وزیراعظم مودی کے اقتدار میں عدم رواداری میں اضافہ - عمر عبداللہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-11

وزیراعظم مودی کے اقتدار میں عدم رواداری میں اضافہ - عمر عبداللہ

سری نگر
یو این آئی
سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر اور نیشنل کانفرنس کے کا ر گزار صدر عمر عبداللہ نے الزام عائد کیا کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک میں عد م رواداری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ یو این آئی کو دئیے اپنے انٹر ویو میں جب عمر عبداللہ سے سوال کیا گیا کہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک میں عد م رواداری بڑھ گئی ہے آیا آپ اپوزیشن سے اتفاق کرتے ہیں ، تو انہوں نے کہا، ہاں بلا کسی شک و شبہ کے ملک میں عد م رواداری بڑھ گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اودھم پور میں ہمارے ٹرک ڈرائیور کو زندہ جلایاجاتا ہے وہ عد م رواداری نہیں توپھر کیا ہ؟ جب اتر پردیش میں ایک شخص کو صرف اس بنیاد پر شک ہے کہ گھر میں بیف رکھا ہوا ہے تو مار مار کر اسے ہلاک کردیاجاتا ہے ، جے این یو میں جو ہورہا ہے یا حیدرآباد یونیورسٹی میں ایک دلت طالب علم کو خود کشی پر مجبور کیاگیا کیا وہ عد م رواداری نہیں ہے؟ انہوں نے کسی کا بھی نام لئے بغیر کہا کہ کچھ لوگ اس عد م رواداری کی فضا سے انکار کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا عد م رواداری ہے جناب اور بد قسمتی سے کچھ لوگ اس عد م رواداری سے انکار کرنا چاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ مبصرین کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مختلف قسم کی آزادیوں کے نعرے لگنا مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں شر میں سے خیر جیسا ثابت ہوتا ہے، تو عمر عبداللہ نے جواب میں کہا کہ ہندوستان میں آزادی کے حق میں لگنے والے نعروں اور کشمیر میں آزادی کے حق میں لگنے والے نعروں کے موضوعات الگ الگ ہیں۔ انہوں نے کہا کشمیر میں جب آزادی کا نعرہ لگتا ہے وہ دوسرے انداز سے لگتا ہے ۔ جے این یو میں جب آزادی کا نعرہ لگا تو اس کا موضوع مختلف تھا۔ وہاں غربت کے خلاف آزادی کی بات چلی، عد م رواداری کے خلاف نعرہ لگا اور دلتوں کی ہلاکت سے آزادی کا نعرہ لگا ۔ اس کا جموں و کشمیر سے لینا دینا کم ہی ہے۔ لیکن جہاں تک وہاں پے جموں و کشمیر کو لے کر باتیں ہوتی ہیں یا یہاں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف باتیں ہوتی ہیں تو بلا کسی شبہ کے مسئلہ کشمیر فوکس میں آجاتا ہے ۔ افضل گورو کی پھانسی کے سوال پر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں کیونکہ ان کے بقول اگر پھانسی دیئے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ تختہ دار پر چڑھائے گئے انسان کی پھانسی ایک غلط فیصلہ تھا تو پھر اس غلطی کا مداوا ناممکن ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر داخلہ و خزانہ پی چدمبرم کو اس وقت محمد افضل گورو کی پھانسی کے خلاف بولنا چاہئے تھا جب مرحوم نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں مقید تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افضل گورو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد کہنا کہ فیصلہ درست نہیں تھا ، متاثرہ خاندان کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ افضل گورو کی پھانسی پر بحث کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر بار بار ان کی پھانسی کے موضوع پر بحث کی گئی تو یہ افضل گورو کی پھانسی سے لگے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہوگا ۔ انہوں نے کہا پھانسی ایک ایسی چیز ہے کہ ایک بار اسے لاگو کیا گیا اور اس کے بعد آپ کو پتہ چلا کہ غلط ہوا تو آپ اس غلطی کو درست نہیں کرسکتے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ جرم جو بھی ہو ، آپ آدمی کوجیل میں رکھو۔ کل اگر ثبوت نکلے کہ وہ آدمی بے گناہ ہے تب کم از کم اس کو جیل سے چھوڑ سکتے ہیں ۔ لیکن ایک بار کسی کو پھانسی دی ، اس کے بعد کہتے ہوکہ یہ بے گناہ ہے یا سزا غلط دی گئی ہے تو اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

Intolerance has increased after Modi took over as PM, alleges Omar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں