اف یہ عورتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-30

اف یہ عورتیں

The-women-of-old-and-new-era
پرانے زمانہ میں عورتیں نہ ناچتی تھیں نہ گاتی تھیں۔ ان میں رقص و سرود کے جراثیم نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے پریمی جوڑوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ آہیں بھرنا، شب بیداری اور ستارے گننا ان کا مشغلہ ہوتا تھا۔ لیکن ان کے اندر مردوں کو انگلیوں پر نچانے کا جرثومہ بالافراط پایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان مردوں کو بھی انگلیوں پر نچا لیتی تھیں جو بازاروں میں بھالو اور بندر نچاتے تھے یا سرکس میں شیروں سے کرتب کراتے تھے۔ وہ اس شعر کی مجسم تصویر ہوتی تھیں۔
اگر دنیا میری شوخی پہ آئے
نچا دوں انگلیوں پر اس جہاں کو
کہا جاتا ہے کہ عورتیں کبھی نازک ہوا کرتی تھیں اس لئے وہ صنف نازک کہلاتی تھیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ عورتوں نے مرد کا لباس پہن لیا ہے۔ چال ڈھال بدل لیا ہے۔ مردانہ ہیئر اسٹائل اپنا لیا ہے۔ اب وہ قمیض و جینس پہنتی ہیں۔ ٹائی باندھتی ہیں۔ وکالت کرتی ہیں۔ فوج و پولیس میں ملازمت کرتی ہیں۔ ہوائی جہاز اڑاتی ہیں۔ طب و انجینئرنگ کے شعبوں میں کمال دکھاتی ہیں۔ مردوں پر ایسا رعب جماتی ہیں کہ بے چارہ مرد صنف نازک کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

ایسی ہی عورتوں میں ایک بنگالی مصنفہ ہیں۔گستاخ رسول، دینی شعائر سے عاری، اپنی جنسی رازوں کو بے باکانہ بیان کرنے والی، ڈاڑھی والوں کو منہ چڑانے والی، کلین شیو اور پینٹ والوں پر مسکرانے والی اور خشخشی داڑھی والوں کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکھنے والی۔۔۔۔پیشہ میں ڈاکٹر لیکن افلاطون و سقراط کی طرح اخلاقیات، سماجیات اور جنسیات پر فلسفہ بیان کرنے والی۔۔۔ یہ ہیں تسلیمہ نسرین!
تسلیمہ نسرین کی خوبیوں میں ایک یہ بھی ہے وہ "تحریک نسواں" کی عالمی قائد بن گئی ہیں۔ فرماتی ہیں کہ "خواتین کا سرڈھانکنا ایسا ہی ہے کہ ان کی عقل پر پردہ ڈالنا تاکہ وہ حرکت و عمل سے قاصر رہیں۔" ایک بار "آؤٹ لک" میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ
"برقعہ جلا دو تاکہ عورتیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ "
اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ اکیسویں صدی سے پہلے کی عورتیں مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی تھیں، آج کی عورتیں مردوں کو اشاروں پر نچاتی ہیں اور مرد بے چارہ (عقل کا مارا) ان کے ابرو پر بند ر اور بھالو کی طرح ناچتا ہے۔
ابھی حال ہی میں مکیش امبانی نے اپنی بیوی نیتا امبانی کو ان کے یوم پیدائش پر 197 کروڑروپئے کا ایک ہوائی جہاز تحفتاً پیش کیا۔ شاہ رخ خان (فلمی ہیرو) نے فرح خان (فلمی ڈائریکٹر) کو ان کے یوم پیدائش پر ایک مرسییڈیز کا ر کانذرانہ پیش کیا۔

آخری سطروں میں یہ بتاتا چلوں کہ قدیم عورتیں اپنی زندگی کی آحری سانسیں اپنے سرتاج کے قدموں میں گزارنا چاہتی تھیں۔ ان کا احترام کرتی تھیں۔ ان کی مرضی کو ترجیح دیتی تھیں اور زیادہ تر وقت باورچی خانہ میں گزارکر اپنے شوہر کے پیٹ، زبان اور ذائقہ پر خاص دھیان دیتی تھیں۔ وہ ہندستانی مردوں کی کمزوری سے واقف تھیں کہ "پھر بھی پیٹ ہے ہندوستانی"!

ایک ضروری نکتہ رہ گیا۔ وہ یہ کہ ان عورتوں میں ایک کمزوری تھی کہ وہ اپنے شوہروں کانام لینے سے بخالت سے کام لیتی تھیں کہ شاید نکاح فسخ نہ ہو جائے۔ اگر کسی کا نام رحمت اللہ ہوا اور راشن والے نے پوچھ لیا کہ آپ کے شوہر کا نام کیا ہے تو محترمہ گھونگھٹ سے جواب دے دیتیں کہ وہی جو نماز کے اخر میں السلام علیکم کے بعد آتا ہے۔ آج بھی اس زمانے میں کہ کچھ عورتیں زندہ ہیں جو 100 روپئے کا نوٹ دیکھ کر گاندھی جی کی تصویر سے پردہ کرتی ہیں اور سرسید کا فوٹو دیکھ کر گھونگٹ ڈال لیتی ہیں اور السلام علیکم کہتی ہیں۔


The women of old and new era

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں