عشرت جہاں لشکر طیبہ کی خودکش بمبار تھی - ہیڈلی کا سنسنی خیز انکشاف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-02-12

عشرت جہاں لشکر طیبہ کی خودکش بمبار تھی - ہیڈلی کا سنسنی خیز انکشاف

ممبئی
پی ٹی آئی
پاکستانی۔ امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کولمین ہیڈلی نے اپنے چونکا دینے والے بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ گجرات میں2004کے دوران مبینہ طور پر ایک فرضی جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والی خاتون عشرت جہاں در حقیقت دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی خود کش بمبار تھی۔ ہیڈلی کے اس انکشاف سے متنازعہ انکاؤنٹر سے متعلق ایک نئے تنازعہ کے جنم لینے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے ۔ امریکہ سے ویڈیولنک کے ذریعہ اپنے بیان کے دوران ہیڈلی نے سارا الزام19سالہ خاتون پر عائد کرتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ لشکر طیبہ کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی نے ایک ناکام آپریشن کا ان سے تذکرہ کیا تھا ۔ خصوصی استغاثہ اجول نکم نے جب ہیڈلی سے ایک ناکام کارروائی سے متعلق سوال کیا تو پاکستانی امریکی دہشت گرد نے اس کا حوالہ دیا ۔ ہیڈلی نے وضاحت کی کہ لکھوی نے ان سے ہندوستان میں لشکر طیبہ کے ایک اور کارکن مزمل بٹ کی جانب سے ایک ناکام آپریشن کا تذکرہ کیا تھا جس میں تنظیم کی ایک خاتون رکن ہلاک ہوگئی تھی ۔ آپریشن اور اس میں ملوث ارکان کی تفصیلات سے متعلق سوال کے جوابکے اصرار پر ہیڈلی نے کہا کہ مجھے صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران ایک خاتون خود کش بمبار ہلاک ہوگئی ۔ استغاثہ نے اس مرحلہ میں تین خواتین کا نام لیتے ہوئے پوچھا کہ ان میں سے کون ہلاک ہونے والی خاتون تھی تو ہیڈلی نے بلا جھجک اور ہچکچاہٹ عشرت جہاں کا نام لیا ۔ ہیڈلی نے عدالت پر اسی کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ لشکر طیبہ میں خاتون کے لئے مخصوص شعبہ بھی موجود ہے اور ایک شخص ابو ایمن کی والدہ اس کی قیادت کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ15جون2004کو عشرت جہاں جاوید شیخ عرف پ ناش پلے ، امجد علی اکبر علی رانا اور ذیشان جوہر ، احمد آباد کے مضافاتی علاقہ میں گجرات پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران ہلاک ہوگئے تھے ۔ سٹی کرائم برانچ نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس وقت یہی بتایا تھا کہ مہلوک چار افراد در حقیقت لشکر طیبہ کارکن تھے جو( ان دنوں ریاست گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی ) کے قتل کے ارادے سے آئے تھے ۔ انکاؤنٹر کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی نے گجرات ہائی کورٹ کی تشکیل کردی خصوصی تحقیقاتی ٹیم( ایس آئی ٹی) سے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اگست2013میں سی بی آئی نے فرد جرم پیش کرتے ہوئے وضاحت کی کہ انکاؤنٹر قطعی طور پر فرضی تھا جسے سٹی کرائم برانچ اور سبسیڈی ری اینٹلی جنس بیورو نے مشترکہ طور پر انجام دیا تھا ۔ 55سالہ ہیڈلی نے26/11کیس میں گواہ کے طور پر عدالت کو یہ بھی بتایا کہ لشکر طیبہ کارکن مزمل بٹ پہلے اس کے(ہیڈلی) گروہ کا قائد تھا۔ بعد ازاں سجاد میر نے اس گروہ کی قیادت سنبھالی ۔ اس نے عدالت پر یہ بھی واضح کیا کہ ایک کارکن ابو دجنا نے اسے مزمل سے متعارف کرایا تھا جس کے ساتھ اس نے چند روز بعد کشمیر کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد وہاں ہندوستانی فوج سے نبرد آزمائی تھا ۔ قبل ازیں ہیڈلی نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہندوستان میں کارروائیوں کے لئے ایل ای ٹی اور آئی ایس آئی کس طرح فنڈ فراہم کرتی تھی اور وقتا فوقتا مالی امداد اس تک کن وسائل سے پہنچتی تھی ۔ نومبر2008میں ممبئی دہشت گرد حملوں سے قبل ایک پاکستانی شہری تہور رانا نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا ۔ اس حملہ میں166افرادہلاک اور دیگر 309زخمی ہوگئے تھے ۔ لشکر طیبہ کارکن نے یہ وضاحت بھی کی کہ ریزروبینک آف انڈیا نے ان کے دفتر کا ایک اکاؤنٹ کھولنے سے صاف انکار کردیا تھا ۔ اپنے فنڈس سے متعلق ہیڈلی نے بتایا کہ ستمبر2006میں ہندوستان کے لئے روانہ ہونے سے قبل آئی ایس آئی کے میجر اقبال نے انہیں 25ہزار ڈالر دئیے تھے ۔ اس کے علاوہ لشکر طیبہ کا رکن سجاد میر سے اپریل اور جون2008کے دوران پاکستانی کرنسی میں مجھے40ہزار روپے حاصل ہوئے ۔ ہیڈلی کے مطابق میجر اقبال اسے ہمیشہ قسطوں میں رقومات روانہ کیا کرتے تھے ۔2008میں ایک یا دو بار میجر اقبال نے مجھے جعلی ہندوستانی کرنسی نوٹ بھی دئیے ۔ آئی ایس آئی کے ایک اور عہدیدار عبدالرحمن پاشاہ نے مزید80ہزار روپے دئیے ۔ تہور رانا (شکاگو میں امیگریشن تاجر اور ہیڈلی کا ایک پاکستانی ساتھی) ستمبر2006میں اکثر اسے رقومات روانہ کیا کرتا تھا ۔ ان دنوں میں لشکر طیہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے انٹلی جنس ذمہ داریاں انجام دیاکرتا تھا ۔ ہیڈلی نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستان میں دفتر قائم کرنے کا پروگرام میں نے ہی بنایا تھا اور میں امیگریشن کنسلٹنٹ کی آڑ میں ہی اپنے امور کی انجام دہی میں مصروف رہتا۔ میں نے میجر اقبال اور سجاد میر سے دفتر قائم کرنے پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں نے ہی اس پروگرام کی تائید کی ۔ بعد ازاں میں نے راناکو آگاہ کیا کہ میجر اقبال نے مجھے ہندوستان میں انٹلی جنس امور کی ہدایت دی ہے ۔ میجر اقبال نے مجھ سے کہا کہ اگر رانا، ہندوستان میں آپریشن پر ہچکچاہٹ یا تذبذب کااظہار کرے تو اسے حب الوطنی اور پاکستان کے ساتھ وفاداری کی دہائی دوں ۔ اتفاق سے رانا نے ہچکچاہٹ کا اظہار کئے بغیر ہی ہندوستان روانہ ہونے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ ہیڈلی نے انکشاف کیا کہ رانا قبل ازیں ہندوستان کا دورہ کرچکاتھا ۔ میں نے حملوں سے قبل رانا کو لوٹ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ میں اس خیال سے خوفزدہ تھا کہ اس کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ ہیڈلی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ رانا نے ریمنڈ سینڈرس سے آر بی آئی سے اکاؤنٹ کھولنے کی درخواست کرنے کی گزارش بھی کی تھی۔ ریمنڈر سینڈرس نے شکاگو میں مرکز امیگرنٹ قانونی امداد کا ایک مرکز قائم کررکھا تھا ۔ہیڈلی کا بیان کل امریکہ میں ویڈیو کانفرنس میں تکنیکی نقص کے اسباب کی بنا پر ریکارڈ نہیں ہوسکا تھا ۔ ہیڈلی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ لشکر طیبہ نے بابری مسجدکی شہادت کی انتقامی کارروائی کے طور پر مشہور اکشر دھام مندر پر حملہ کا بھی منصوبہ تیار کررکھا تھا ۔ ہیڈلی نے بتایا کہ میں نے اکشر دھام مندر پر حملہ کے بارے میں مزمل بٹ سے پوچھا تو اس نے وضاحت کی کہ1992میں بابری مسجد کی شہادت ہوئی۔
دریں اثنا تھانے سے پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب عشرت جہاں کے خاندان نے آج پاکستانی امریکن دہشت گرد ڈیوڈ ہیڈلی کے اس بیان کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا کہ ممبئی کے ایک کالج کی طالبہ لشکر طیبہ کی خود کش بمبار تھی۔ عشرت کی ماں شمیمہ کوثر نے این سی پی کے دفتر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات دہرائی کہ ان کی بیٹی بے قصور تھی اور گجرات پولیسنے ایک فرضی انکاؤنٹر میں اسے ہلاک کیا ۔ شمیمہ نے کہا کہ ان کی بیٹی کا گجرات پولیس نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور مجھے اللہ پر پورا بھروسہ ہے انہوں نے نشاندہی کی کہ ہیڈلی خود ایک دہشت گرد ہے اس پر کس طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔ اس دوران عشرت جہاں انکاؤنٹر میں ہلاک ایک شخص کے والد گوپی ناتھ پلئی نے ڈیوڈ ہیڈلی کے اس دعوے پر شبہات کا اظہار کیا کہ وہ لشکر طیبہ کی دہشت گردی تھی ۔ پلئی نے کیرالا کے الاپورزا میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ2004میں پیش آیا تھا کیا یہ کہنے کے لئے ہیڈلی کو2016تک انتظار کرنا پڑا یا کسی نے ان سے یہ بات کہلوائی ہے۔

Ishrat Jahan, killed in 'fake' encounter, was LeT operative: Headley

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں