خونخواری پر بھیڑیوں کی اجارہ داری ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-07

خونخواری پر بھیڑیوں کی اجارہ داری ہے

Bloodthirsty wolves
بھیڑیوں کے متعلق بے شمار کہانیاں لکھی گئی ہیں اور سینکڑوں محاورے، ضرب الامثال، تشبیہات اور استعارے دنیائے ادب میں مستعمل ہیں۔۔۔۔۔ عام بول چال کی زبان میں بھی بھیڑیوں کو لے کر اسقدر مثالیں موجود ہیں کہ بھیڑیے کا صیغہ کسی مخصوص جانور کے بجائے ہر قسم کے درندوں بلکہ درندہ صفت انسانوں کے لئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔۔ بھیڑیے مانیں یا نہ مانیں ۔۔۔بھیڑیوں کے لئے اس سے بڑا خراج تحسین اور کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لیے" انسان کی شکل میں بھیڑیا" جیسا محاورہ دنیا کے ہر ادب میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور بھیڑیوں کو اس بات کا پتہ بھی ہے۔۔۔۔۔
"بھیڑیا آیا! بھیڑیا آیا "کہہ کر افواہ اڑانے کی مثل بے حد مشہور ہے۔۔۔اور جسے سمجھنے کے لئے دور جدید کے نو نہالوں کو بلکل پریشانی نہیں ہوتی ۔۔۔ وہ ٹی وی دیکھ کر اور سن کر بہ آسانی سمجھ لیتے ہیں۔۔۔۔ورنہ گزری نسل کو اسے سمجھانے کے لئے چڑیا گھر لے جانا پڑتا تھا۔۔۔پھر چاہے وہ مشرقی نسل ہو یا مغربی ۔۔۔ انگریز بچوں کو تو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ چڑیا گھر میں انہیں لے جا کر بھی cry wolf کی اصطلاح سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔۔ البتہ انگریز بچوں کی یہی نسل جب بڑی ہوئی تو انہیں ایسی بہت ساری اصطلاحات کو سمجھانے کے لئے جنگی سیاست اور سیاسی جنگوں کا کھیل رچانا پڑا۔۔۔تب کہیں جاکر انہیں ۔۔۔ hold wolf by the ears … بہ معنی پائے رفتن نہ جائے ماندن اور keep the wolf away from your door بہ معنی تنگ دستی میں فاقے سے بچو ۔۔۔۔اس کے لئے بھلے ہی جنگیں کروانی پڑے۔۔۔۔۔کے معنی سمجھ میں آئے۔۔۔
مشرقی بچوں کو صرف لومڑیوں کی کہانیاں سنا سنا کر مکاری اور انگوروں کے کھٹے ہونے کا مفہوم یاد کرایا گیا تھا۔۔۔۔ نتیجاً اہل مشرق کا جو حال ہوا ہے، اور اہل مغرب کا جو حال ہونے والا ہے ، وہ دنیا سے اب چھپا نہیں۔۔۔۔انسانی تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ، افکار میں بھی تبدیلی واقع ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔۔۔اور اسکا اثر ادب میں بصورت محاورہ بھی ظاہر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اسی طرح بھیڑیوں کا پابند عہد نہ ہونا بھی کوئی حیرت کی بات نہ ہوگی اور نہ ہی جنگل میں تحفظ کی خواہش کرنا۔۔۔۔۔۔فی الحقیقت غور سے بھیڑیوں کو دیکھیے تو وہ بظاہر بہت مہذب نظر آتے ہیں، یہاں تک کے شکار کو چیر پھاڑ کر کھاتے وقت بھی تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے ۔۔۔ مغربی اور خاصکر انگریزی ادب میں تو بھیڑیوں کو اسقدر مہذب، دانشور، طاقتور اور لا فانی بتا یا جاتا ہے کہ اہل مشرق دانتوں تلے انگلیاں دبا کر پڑھتے ہیں۔۔۔ بلکہ اب تو فلموں میں دیکھتے بھی ہیں۔۔۔۔۔۔بھیڑیوں سے انسانوں کی انسیت خاصکر اہل مغرب کی انسیت کا عجب عالم رہا ہے۔۔۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جدید مغربی تحقیق ڈارون کی بندر نواز تھیوری کو جھٹلا کر انسانوں کا شجرہ بھیڑیوں سے ہی نہ جوڑ دے۔۔۔۔۔جبکہ سماجی و سیاسی جانور اور جنگلی جانور میں ایک حد فاضل قائم رکھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ اور یہ بات اہل مغرب سمجھنا نہیں چاہتے۔۔۔ ترقی یافتہ جو ٹہرے ۔۔۔

دنیائے ادب میں، تہذیبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر افکارات میں لاکھ اختلا فات سہی لیکن ایک بات مشترک پا ئی جاتی ہے کہ اہل فکر و قلم نے سبق آموز کہانیاں تخلیق کرنے میں بھیڑیوں کی سرشت پر خوب تحقیق کی ہے اور ان پر بہت کچھ لکھا ہے۔۔۔۔دنیا کے تمام ادب اس بات کے قائل ہیں کہ جنگل میں بھیڑیوں کا طرز حیات دوسرے جانوروں سے بہت مخلتف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ جنگل میں یوں تو بے شمار اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں لیکن بھیڑیوں کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنی نسل کو لے کر بہت حساس ہوتے ہیں، ان میں انا، غرور، اجارہ داری جیسے بے شمار نقائص ہونے کے باوجود اپنی نسل کے تئیں امتیاز برتنے کا جذبہ گہرا ہوتا ہے۔۔۔بلکہ وہ سیاہ و سفید بھیڑیوں میں امتیاز کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ سب باتیں تو جانوروں کی دنیا میں اوصاف میں شمار ہوتی ہیں اور انسانوں کی دنیا میں اسے نقائص سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔ لیکن بھیڑیوں کے ذکر میں انکے نکتہ نظر کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔۔۔ بلکہ انکے نظریہ کا احترام بھی ضروری ہے کہ دنیائے ادب میں منصفانہ طرز فکر کا بڑا دخل رہا ہے۔۔۔ اور کرداروں کے احساسات کا خیال رکھا جاتا ہے۔۔ پھر چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ الغرض بات بھیڑیوں کی ہو رہی ہے کہ وہ انہیں اوصاف کی بنا پر جنگل میں دیگر خونخوار جانوروں سے ممیز کیے جا تے ہیں۔۔۔۔ترقی کو پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔ ترقی یافتہ ہوتے بھی ہیں اور کہلوانا بھی پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے اگر وہ اپنے گروہ کو دوسروں سے الگ سمجھتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے ۔۔۔۔۔وہ اپنی طرز حیات میں اندرونی اختلافات کے باوجود اتحاد کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔۔۔ خاصکر ذریعہ معاش، کھیل کود، تفریح، شکار اور تحفظ کے معاملے میں، تحفظ جسے وہ جنگل کے اجمالی تحفظ سے موسوم کرتے ہیں جبکہ ان میں ہر ایک کو صرف اپنے تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔۔وہ دفاع کی اسٹراٹیجی میں یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔ اور لڑنے کی بہ نسبت جھوٹا شکار کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
بھیڑیوں کے سماج میں وقتا فوقتا مجالس بلانا، اور بحث و مباحثہ کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔۔ اور یہ دنیائے ادب میں کہانیوں سے ظاہر بھی ہے۔۔۔۔ ویسے یہ وصف انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ البتہ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بھیڑیوں کا مقصد حیات صرف شکار اور معاش ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یہ چار پانچ کے گروہ میں ملکر شکارکرتے ہیں اور جب دل چاہا اپنی مجلس بلا لیتے ہیں۔۔۔۔ انکی ایسی ہی ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا ۔۔۔۔۔۔

بھیڑیوں کی مجلس میں جا کر تعجب ہوا جب دیکھا کہ انہوں نے انسانوں کو بھی مدعو کیا ہے۔۔۔۔۔اور ان میں سامعین اور مقررین دونوں کو بلایا گیا ہے۔۔۔۔۔ ہمیں انکی اس فراخدلی اور رواداری پر بڑی حیرت ہوئی۔۔۔۔۔پہلی بار احساس ہوا کہ درندگی ہو یا بندگی تہذیب کے دائرے میں ہونی چاہیے۔۔ ورنہ محبت و ہمدردی، بھلا ئی اور نیکی بھی اگر غیر مہذب ہو تو درندگی کہلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
الغرض مجلس کا موضوع بھی وہی تھا جس سے مہذب انسان بر سر پیکار ہے۔۔ یعنی مہذب انسانوں کے نکتہ نظر سے کہا جائے تو دنیا کا تحفظ اور بھیڑیوں کے نظریہ سے جنگل کا۔۔۔۔۔پتہ چلا بھیڑیوں نے سارا وقت مہذب انسانوں کے لئے وقف کر رکھا ہے۔۔۔۔انسانوں نے اپنی دنیا کے تحفظ کو لے کر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔۔۔۔بھیڑیے سوچ میں پڑ گئے کہ انسانوں کو انسانوں سے خطرہ لاحق ہے جبکہ وہ اپنے آپ کو انسانوں کے لئے خطرناک سمجھ رہے تھے اور کسی سمجھوتے کی توقع کر بیٹھے تھے۔۔۔۔
مزا تو تب آیا جب یہ دیکھا کہ مجلس بھیڑیوں نے بلا ئی تھی اور بحث میں انسان پڑ گئے۔۔۔۔ انسان تعجب میں تھے کہ بھیڑیوں کے اصولوں اور طرز فکر و حیات سے وہ واقف تو تھے لیکن خونخواری پر اجارہ داری کا دعوی انکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔ حتی کے انسانوں کی بحث این پی ٹی اور نان پرولیفیریشن کے نکتہ ابال پر جا پہنچی ۔۔۔۔وہ چیخ چیخ کر اس کی اہمیت و افادیت پر لڑ رہے تھے۔۔۔اور اس معاہدے کی تائید میں موشن پاس کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔دنیا کو اس پر کاربند رہنے پر مجبور کررہے تھے۔۔۔ اس معاہدے پر جس کے بنانے والے قبل از معاہدہ اسکی خلاف ورزی میں مبتلا تھے ۔۔۔۔بھیڑیوں نے آپس میں خود بھی اسکی تائید کی اور کہا کہ یہی تو جنگل میں ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہیے۔۔۔۔ دوسرے جانوروں کو، چوہوں کو ، خرگوشوں، ہرنوں، گھوڑوں اور گدھوں کو ہی عہد پر کاربند ہونا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انہیں جنگل کا تحفظ بھلا کیوں نہ عزیز ہو۔۔۔۔انکی روزی روٹی اور شکار کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خونخواری انکی سرشت اور اوزار انکے ہیں ۔۔عہد و پیماں انکے ۔۔۔۔
پھر بھیڑیے بھلا عہد کے پابند کیوں ہوں ۔۔۔۔ خونخواری صرف انکا حق ہے۔۔۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Wolves have a monopoly on evil. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں