ٹی وی اینکرز کا غیر ذمہ دارانہ رویہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-01

ٹی وی اینکرز کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

india-tv-channels
ٹی وی والوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں آئے دن دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ جب اینکر حضرات پروگرام چلانے کے لیے کرسی پر بیٹھتے ہیں، تو ایسے لب و لہجے میں بات کرتے ہیں، جیسے وہ بات کرنے کے بجائے سانپوں کی طرح ڈستے اور بچھوں کی طرح ڈنک مارتے ہیں اور اٹھائی گیروں کو اٹھا لاتے ہیں جن کی باتیں زہریلی، خیالات گندے اور زبانیں کالی ہوتی ہیں، اینکر مباحثے کا ایسا ماحول بناتے ہیں جیسے وہ مرغا لڑانے بیٹھے ہیں۔
ہندوستان کے ٹی وی اینکرز انتہائی غیر شائستہ اور غیر مہذب ہوتے ہیں، ان کی اپروچ، اٹیچیوڈ، اسلوب اور لب و لہجے سے سامعین کے اندر نفرت، انتہاپسندی اور فرقہ پرستی پیدا ہوتی ہے، یہ ہر شے کو دھماکہ خیز بنانے کے لیے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، یہ مباحثہ کرانے اور کسی موضوع کو نتیجے تک پہونچانے کے بجائے عموما بھڑکانے اور بحث پیچیدہ بنانے کا کام کرتے ہیں، ان کے بھڑکانے کے بعد عموما گندی زبان، گندے خیالات باہر آتے ہیں، تہمت تراشی کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
اینکرز (Anchors) چونکہ متعصب ہوتے ہیں، اسی لیے چاہے اَن چاہے وہ تعصب کی آگ لگاتے ہیں اور جب سے سنگھ پریوار نے مادی و نظریاتی طور پر انھیں اپنے زیر اثر بنا لیا گیا اور الیکشن میں اس نے کروڑ روپیہ میڈیا کی کالی بھیڑوں پر خرچ کیا ہے، میڈیا کے اکثر لوگ کریلا نیم چڑھا بن گئے ہیں، ان کے لب و لہجے پر بھگوا رنگ نے غارت گری کی ہے، ان کی زبان زہریلی و کسیلی ہو گئی ہے اور یہ سنگھ پریوار کی طرح بزعم خویش [مادروطن] کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں اور غیر بھگوا لوگوں سے حب الوطنی کی سند مانگنے لگے ہیں، انھوں نے اسٹوڈیو کو کنگارو کوٹ بنا رکھا ہے اور لوگوں کے محب وطن و دشمن وطن ہونے کا فیصلہ کرنے لگے ہیں۔
میڈیا میں ایک ٹی وی اینکر کا بہت اہم رول ہوتا ہے اور وہ یہ اہم رول اسی وقت ادا کر سکتا ہے جب وہ مہذب ہو، شائستہ زبان بولنا جانتا ہو، اس کے پاس قانون، سماج اور سماجی رویوں اور مسائل کے پون کرون کے متعلق صحیح جانکاری ہو، وہ تجزیاتی ذہن رکھتا ہو، انصاف پسند ہو، سماج کو گائڈ کرنے کا جذبہ ہو، اس کی تسدید اور کرکشن کی صلاحیت ہو، انسانی احساسات و جذبات کا قدردان ہو، حقوق انسانی سمجھتا اور قومی یکجہتی کا مزاج رکھتا ہو۔
عموما ٹی وی اینکرز اس معیار پر پورا نہیں اترتے، اکثریت اخلاقی اقدار سے بھی محروم، تعصب و تنگ نظری کا شکار ہوتی ہیں اور عموما جج بننے کا انھیں شوق ہوتا ہے۔ چونکہ وہ اپنے اسٹوڈیو میں ہوتے ہیں اس لیے وہ فرمان صادر کرنے میں خود کو بااختیار سمجھتے ہیں۔
کسی بھی کرنٹ ایشو پر میڈیا والے ٹی وی پر کہیں سے کسی کو اٹھا لاتے ہیں اور پبلک کے سامنے ساس بہو کا جھگڑا چھیڑ دیتے ہیں، جو کسی مہذب اور شائستہ انسان کے لیے کسی بھی طرح خوش گوار نہیں ہوتا، چونکہ اکثر اینکرز دائرہ تہذیب سے باہر ہوتے ہیں اسی لیے بسا اوقات اپنے اسٹوڈیو میں بلائے شریف اور سنجیدہ مہمانوں کے لیے الجھن اور پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں اور بیچ میں ایسا ٹپکتے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا سنجیدہ انسا ن اپنا ذہنی توازن کھو دے۔ مثال کے طور پرمنور رانا کو ایک سنگھی بدتہذیب کے ساتھ بٹھا دیا گیا، اس کی تباہ کن ذہنی حالت اوپر سے اینکر کی بار بار مداخلت، ایک نازک احساس والے ادیب کے لیے بلا وجہ ایک پریشان کن حالت بن گئی۔ NDTV پر ہمارے مولوی اصغر پہونچے، ایک کم فہم بڑبڑانے والی عورت کا مولوی صاحب کو سامنا اور اینکر کی جاہلانہ مداخلت سے مولوی صاحب کے پسینے چھوٹ گئے، ہوش گم ہو گئے، توازن بگڑ گیا، بہن جی کو منانے میں سارا وقت ختم ہو گیا، بہن جی جھوٹ کو ثابت کرگئیں اور مولوی صاحب سچائی کو سینے میں دبائے رسوا ہوکر گھر واپس آگئے۔
اینکرز نے الکٹرانک میڈیا کو ایسا بنا دیا ہے کہ وہ صرف لوگوں کے منھ میں اپنی باتیں ڈالتے ہیں اور جو آسانی سے ان کے لقموں کو نہ نگلے وہ اسے ڈانٹ ڈانٹ کر ٹھونس ٹھونس کر اپنے نوالوں کو ان سے نگلواتے ہیں۔
میڈیا جمہوریت کا اہم چوتھا ستون بن چکا ہے، اس کا رول نگرانی اور رہنمائی کی ہونی چاہیے، لیکن ٹی وی اینکرز کے رویوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس مصالح قوم کی نگرانی اور قوم کی رہنمائی کی صلاحیت سرے سے ہے ہی نہیں، ان کی اکثریت اپنے عمل سے سامعین کو ہائپر سینسٹیو (HYPER SENSATIVE) بنا دیتی ہے۔ اور ایسی صورت میں ٹی کے مشاہدین مس گائڈ ہوتے ہیں، ان کے احساس زخمی ہوتے ہیں، نفرت و تعصب کا ان کے اندر زہر انڈیل دیا جاتاہے۔ ملک میں قومی یکجہتی کے بجائے فرقہ پرستی بڑھتی ہے، انتشار اور ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ آئیے ہم جو باتیں کہہ رہے ہیں اس کا ثبوت دیں۔
انڈین ایکسپریس شمارہ منگل وار تاریخ 23؍2؍2016ء کام 5،5، عنوان ہے [ON TV SCREENS, THE JUDGES & THIER GUILTY YERDICT) ٹی وی اسکرین پر، جج حضرات اور ان کے غلط فیصلے، مضمون نگار ہیں [Devyani onial]، انھوں نے فروری کے تیسرے ہفتے میں جے این یو اسٹوڈنٹ اور قومیت مخالف پر ٹی وی مباحثوں کا جائزہ لیا، جن میں اینکرز جج اور مشاہدین جیوری بنے ہوئے تھے، اس مضمون کے حوالے سے ٹی وی اینکرز کی کچھ کی ہوئی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔
جے این یو کا مسئلہ جب سے اٹھا ہے اور اس کی تصنیف کی گئی اور اسے افسانہ بنانے میں میڈیا نے کردار ادا کیا، اس کے بعد ایک ہفتہ تک اینکرز ٹی وی اسکرین پر جج بنے ہوئے تھے اور مشاہدین جیوری، اینکرز خود ہی مدعی، خود ہی وکیل، خود ہی پولیس اور خود ہی جج۔ ایک بے مسئلہ کو انتہائی حساس قومی مسئلہ بنائے ہوئے، تقریر میں تحریف کیے ہوئے، جھوٹ کا نشانہ باندھے ہوئے، طلباء پر ڈانٹ، پھٹکار طنز طعنے بازی اور فیصلے صادر۔ ان جعلی اور جھوٹے مباحثوں نے پوری قوم کو مس گائڈ کیا، یہ طے ہو گیا کہ وہ ٹیپ جس میں اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیاکمار کو آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے سنایا گیا اور سارے ٹی وی چینلوں نے اسے پبلک کو ٹی وی پر سنایا جعلی تھا، بھاجپائی طلبہ یونین کے لیڈروں کی فتنہ انگیز باتوں کی اس میں پیوندکاری کی گئی تھی تاکہ سنگھی مخالف اسٹوڈنٹ لیڈروں کو بدنام کیا جائے اور جے این یو میں ABVP کے قدم جمائے جائیں اور ان لفٹ موافق یونین لیڈروں کو دیش دروہی، فتنہ انگیز اور غدار بنایا جاسکے، اس ناپاک اور ہم وطنوں کے ساتھ سنگھی سازش میں ٹی وی اینکرز کیسے شریک ہوئے اور کس طرح اپنی اوقات سے باہر جاکر ہیکڑی دکھلائی اور فکری و اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ان اقتباسات کو پڑھیے اور اینکرز کے احمقانہ فیصلوں پر ماتم کیجیے:

زی نیوز (ڈی این اے پر سدھیر چودھری):
"بھارت کا اپمان کسی قیمت پر سہا نہیں جا سکتا اور دیش دروہیوں کو کسی طرح طرح بخشا نہیں جا سکتا"، پھر اس نے تال ٹھوک کر مزید کہا "دیش کے خلاف ایجنڈا چلانے والوں کو ذی نیوز نے ہمیشہ کرارا جواب دیا ہے"، اس نے مزید کہا "گورنمنٹ ہر سال جے این یو کو اسٹوڈنٹ پر تعاون اور سبسڈی کے طور پر 244؍کروڑ خرچ کرتی ہے، جے این یو میں ہر 16؍اسٹوڈنٹ پر ایک ٹیچر ہے اس کے برعکس دیگر جامعات میں ہر 26؍طالب علم پر ایک ٹیچر ہے۔
زی نیوز تال ٹھوک کے (عنوان سے اجڈ پنہ ظاہر ہے) روہت سردنا:
میں اسی دیش کا ٹیکس پیر( ٹیکس ادا کرنے والا) ہوں، آپ میری جیب سے پیسے لے کر وہاں سب سڈی لے کر پڑھائی کر رہے ہیں، تو میں آپ کی فیس کے پیسے اس لیے دیتا ہوں تاکہ آپ پڑھیں اور دیش کو اچھا سوچ دینے والااکیڈمیشین بن کے نکلیں، کیوں ان لاکھوں کروڑوں ٹیکس پیرس کو چونا لگا رہے ہیں۔"

ٹائمس ناؤ (دی نیوز آوار ارنب گوسوامی):
انگریزی سے ترجمہ "تم لوگ دہشت گرد ماوووادیوں سے زیادہ خطرناک ہو، مجھے حیرت ہے تمہیں اس ملک میں لفٹ کے ورثے کو تباہ کرنے کے لیے کون فنڈ دے رہا ہے.... تمہارے ایجنڈے کو وارننگ دے دی گئی ہے، میں اس فریب خوردہ یوتھ کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں، یہ بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے، یہ ملک مخالف عناصر کا آمیزہ ہے، یہ کسی آئیڈیالوجی کے حامل نہیں ہیں، یہ اعلی درجے کے ابن الوقت ہیں، آج رات نیوز آور میں انھیں چتاونی دے دی گئی۔"

انڈیا نیوز(دیپک چورسیا):
جناب نے کنہیا کمار اور سی پی آئی لیڈر پروفیسر دنیش وارشنی کو اپنے چینل پر [بھارت ماتا کی جے] کا نعرہ لگانے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا: "آپ بھارت ماتا کی جے بولیے... دقت کیا ہے؟... میں پترکار بعد میں ہوں دیش کا ناگرک اور دیش بھکت پہلے ہوں، میں دکھاوے کا دیش بھکت نہیں ہوں، آپ جیسے لوگ سبسڈی کی روٹی توڑتے ہیں۔" جے این یو اسٹوڈنٹ انربھان بھٹا چاریہ کو یہ خطاب کرتے ہوئے۔ پھر جناب نے بھاجپائی نیتا جناب [ڈاکٹر سمبٹ پڑا] کا مشیر بن کر ان سے فرمایا:ڈاکٹر سمبٹ آپ نے اینٹی نیشنل سلوگنس سنے، بی جے پی کی طرف سے ان کے خلاف قانونی کاروائی کیجیے، راشٹرودروھ کے خلاف۔"
نیوزx دی فیشن ایٹ نائن،( راہل شیوشنکر کے ساتھ):
انگلش سے ترجمہ "اصلا [ABVP] بھاجپائی یونین اسٹوڈنٹ نے رد کر دیا تھا کہ اس طرح کی ستمگری کیمپس میں رونما ہو، اس سب نے افضل گنگ کو باز نہ رکھا کہ ڈیموکریسی کی گول فائر کریں۔" نیوز x نے بعد میں یہ بھی دعوی کیا کہ عمر خالد جیش محمد کا ہمنوا ہے، پاکستان جا چکا ہے اور یہ کہ جیش کے سربراہوں سے اس کے تعلق کا ثبوت ہے۔

زی خالد کی کھوج:
عمر خالد میڈیا کی ستم رانی کے سبب اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھا، ان دنوں زی نیوز کے ستمگروں نے اپنے توپ کا نشانہ ان کے باپ قاسم الیاس رسول کو بنا رکھا تھا، ان کے (SIMI) سے 1985ء بیک گراؤنڈ کو ابھار کر انھیں ان کے بیٹے کے ساتھ خطاکار بنانے کی کوشش کی جارہی تھی، جب کہ ان کا تعلق (SIMI) سے 1985ء میں ختم ہو چکا تھا اور اس وقت ان کا بیٹا پیدا بھی نہیں ہوا تھا، جے این یو کے واقعات کا ان کے بیٹے کو ماسٹر مائنڈ بنانے پر تلا ہوا تھا، انھوں نے میڈیا کی فرقہ پرستی پر شکایت کی اس پر اینکر کا تبصرہ سنیے:
"یہ کیسے پتا ہیں جو دھرم کو ہتھیار بناکر دیس دروہ کے آروپی بیٹے کی طرف داری کر رہے ہیں"۔
باپ نے پولیس، میڈیا، انتظامیہ اور وکلاء کی وحشیانہ حرکتوں پر تشویش ظاہر کی اور مطالبہ کیا کہ وزیر داخلہ بیٹے کو تحفظ دیں اور بیٹے سے مطالبہ کیا کہ روپوشی چھوڑ کر باہر آجائے، اس پر اینکر کا تبصرہ تھا کہ بیٹے کو ملک کے قانون پر بھروسہ نہیں ہے [LACK OF FAITH] کا طعنہ دیا۔

یہ ہے ہمارے میڈیا کا اصلی چہرہ، ایسا لگتا ہے یہ سرپھرے اور بددماغ کرسی پر بیٹھ کر ملک اور قومی کو اپنی جاگیر سمجھے ہیں اور اپنی لمٹ سے آگے نکل جاتے ہیں، یہ بگڑی ہوئی ذہنیت ہے، غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے، فکرو سوچ میں انتہا پسندی ہے، ان کا رویہ ملک اور قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ، یہ جمہوریت کے نگراں ہونے کے بجائے جمہوریت کے ساتھ دشمنی پر تلے ہوئے ہیں، یہ قوم کی رہنمائی اور اصلاح کے بجائے قوم کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ میڈیا کو تباہ کن ہتھیار بنائے ہوئے ہیں۔

یہ میڈیا مغلوں کے نوکر ہیں اور بات ایسے کرتے ہیں جیسے میڈیا ان کی جاگیر ہے اور ان کا فیصلہ حتمی ہے، یہ جس کو چاہیں وفادار وطن بنا دیں اور جس کو چاہیں غدار وطن۔ جے این یو کے حادثے کو انھوں نے جس طرح بگاڑا ہے وہ بے گناہوں کے خلاف بہت بڑی سازش ہے، میڈیا نے اس موقع پرستی پر نہایت مکروہ چہرہ دکھلایا ہے، اگر ان کے اندر ذرا بھی احساس ذمہ داری ہو تو قوم سے انھیں معافی مانگنی چاہیے۔
چورسیا نے اپنی بد تمیزیوں کو تسلیم کیا، میڈیا برادری، پولیس، وزارت داخلہ، وکیلوں اور عوام کی اس موقع پر بھیانک غلطی کو تسلیم کیا اور اس ایپی سوڈ کو اس نے تاریکی قرار دیا، دوسروں کا ضمیر جاگا کہ نہیں، راجناتھ سنگھ نے اس موقع پر اپنے آپ کو بالکل چھوٹا بنا لیا اور بس اب بھی اپنی بے تکی باتوں پر جمے ہوئے ہیں، اس واقعے میں سب سے ڈھیٹ وہی ثابت ہوئے۔

Irresponsible attitude of TV anchors. Article: Abdul Moid Madani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں