47 افراد کو سزائے موت سعودی عرب کا داخلی معاملہ - سعودی سفیر برائے ہند الساطی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-01-09

47 افراد کو سزائے موت سعودی عرب کا داخلی معاملہ - سعودی سفیر برائے ہند الساطی

نئی دہلی
ایس این بی (جمشید عادل علیگ)
ہندوستان میں واقع سعودی عرب کا سفارتخانہ ان حقائق سے ہندوستانی عوام کو واقف کروانا چاہتا ہے کہ سعودی عرب میں عدالتی فیصلوں کے تحت نمر النمر سمیت47مجرم قرار دئیے گئے دہشت گردوں کو سزا دینے کے تعلق سے جو ردعمل ظاہر کیا گیا ہے ۔ تہران میں واقع سعودی سفارتخانہ اور مشہد میں واقع قونصلیٹ پر جس طرح حملے ہوئے وہ ایک سنگین نوعیت کا عمل ہے ۔ جس سے بین الاقوامی قوانین اور سفارتی روایتوں کی نہ صرف خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ سفارتی مشن کے اقدار کو بھی ضرب پہنچی ہے ۔ مذکورہ باتیں ایک خصوصی گفتگو میں ہندوستان میں مملکت سعودی عربیہ کے سفیر سعود بن محمد الساطی نے راشٹریہ سہارا سے کیں ۔ انہوں نے اس تشوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر جس طرح کا ایران میں رد عمل ہورہا ہے وہ صریحاً سعودی عرب کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے ۔ کیونکہ دہشت گردی و دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کو سزا دینا کسی بھی ملک کا داخلی اور قانونی اختیار ہے ۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ایران حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خاص فرقہ کو گمراہ کرنے ، مشتعل کرنے اور بد امنی پھیلانے میں سرگرم ہے ۔ عالمی برادری اس عمل کی حمایت نہیں نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے تعلق سے سفارتخانوں پر حملے کیے جانا اب ایک معمول بنتاجارہا ہے ۔سفارت کاروں کی زندگیوں کے خلاف منصوبہ سازی ہورہی ہے ۔ عوام کو مشتعل کرنا ایک خاص منصوبہ کا حصہ ہے ۔ ایران کو دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس کی اپنے پڑوسیوں کے تئیں اعلانیہ عداوت کا مقصد خطے میں عدم استحکام کا ماحول اور علیحدگی پسند فرقہ اور دہشت گردی کو تقویت پہنچانا ہے جس کو کوئی بھی ملک برداشت نہیں کرسکتا ۔ آج ایران کے عمل سے عالمی برداری بھی فکر مند ہے ۔ کویت،قطر، صومالیہ، بحرین، سودان نے ایران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں ۔ ایران کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی متحدہ عرب امارات نے بھی ایران سے اپنا سفارتی تعلق تقریبا ختم کرلیا ہے ۔ ہندوستان میں ہورہے کچھ مظاہروں کے بارے میں سفیر کہتے ہٰں کہ در اصل عوام معصوم اور لا علم ہوتے ہیں ۔ انہیں حائق کا پتہ نہیں ۔ راشٹریہ سہارا کے اس سوال پر کہ نمر النمر کو ایک مذہبی رہنما تھے ان کا دہشت گردی سے کوئی رشتہ نہیں تھا کے جواب میں سعودی سفیر کہتے ہیں کہ نمر النمر مذہبی رہنما نہیں ۔ انہیں مذہبی قائد بنا کر عوام کو گمراہ کیاجارہا ہے ۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نمر النمر سمیت وہ تمام47افراد جنہیں سزا دی گئی ہے و ہ پوری طرح دہشت گرد انہ و مجرمانہ سر گرمیوں میں ملوث تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔ ان میں القاعدہ کا اہم رکن فارس ال شوویل اور نمر النمر شامل تھے ۔ نمر النمر لوگوں کو ترغیب دینے، انہیں بھرتی کرنے اور اسلحہ فراہم کرنے کے کام میں ملوث تھے۔ وہ سیکوریٹی عملہ اور پولیس اسٹیشنوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی ملوث تھے جس کی وجہ سے معصوم افرا د ہلاک ہوئے تھے۔ ایران کے ذریعہ شورش پھیلانے کا پرانا ریکارڈ رہا ہے۔2010میں عدیل الزبیر امریکہ میں سفیر تھے تو ان کے قتل کا منصوبہ ساز ایک ایرانی تھا جو گرفتار ہوا تھا ۔ اس نے اپنا جرم بھی قبول کیا تھا۔ وہ کئی ڈپلومیٹ کے قتل کا بھی منصوبہ بنارہا تھا ۔ راشٹریہ سہارا کے اس سوال پر کہ سعودی حکومت نے جلد بازی سے کام لیا۔ آخر ان کا خاص جرم کیا تھا؟ اس بارے میں سفیر الساطی کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے کوئی جلد بازی نہیں کی بلکہ ان لوگوں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ۔ نچلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک معاملہ گیا، جرم ثابت رہا اور سزا برقرار رہی ۔ یہ پورے طور پر عوامی ٹرائل تھا۔
جہاں تمام شواہد پیش کئے گئے وکلا نے بحث کی۔ میڈیا کی نگرانی میں سب کچھ ہوا اور نمر النمر کا خاص جرم یہ تھا کہ وہ اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے ۔ سعودی عرب کے شہریوں کے خلاف رائرنگ کی اور تشدد کا ماحول تیار کررہے تھے ۔ صرف اسی مجرم کو بچانے کے لئے بد امنی پھیلانے کی سعی کی جارہی ہے۔ لیکن مسلمانوں مین انتشار پھیلانے کا منشا پورا نہیں ہوگا۔ سعودی عرب کبھی بھی کسی کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتالیکن ایران بحرین، سیریا ، یمن اور دیگر ملکوں میں مداخلت کررہا ہے ۔ عالمی دہشت گردی کی فہرست میں ہمارا نہیں ایران کا نام درج ہے ۔ سوال تو یہ ہے کہ ایک شخص کے لئے اتنا ہنگامہ کیوں ۃے جب کہ النمر پورے طور پر سعودی شہری تھا اور سعودی عرب کے مشرقی حصہ سے تعلق رکھتا تھا۔ دہشت گرد ی اور مجرمانہ سر گرمیوں کے ذریعہ یہاں کے عوام اور ملک کو نقصان پہنچا رہا تھا جس کی قانونی طور پر سزا دی گئی ۔ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو معاف نہیں کیاجاسکتا ۔ تہران میں سعودی عرب سفارتخانہ میں آتشزدگی اور مشہد کے سعودی قونصلیٹ میں جس طرح لوٹ مار کی گئی اس عمل کو ساری دنیا دیکھ رہی تھی اور مذمت کررہی تھی مگر ایران پولیس خاموش تماشائی تھی ۔ نمر کی پھانسی کے بعد مسلم ملکوں میں بحران کے سوال پر سعودی سفیر کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ حقائق سب کے سامنے ہیں ۔ شام اور یمن میں دوسرے مسائل ہیں ۔ ایران کے حامی بھی اس حقیقت کو سمجھیں گے ۔ یہ خالص دہشت گردی اور ملک کے خلاف مجرمانہ عمل کا معاملہ ہے۔ نمر سعودی شہری تھے ۔ اب ان کی حمایت میں ایران کا اٹھ کھڑا ہونا ہمارے داخلی امور میں مداخلت ہے ۔ اور النمر کی سزا پر شدید رد عمل کا اظہار ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ نمر کا ایران سے پرانا تعلق ہے ۔ شام کے تعلق سے سعودی عرب کی پالیسی کے سوال کے جواب میں سفیر نے کہا کہ شام عرب دنیا کا حصہ ہے ۔ سعودی عرب بھی عرب لیگ کا ممبر ہے اور شام بھی عرب لیگ کا رکن ہے اور عرب دنیا کا حصہ ہے ۔ چنانچہ وہاں ہماری پالیسی جائز ہے جب کہ ایران کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن ایران وہاں بھی مداخلت کررہا ہے ۔ اس کے باوجود وہاں شیعہ سنی میں ہم آہنگی ہے ہر معاملے میں اتحاد ہے ۔ اس اتحاد کو سبو تاز کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ آج لوگ جو تنقید کررہے ہیں وہ کل حقائق کو تسلیم بھی کریں گے ۔ سعودی حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ عالم اسلام کے اتحاد اور وقار کو کوئی ضرب نہ پہنچے۔

Execution of 47 people is Saudi Arabia's internal affair, Saudi Ambassador to India

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں