جب مفتی سعید ممبرا آئے تھے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-01-09

جب مفتی سعید ممبرا آئے تھے


mufti-sayeed
اردو ٹائمز(ممبئی) کے دیرینہ قاری، خیر خواہ، معروف ادیب اور ہمارے محترم دوست رشید عباس (بھساول) زِندگی کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں چونکہ وہ ریلوے کے محکمے میں تھے، اُنہوں نے بہت سفر کیا ہے اور ہر طرح کے مسافروں سے اُنکا سابقہ رہا ۔ چونکہ ڈیوٹی کے اوقات میں ان کے کالے کوٹ پر ان کے نام کی ایک چھوٹی سی تختی ضرور لگی رہتی تھی سو اُن کا مسلمان ہونا ہر مسافر پر واضح رہتا تھا۔
ریلوے کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے بھی موصوف ایک مدت گزار چکے ہیں۔ ایک بے تکلف ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ملک کی انگریزوں سے آزادی اور پھر وطن کی تقسیم کے ساتھ ہی ہموطنوں کے اذہان کو اس بری طرح فرقہ واریت سے آلودہ کیا گیا کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ سرکاری محکموں میں غیر اعلانیہ طور پر مسلمانوں کے تعلق سے ایسی ایسی باتیں پھیلائی گئیں کہ جنہیں نصف صدی گزرنے کے بعد بھی زبان سے دُہرا کر ذہنی اور قلبی اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ سرکاری محکموں میں مسلمانوں کے کردار کو شدت کے ساتھ مشکوک بنا دِیا گیا اور اسی کے ساتھ انتظامی اداروں بالخصوص پولس محکمے میں زبانی طور پر یہ سرکیولر بھی جاری کیا گیا کہ مسلم علاقوں میں اگر کوئی مسلمان کسی قسم کے جرائم سے وابستہ ہو مثلاً وہ چرس بیچ رہا ہو، وہ اپنے علاقے میں غنڈہ گردی یعنی ممبئی کی بولی میں داداگیری کر رہا ہو تو اسے نظر انداز کر تے رہنا۔

اسی طرح کئی سماجی امراض جو آج ہم مسلمانوں میں عام ہیں اس کے پسِ پشت یہی سازش کار فرما رہی ہے۔ عجب نہیں کہ مسلمانوں میں علم و تعلیم سے دوری بھی اسی سازش کا حصہ ہو۔۔۔ اسی طرح بھیونڈی کے نثار عمر مومن (مرحوم) بھی یادآتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے احساسِ تفاخر اور اپنے آپ کو سپر قوم سمجھنے کے مرض سے بھی ہمارا دُشمن باخبر تھا ، اس مرض کو ہمارے ہاں خوب جڑ پکڑنے دیا گیا اُس کا نتیجہ یہ نکلا عام برادرانِ وطن ہم سے متنفر ہوگئے۔۔۔ ہماری عمر کے لوگوں کو یاد ہونا چاہیے کہ بچپن میں ایک نعرہ سنا کرتے تھے:
آدھی روٹی آدھا کباب ہندو کو مارو بڑا ثواب

برادرانِ وطن میں سے ایک طبقہ جو بڑی حد تک سیکولر کردار کا حامل تھا۔ اسے بھی ہمارے احساسِ برتری والے "کردارِ خاص" کے سبب بڑے سلیقے سے دور کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی اور ہم اپنے اسلامی کردار "رواداری" سے غافل ہوتے چلے گئے۔ ایک طبقے نے آخرت کے نام پر ہمارے ذہنوں میں یہ داخل کر دیاکہ: "جنت تو بس ہمیں ملے گی۔"
جنت کس عمل کے نتیجے میں مل سکتی ہے یا ملے گی اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں رہا۔ ہم آج اس صورت حال پر سوچتے ہیں تو بے طرح مرحوم اثر فیض آبادی اپنے اس شعر کے ساتھ ذہن میں جلوہ افروز ہوتے ہیں:
کس سلیقے سے متاعِ ہوش ہم کھوتے رہے
گرد چہرے پر جمی تھی آئینہ دھوتے رہے

یہ دیس جسے تمام دنیا میں سیکولر ملک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا سیکولر کردار بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی مسلمان ہمہ وقت اسلامی شریعت کا وِرد کرتا رہے اور جب اس کا اصل کردار پرکھا جائے تو اس کی وابستگی صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہو۔
مفتی سعید جو گزشتہ جمعرات کو مرحوم ہوئے ہیں۔ ایک مدت سے ملکی سیاست میں سرگرم تھے مگر اس وقت جب وِشو ناتھ پرتاپ سنگھ ملک کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ایک ایسا کردار ادا کیا جس سے اس ملک کی سیکولر روح زندہ ہو گئی۔
وِشو ناتھ پرتاپ سنگھ کا وہ کردار یا وہ عمل تھا: مفتی سعید کو آزادہندوستان کا دوسرا بڑا عہدہ یعنی وزیر داخلہ بنانا!
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت پورے ملک میں سیکولرازم کے دشمنوں نے ایک عجب فضا بنا دی تھی۔ یعنی مفتی سعید ایک مسلمان کا وزیر داخلہ بنایا جانا۔۔۔ سب کو دِل پر چُھری جیسا لگا تھا۔۔۔

ہم ممبرا میں 1960 کے زمانے سے رہ رہے ہیں۔ شاید الیکشن کا زمانہ تھا، ہمیں یہاں کسی مرکزی وزیر کی آمد بڑی اچھی لگی تھی۔ ممبرا ریلوے اسٹیشن کے سامنے جو جامع مسجد ہے اس کے احاطے (رِضوی باغ) میں مفتی سعید (مرکزی وزیر داخلہ) تشریف لائے تھے اور ممبرا کے باسیوں سے انھوں نے خطاب بھی کیا تھا۔ چند گھنٹوں کیلئے ممبرا کا یہ رضوی باغ ایک چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ بلڈنگ کی چھت سے زمین تک پولس اپنی نظریں گاڑے ہوئے تھی۔ مفتی سعید کا خالص اردو میں تقریر کرنا ہمیں بہت اچھا لگا تھا۔۔۔ گزشتہ جمعرات کو جب ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو اس میں دبے لفظوں میں یہ بھی محسوس ہوا کہ ہم میں احساس فخر رکھنے والوں کو ان کا بی جے پی کے ساتھ جموں کشمیر میں حکومت بنا نا۔۔۔ گراں گزرا تھا۔

ہم نے ذرا تحمل کے ساتھ انکے اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ بعض اوقات کچھ فیصلے ایسے بھی کرنے پڑتے ہیں جو بظاہر کڑوے ہوتے ہیں مگر ان کے دور رَس نتائج ہماری "صحت" کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ البتہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نیتوں کا حال تو بس اللہ ہی پر کھلا ہواہے اور ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کی نیت پر شبہ کریں۔

اس وقت دنیا ایک عجب موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اگر ہم نے "امن اور جنگ" میں اوّل کو ترجیح دینے میں کسی بھی طرح غفلت برتی تو اپنی ہی آئندہ نسل کی نگاہ میں ہم مجرم بن سکتے ہیں۔ مودی جیسا شخص جو صرف ڈیڑھ سال قبل تک پاکستان کے خلاف جس طرح کی زبانی جنگ کر رہا تھا جب عمل کا و قت آیا تو وہ اپنے جہاز کا رخ نواز شریف کے گھر کی طرف موڑنے پر مجبور ہوگیا۔ زمانہ اور وقت ہر پل بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا اسی کے ساتھ اگر ہمارا کردار نہیں بدلا تو سوائے پچھتاوا ہمارے ہاتھ کچھ لگنے کا نہیں۔

اردو کے مشہور شاعربہزاد لکھنوی کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے عزم بہزاد (مرحوم) ایک بات اپنے شعر میں کہہ گئے ہیں۔ ذرا توجہ، ذرا غور ۔۔۔ شعر یوں ہے:
کتنے موسم سرگرداں تھے ہم سے ہاتھ ملانے میں
ہم نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

When Mufti sayeed visited Mumbra Mumbai. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں