کنہیا نے کیسے ٹی وی چینلوں کے تعصب کو بےنقاب کیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-13

کنہیا نے کیسے ٹی وی چینلوں کے تعصب کو بےنقاب کیا

kanhaiya-kumar-jnu
آج اپنے کمرے کے ایک گوشہ میں بیٹھے بیٹھے مجھے میسن ولیمسن یاد آئے جنہوں نے کہا تھا “میں ٹیلی ویژن پر تنقید کرنے کے قابل ہوں کیوں کہ میرے پاس دو آنکھیں اور ایک دماغ ہے جو ایک اور آنکھ ہے اور ایک دما غ ٹیلی ویژن سے بڑھ کر ہوتا ہے۔” لیکن میں بھی ایک مختلف وجہ سے ٹی وی پر تنقید کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے ٹی وی کے لئے کام کتے ہوئے دو دہوں سے زیادہ عرصہ گزارا ہے اور میرا تعلق ٹی وی کے پیشہ وروں کی پہلی نسل سے ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ میں مزید ایک ملازم صحافی نہیں لیکن میرا دل اب بھی ٹی وی کے لئے دھڑکتا ہے ۔ میں نے آج بے حد افسردگی محسوس کی جب میں نے بالخصوص جے این یو واقعہ اور کنہیا کی گرفتاری کے تناظر میں بعض ٹی وی ایڈیٹرس اور اینکرس کے کردار کو دیکھا۔ ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا خود ضابطگی کام کررہی ہے یا ہمیں لندن کے آفکام کی طرح کے ایک ادارہ جاتی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ وہ مسئلہ کیا ہے جو گزشتہ تین ہفتوں سے چھایارہا ہے؟ یہ کہ جے این یو میں مخالف ہندوستان نعرے لگائے گئے ، کیمپس سے طلبہ افضل گرو کو ہیرو بنارہے تھے اور وہ قوم دشمن سر گرمیوں میں اس طریقہ سے مشغول ہوئے ہیں کہ جے این یو دہشت گردی کا ایک اڈہ بن گیا۔( بی جے پی کے ایک معروف دانشور چندن مترا نے کہا کہ اس یونیورسٹی کو بند کردیاجانا چاہئے) چند ویڈیو کلپس ملک بھر میں ہنگامہ کی وجہ تھے ۔ ٹی وی اینکروں نے خبروں سے اپنے سلوک اور مباحثوں میں اپنے دل سے ایک تماشہ کھڑا کردیا ۔ انہو ں نے خود کو دیش بھکت قرار دیا اور جن لوگوں نے دیش بھکتی کے ان کے برانڈ کو قبول نہیں کیا، انہیں کھلے عام دیش دروہی (ملک دشمن) قرار دیا۔ آر ایس ایس ، بی جے پی، اے بی وی پی کے ارکان سے زیادہ ان کے اندر جوئی نظر آئی ۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ہر چیانل اور ایڈیٹر کو اپنے ادارتی موضوع کو طے کرنے کا اختیار ہے لیکن دستوری آزادی کسی صحافی کو یہ لائسنس نہیں دیتی کہ وہ حقائق سے سمجھوتہ کرے اور عدالت کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر کسی کے خاطی ہونے کا اعلان کرے ۔ ہمارے عدالتی نظام کی عمارت اس نظریہ پر کھڑی ہوئی ہے کہ قصور ثابت ہونے تک ہر ملزم بے قصور ہے لیکن ٹی وی اینکروں نے ریٹنگ کے لئے اپنی دوڑ میں اسے پوری طرح الٹ دیا ہے ۔ انہوں نے کنہیا کو قوم دشمن قرار دیا ۔ عمر خالد کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کیا۔ ان کا یہ کردار کیا دستوری ہے ۔ بی جے پی ، آر ایس ایس کے ٹی وی پیانلسٹ اگر ان کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کو قوم دشمن کہیں تو میرا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے کیونکہ وہ سیاست کررہے ہیں لیکن ٹی وی ایڈیٹرس تو سیاست میں نہیں ہیں اور وہ سیاستداں نہیں ہیں ان کا بنیادی کام سچائی تلاش کرنا اور سچائی کا تجریہ کر کے حقائق کو ناظرین کے سامنے پیش کرنا ہے اور فیصلہ عوام پر چھوڑنا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ ٹی وی گزشتہ چند برسوں سے مضبوط رائے کے ایک پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگیا ہے لیکن اس سے یہ اجازت تو نہیں ملتی کہ الجھن آمیز فسانوں کو حقائق میں اور خیالات کو خبروں میں گڈ مڈ کردیاجائے
بعض ٹی وی چیانلس گزشتہ تین ہفتوں میں صحافت کے مبادیات کو بھول بیٹھے ۔ جرنلزم کا یہ اہم اصول ہے کہ کوئی حقیقت یا ویڈیو جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ، اسے نشر نہیں کرنا چاہئے لیکن9فروری سے سات آڈیو ، ویڈیو ٹپس چند ایک کو چھوڑ کر تقریبا تمام ہی چیانلوں پر نشر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایڈیٹر نے ان ٹیپس کی صداقت کو جانچ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بعض نے خود کو زیادہ صحیح جتانے کی کوشش کی اور یہ اعلان چلادیا کہ چیانل اس ویڈیو کی صداقت معلوم نہیں کرسکا ۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے وہ کسی حقیقت کو کیسے پیش کرسکتے ہیں جب کہ خود انہیں اس کی صداقت کا یقین نہیں ہے ؟لیکن ایسا کیا گیا اور اس کی بنیاد پر ٹی وی اسٹوڈیوز سے فیصلوں کا اعلان کیا گیا۔ آخر کار، دہلی حکومت کی تحقیقات میں پایا گیا کہ سات ٹیپس میں سے دو ٹیپس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی اور ایک ایڈٹ کیا ہوا تھا ۔ یہ کوئی معمولی ٹیپس نہیں تھے ۔ اس سے امن میں خلل پڑا اور لوگ تشدد پر آمادہ ہوئے ۔ میڈیا کے نمائندوں ، جے این یو ٹیچرس اور طلبہ کی کمرہ عدالت میں پٹائی کی گئی ۔ سارا پٹیالہ ہاؤز ایک وار زون میں تبدیل ہوگیا اور کنہیا کو پیٹا گیا ۔ سپریم کورٹ کے مشاہدین اور سینئر وکلاء سے فحش کلامی کی گئی، دھکم پیل کی گئی اور کھلے عام دھمکایا گیا ۔ ملک کے دیگر حصوں سے بھی تشدد اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی اطلاعات ملی ہیں۔ جے این یو پر دہلی حکومت کی رپورٹ میں کنہیا کو کلین چٹ دی گئی ۔ تحقیقات میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے ہندوستان کے خلاف نعرے لگائے یا افضل گرو کی تحسین کی ۔ اس تعلق سے کوئی ویڈیو شواہد نہیں ہیں۔ دہلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس عینی شاہدین ہیں جو کنہیا کے جرم کی تصدیق کریں گے لیکن انکوائری رپورٹ ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے جس کے مطابق جے این یو کے تمام تین گارڈز اس کی تصدیق میں ناکام ہوگئے ۔ لہذا نکتہ کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ویڈیو ثبوت موجود نہیں ہے، کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں اور ایف آئی آر میں ان کے غدارانہ جرم کا کوئی ذکر نہیں ہے تو پھر کنہیا کے خلاف کس بنیاد پر الزامات عائد کئے گئے ہیں اور اسے غداری کے الزام میں کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟ چند چیانلوں نے بالخصوص ٹائمس ناو اور زی نیوز نے کیوں کنہیا کے خلاف ایک مہم چلائی؟مودی حکومت کا ایک ایجنڈہ ہوسکتا ہے ۔ دہلی پولیس نے ہوسکتا ہے دباؤ میں کام کیا ہولیکن صحافی اور ٹی وی ایڈیٹرس کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سچائی کا تعاقب کریں اور پولیس کے بیان کو جوں کا توں قبول نہ کریں۔ انڈیا ٹو ڈے اور اے بی پی نیوز نے اس معاملہ کی تحقیقات کی کوشش کی۔ انہیں اپنی کوشش میں کامیابی ملی ۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ بعض ٹیپس جعلی تھے۔ زی نیوز کے ایک پروڈیوسر نے جو مستعفیٰ ہوگئے الزام عائد کیا کہ جے این یو کے ایک ٹیپ میں ان کے دفتر نے یہ سمجھ لیا کہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے تھے حالانکہ آواز سنائی بھی نہیں دے رہی تھی ۔ کیا یہ سب دیدہ و دانستہ کیا گیا یا یہ ایک غلطی تھی؟ میں چھیڑ چھاڑ والے ویڈیوز چلانے والے ٹی وی چیانلوں کو شبہ کا فائدہ نہیں دینا چاہتا کیوں کہ ایک غیر معلنہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی غلط خبر شائع یا نشر کی جائے تو سچائی سامنے آنے کے بعد تصحیح دے کر معذرت خواہی کی جائے لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ متعلقہ ٹی وی چیانلس کو گوارا نہیں ہے کہ وہ اپنے ناظرین سے سچ بولیں ۔ انہوں نے نہ تو تصحیح دی اور نہ ہی معافی کا کوئی لفظ زبان پر لایا۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ تعصب و جانبداری اس قدر عریاں ہوکر سامنے آگئی کہ جب کنہیا کو ضمانت منظور ہوئی تو ان چیانلوں نے سرے سے اسٹوری دی ہی نہیں ۔ یہ اس دن کی سب سے بڑی اسٹوری تھی لیکن چیانل نے کنہیا کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح جب کنہیا جیل سے رہا ہوئے تو اسی چیانل نے اس خبر کو راست نشر کرنا گوارا نہیں کیا۔ کیا ایسا دانستہ طور پر کیا گیا یا نیوز روم کے انچارج پرسن کو بریکنگ نیوز کی کوئی سمجھ ہی نہیں ہے؟ایک سابق ایڈیٹر کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج ٹی وی چیانلوں کا اعتبار اپنی نچلی سطح پر ہے ۔ ایڈیٹرس اور اینکرس کو انہیں حاصل احترام کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ ایسے ایڈیٹر، اینکرس کو میں ایک کہانی سناتا چاہتا ہوں ، جو ڈیوڈ بناکرلی نے اپنی کتاب’ ‘ٹیلی ٹریسی” میں لکھی ہے وہ لکھتے ہیں” فروری1968ء میں سی بی ایس اسپیشل کے والٹر کرانکائٹ نے سائیگان سے واپس ہوکر ویتنام کی جنگ پر آدھے گھنٹے کی ایک خاص تحریر میں لکھا کہ” اب یہ بات پہلے سے زیادہ یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ویتنام کا خونریزی کا تجربہ( صدر کی) شکست پر منتج ہوگا”۔ بعد میں صدر لندن بی جانسن نے کہا تھا” میں نے والٹر کو ان کی کو کیا کھویا”مسٹر ایوریج سٹی زن”(عام شہریوں کی حمایت” کو کھودیا”۔ یہ تھاکر ان کی کا اعتبار ۔ جانسن الیکشن ہار گئے اور امریکہ ویتنام ہار گیا۔ یہ سچائی کی طاقت تھی اور صحافت کی بھی طاقت تھی لیکن افسوس کہ آج ہندوستان میں ٹی آر پی ریٹنگ اور حکومت کا ہم نوا بن کر مزے لوٹنے کی دوڑ چل پڑی ہے اور وہ مسابقت عنقا ہے جس کا صحافت تقاضہ کرتی ہے ۔

اردو ترجمہ: اعتماد نیوز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں