علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی موقف کی مخالفت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-04-05

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی موقف کی مخالفت

نئی دہلی
پی ٹی آئی
این ڈی اے حکومت نے آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کی تائید کے یوپی اے حکومت کے موقف سے یہ کہتے ہوئے انحراف کیا کہ اس طرح کے موقف سے دستوری بنچ کے فیصلے کی نفی ہوگی جس نے اسے مرکزی یونیورسٹی قرار دیا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے کہا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیر اقلیتی ادارہ ہونے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیالنج کی تائید نہیں کرے گی۔ منموہن سنگھ حکومت نے2006میں سپریم کورٹ میں اس طرح کی اپیل داخل کی تھی ۔ مرکز نے کہا کہ اس نے اس مسئلہ پر نہ صرف اپنا ذہن تبدیل کیا ہے بلکہ اپیل سے دستبرداری میں یونیورسٹی سے خود کو الگ تھلگ کررہا ہے ۔ اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے جسٹس جے ایس کیہر کی زیر صدارت تین جج کی بنچ سے مرکز کے مرافعہ سے دستبرداری کے فیصلے سے واقف کرایا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بنچ سے مزید کہا میں اے ایم یو سے خود کو الگ تھلگ کرہا ہوں ۔ اس بنچ میں جسٹس یم بی لوکر اور سی ناگپن شامل تھے ۔ انہوںنے استدلال پیش کیا کہ1967میں مرکزی قانون کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی دستوری بنچ نے عزیز باشاہ فیصلہ میں اسے مرکزی یونیورسٹی قرار دیا اور یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے ۔ روہتگی نے بتایا کہ20سال بعد1981میں یونیورسٹی کو اقلیتی موقف دینے کے لئے ترمیم کی گئی جسے ہائیکورٹ نے غیر دستوری قرار دیا۔ اٹارنی جنرل نے بنچ سے کہا کہ آپ عزیز باشاہ فیصلہ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ حکومت ہند کا اے ایم یو کو اقلیتی موقف دینا عزیز باشاہ فیصلے کے برعکس ہوگا اور یہ ہنوز برقرار ہے ۔ بنچ نے مرکز کو اس کی جانب سے داخل کردہ مرافعہ کی دستبرداری کے لئے 8ہفتہ کی مہلت دی تاکہ درخواست کے ساتھ حلف نامہ بھی داخل کیاجاسکے ۔ بنچ نے کہا کہ اے ایم یو مرکز کے موقف پر جوابی حلف نامہ داخل کرسکتا ہے اور معاملہ کی سماعت گرمائی تعطیلات کے بعد مقرر کی۔ ایم اے یو کی نمائندگی سینئر وکیل پی پی رام نے کی۔ سپریم کورٹ نے چند مداخلت کاروں کو بھی اجازت دی جن کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے کی۔ ہائیکورٹ نے جنوری2006میں اے ایم یو ترمیمی قانون1981کو کالعدم قرار دیا تھا۔ جس کے تحت یونیورسٹی کو اقلیتی موقف دیا گیا تھا۔ ہائیکورٹ کی ڈویژن بنچ نے 2005کے سنگل جج کے فیصلہ کو برقرار رکھا تھا جنہوں نے اے ایم یو کو اقلیتی موقف دینے اور مسلمانوں کو50فیصد تحفظات فراہم کرنے کو غیر دستوری قرار دیا تھا۔
نئی دہلی سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب کانگریس نے آج نریندر مودی حکومت پر اے ایم یو مسئلہ میں گھڑی کو پیچھے کرنے اور عوام کے ذہنوں میں عدم سلامتی اور پھوٹ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا اور کیونکہ مرکز نے سپریم کورٹ میں واضح کردیا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی موقف دینے کی تائید نہیں کررہی ہے ۔ کانگریس ترجمان آنند شرما نے بتایا کہ ہم ایسی صورتحال پیدا کررہے ہیں اس سے اس حکومت کی ذہنیت اور ایجنڈہ کا ایک بار پھر انکشاف ہوتا ہے ۔ نریندر مودی حکومت کی ناقص کارکردگی اور تمام محاذوں پر ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بنیادی طور پر اپنے طریقہ کار ، اپنے نظریہ اور اپنے ذہن میں تخریب کار ہیں۔ سابق وزیر قانون اور سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے اسے شدید مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ پر وہ نہایت تنگ نظر سیاسی خیال رکھتے ہیں ۔ وہ ایسا کرنے والے پہلے نہیں ہیں ۔ ماضی میں بھی اسی طرح تنگ سیاسی نظریات رکھنے والے تھے۔ پارٹی کے ترجمان اعلیٰ رندیپ سرجے والا نے اے ایم یو یونیورسٹی کے اقلیتی یونیورسٹی ہونے کے سلسلہ میں الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کو سلمان خورشید کی جانب سے چیالنج کرنے میں کوئی غلطی نہیں پائی ۔ اس ملک کے ایک فرد کی حیثیت سے کسی کو بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فلاح و بہبود سے دلچسپی ہوسکتی ہے ۔ اور انہیں دستیاب تمام دستوری سہولتیں حاصل کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے ۔

Government backs verdict denying AMU minority status

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں