نمٹا گیا اور دو کروڑ مقدامات کی یکسوئی کی گئی، لیکن ججوں کی کارکردگی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے مقدمات بار بار زیر التوار رکھے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں فریقین کے مصارف میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں1950سے آج تک ججوں اور مقدمات اعداد و شمار پیش کیا ۔ کانفرنس کے بعد ایک پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اعتراف کیا کہ جذبات سے مغلوب ہونا ان کی ایک کمزوری ہے اور کہا کہ کسی کو جذبات سے مغلوب نہیں ہونا چاہئے ۔ آئندہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ پر جسٹس کیہار فائز ہونے والے ہیں ، جو ایک مضبوط آدمی ہیں اور وہ جذبات سے مغلوب نہیں ہوں گے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں