نبی کریم صلعم سے اظہار محبت کا صحیح طریقہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-18

نبی کریم صلعم سے اظہار محبت کا صحیح طریقہ

Prophet Mohammad saw
ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ، اسی مہینے میں آقا و مولانا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ، اسی ماہ میں آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے عالم آخرت کی طرف کوچ فرمایا، اس طرح اس ماہ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ سے ایک خاص مناسبت ہے ، یوں تو آپ ﷺ سے محبت اور آپ کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی دن اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہو ، جب اس کے دل کی دنیا رسول اللہ ﷺ کی یاد سے آباد نہ ہو، لیکن حیات محمدی ﷺ سے اس ماہ کی خصوصی نسبت کی وجہ سے عام طور پر اس موقع پر زیادہ جلسے کئے جاتے ہیں ، اخبارات و رسائل کے نمبرات نکلتے ہیں اور مختلف طریقوں پر سیرت طیبہ کے تذکرہ کو تازہ کیاجاتا ہے ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے، بکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی بے انتہا عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جزو اور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضور ﷺ کا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپ ﷺ کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے ، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشواؤں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کے لئے آپ ﷺ ہی کی ذات سب سے محبوب ترین ہستی ہے، اس کو اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبہ سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا ۔ محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ انسان محبت کا اظہار کرے ، اللہ اور رسول کی محبت تو مومن کے لئے معراج ہے۔ لیکن انسان تو دنیا میں بھی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے اظہار محبت کے بغیر چین نہیں ملتا، اس لئے رسول اللہ ﷺ سے محبت کا فطری تقاضہ آپ سے محبت کا اظہار بھی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ اظہار محبت کا طریقہ کیا ہو ؟ محبوب کے لحاظ سے محبت کا اظہار کیاجاتا ہے ، انسان کو اپنے والدین سے بھی محبت ہوتی ہے اور اولاد سے بھی، استاذ اور شیخ سے بھی محبت ہوتی ہے اور شاگرد ومرید سے بھی ، شوہرو بیوی بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور دوستوں میں بھی باہم محبت کا تعلق ہوتا ہے ، لیکن ہر جگہ اظہار محبت کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا، اظہار محبت میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھاجاتا ہے ، محبوب کا مقام و مرتبہ اور محبوب کی پسند، مقام و مرتبہ کا لحاظ بے حد ضروری ہے ، ایک شخص اپنے بچوں سے پیار کرتے ہوئے محبت کے جو بول بولتا ہے اور جو طریقہ کار اختیار کرتا ہے ، اگر وہی الفاظ اپنے ماں باپ سے کہے اور وہی طریقہ ان کے ساتھ اختیار کرے تو یہ محبت کی بجائے بے ادبی اور گستاخی ہوجائے گی، اسی طرح کسی شخص کو جو شئے پسند نہ ہو ، آپ اس کی پسند و ناپسند کی پرواہ کئے بغیر اس کی ناپسندیدہ شئے بطور اظہار محبت کے اس کے سامنے پیش کردیں تو یا تو اسے بے وقوفی سمجھا جائے گا یا تمسخر۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار میں بھی ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ہمارے بعض شعراء نعتیہ اشعار کچھ اس طرح کہتے اور پڑھتے ہیں جیسے اپنی محبوبہ کے گیسو و عارض کی تعریف کررہے ہوں اور اس کے سراپا کا نقشہ کھنچ رہے ہوں ، ظاہر ہے کہ یہ اظہار محبت کا ناشائستہ طریقہ ہے ، اخبارات میں ایک طرف ایسا اشتہار ہوتا ہے ، جس کا تعلق ملبوسات کی دکان سے ہے اور جس میں نیم عریاں شکل میں آنچل لہراتی ہوئی ایک عورت کھڑی ہوئی ہے اور ٹھیک اس کی پشت پر یا اوپر نیچے رسول اللہ ﷺ کا پاک ذکر ہے ، سوچئے، کیا یہ بے ادبی نہیں ہے ؟ کاغذ کی ایسی جھنڈیاں تیار کی جائیں ، جن پر کلمہ طیبہ ہو اور جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام ہو اور یہی جھنڈیان چند دنوں کے بعد زمین میں زدموں سے پامال کی جائیں، کیا یہ بے احترامی نہیں ہے؟ اظہار محبت کے نام پر کتنی ہی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں ، جو رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبہ کے خلاف ہیں ۔ بہت سی باتیں جو اختیار کی جاتی ہیں وہ ایسی ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کے عمل سے منع فرمایا، آپ ﷺ نے درخت کو کاٹنے سے منع فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان سایہ سے محروم ہوتا ہے اور ماحولیاتی توازن متاثر ہوتا ہے آپ ﷺ نے گھر کی نالی راستے پر نکالنے سے روکا ، تاکہ تعفن پیدا نہ ہو ، آپ ﷺ نے راستہ میں کچرا اور تکلیف دہ چیزیں ڈالنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ “وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق۔( صحیح مسلم، باب شعب الایمان ، حدیث نمبر:162)تکلیف دہ چیزوں میں راستہ کی رکاوٹ بھی ہے ، راستہ میں ایسی چیزیں رکھ دینا کہ ٹریفک کا بہاؤ متاثرہوجائے ، اس طرح کھڑا ہوجانا کہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ پیدا ہو جائے اس اذیٰ( تکلیف دہ چیز) میں داخل ہے ، جس کے ہٹانے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا ہے ۔
ایسی ریکارڈنگ لگانا کہ محلہ کے لوگوں کے لئے سونا دشوار ہوجائے یا بیماروں کو تکلیف ہونے لگے ، ایذا ہی کی ایک شکل ہے، حضرت مقداد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت کسی جگہ جاتے تو ایسی آواز میں سلام فرماتے کہ جو لوگ بیدار ہوں وہ سن لیں اور جو لوگ سوئے ہوئے ہوں، ان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو ۔ فیجیء من اللیل فیسلم تسلیما لا یوقظ نائما ویسمع یقظان۔( مسلم، حدیث نمبر:2055)
یہاں تک کہ آپ ﷺ نے قرآن مجید بھی بہت اونچی آواز میں پڑھنے کو پسند نہیں فرمایا: حضرت ابو سعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے، آپ ﷺ نے صحابہ کو زور زور سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا کہ تم سب اپنے پروردگار سے سرگوشی کررہے ہو: لہذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور قرآن پڑھنے میں ایک دوسرے سے آواز بلند نہ کرو۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات چھپی ہوئی نہیں ہیں ، بلکہ وہ روشن آفتاب کی طرح ہم سب کے سامنے ہیں ، ہم ان کو پڑھ کر آپ ﷺ کی پسند و ناپسند کو جان سکتے ہیں ، اور اس کی ترازو میں اظہار محبت کے ان طریقوں کا تجزیہ کرسکتے ہیں ، جن کو آج ہم نے اختیار کررکھا ہے ۔ ہم اس ماہ میں ضروراپنی خوشی کا اظہار کریں ، لیکن طریقہ ایسا ہو کہ وہ شریعت کی میزان میں بھی درست ہو اور اس سے دینی نفع بھی ہو۔ اظہار مسرت کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ اس یادگار مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک اس کو پہنچانے کا اہتمام کریں ، اللہ کا شکر ہے کہ ہر زبان میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے، یہ کتابیں مختصر بھی ہیں، متوسط ضخامت کی بھی ہیں اور ضخیم بھی ہم خود ان کا مطالعہ کریں اور اپنے مطالعہ کو نئی نسل تک پہنچائیں ، خواتین اور بچوں کو سنائیں ۔اظہار محبت کا دوسرا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم برادران وطن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور آپ ﷺ کی انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں ، اس وقت مغرب کی جانب سے ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں ، آپ ﷺ کی توہین کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں ، جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم لوگ احتجاج کرتے ہیں اور ہم اس احتجاج میں حق بجانب بھی ہیں، لیکن یہ اس مسئلہ کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے ، اس کا اصل حل یہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں تک رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ پہنچائی جائے ، خاص کر آپ ﷺ کی بلند اخلاقی کے واقعات اور انسانیت نواز تعلیمات کو عام کیاجائے ، مقامی زبانوں میں سیرت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ مقدار میں شائع کیاجائے اور ایک ایک غیر مسلم بھائی تک اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے ، اگر ہر صاحب استطاعت مسلمان یہ طے کرلے کہ وہ انگریزی ، ہندی اور یا ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں موجو د سیرت کی کتاب کے ایک سوتا ایک ہزار نسخے اپنے بردران وطن تک پہنچائے گا، ہاسپٹل جاکر مریضوں میں ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹیشن پر جاکر مسافروں میں ، اسکولوں اور کالجوں میں جاکر اساتذہ اور طالبات میں تقسیم کرے گا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حقیقی اظہار ہوگا ، اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹیں گے ، لوگ آپ ﷺ کی ہستی کو پہنچانیں گے اور آپ ﷺ کی محبت و عظمت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی ۔ اظہار محبت کا تیسرا طریقہ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کو خود آپ ﷺ نے ترغیب دی ہے ۔ درود شریف کی کثرت ہے ۔گھروں میں ایسا ماحول بنائیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں ، ہر مسلمان خاندان طے کریں کہ کم سے کم اس ماہ میں ہم سب مل کر ایک لاکھ دفعہ درود شریف پڑھیں گے اور آئندہ بھی سہولت کے لحاظ سے اس کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو آپ کی احسان شناسی کا مناسب اظہار ہوگا: کیوں کہ امت کا درود شریف رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے اور درود کی یہ کثرت انشاء اللہ آخرت میں بھی حضور ﷺ کی شفاعت میں حصہ دار بنائے گی ۔ اگرہم سیرت کا پیغام مسلمانوں تک پہنچا کر، غیر مسلموں کو آپ ﷺ کی ذات سے واقف کراکر اور درود شریف کی کثرت کے ذریعہ آپ سے محبت و تعلق کا اظہار کریں تو یہ اظہار محبت کی کتنی بہتر ، مفید اور ثمر آور صورت ہوگی۔ کاش! ہم ٹھنڈے دل سے اور دینی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ پر غور کریں ۔

The correct way to express the love of the Prophet s.a.w

1 تبصرہ: