شکست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-13

شکست

The-Defeat
انسانی تواریخ میں شکست کو فتح کی ضد اور سیاسی و عسکری جنگ ، یا کھیل کود میں ہار و ہزیمت سے موسوم کیا گیا ہے، جبکہ اسکے لغوی معنی ٹوٹ پھوٹ کے ہیں ۔۔۔۔ فی الحقیقت ہر قسم کی شکست کا انجام ٹوٹ پھوٹ، انتشار، درہمگی و برہمگی ہی ہوتا ہے، احساسات و جذبات کی ، تعلقات و رشتوں کی ، عقل و خرد کی ، اصول و ضوابط کی، افکار و تحریر کی درہمگی و برہمگی ۔۔۔ ہر قسم کی ٹوٹ پھوٹ کو شکست سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ حتی کہ حالات کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہو کر انسان جب ٹوٹ جاتا ہے اور پھوٹ پڑتا ہے تو اسے بھی شکست سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اسی طرح حق سے انکار کرنے کو بھی انسان کی شکست مانی جاتی ہے۔۔۔

عشق و محبت میں ، مروت و دوستی میں، علم و ادب میں، سیاست و تجارت میں، تعلیم و روزگار میں، کھیل کود میں الغرض شکست سے کسی بھی انسان کو رستگاری نہیں، اور وہ اس کا مزا زندگی میں چکھتے رہتا ہے، اور ہر شکست کے بعد ایک سبق یا پھر کامیابی کا منتظر رہتا ہے، اور ہر کامیابی کے بعد عروج کا ۔۔۔ عروج و زوال ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور کارخانہ حیات میں یہ ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے – دور جدید میں یہ خیال عام ہے کہ ہر قسم کی شکست و ریخت تغیر و تبدل کا موجب ہوتی ہے، اور تغیر و تبدل ترقی کا۔۔۔ سائینس، ادب، فلسفہ، دین و مذہب، صنعت و تجارت، معاشرت و معیشت سب شکست و ریخت اور تغیر و تبدل کے اصولوں سے اتفاق کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
انقلابات اور تحقیقات کے اکثر حوالے بھی اس اصول سے اتفاق رکھتے ہیں، تغیر کو ترقی اور عروج کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ، اور ترقی کو شکست و ریخت یا ٹوٹ پھوٹ کا ما حاصل۔۔۔۔۔مظاہر قدرت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ہر ایک زوال کی پشت سے عروج و کمال کی ابتدا ہے، اور ہر ایک عروج و کمال کو زوال لازم ہے، اور کارخانہ حیات کا سارا نظام شکست و ریخت کا محتاج ہے۔۔۔۔ خالق کائینات نے اس کارخانہ حیات کو بنیاداً شکست و ریخت اور فنا کا پابند بنایا ہے، اور اسی کلیہ پر وہ اس کارخانۂ حیات کو چلاتا ہے۔۔۔۔۔۔اب عقل یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اگر کارخانۂ حیات کی ہر ایک ادنی و اعلی، کمزور و طاقتور شہ، جس میں اشرف المخلوقات بھی شامل ہے، شکست و ریخت، تغیر و تبدل اور بالآخر فنا سے فرار حاصل نہیں کرسکتی، اور باقی نہیں رہتی ، پھر کوئی تو ہو جو شکست و ریخت ، تغیر و تبدل اور فنا کے اس نظام کو ایک مقررہ وقت تک جاری و ساری رکھنے کے لئے لا فانی ہو ۔۔۔اس طرح خالق کائینات کا تن تنہا لا فانی اور حی و قیوم ہونا لازم ٹہرتا ہے، بلکہ یہ عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے کہ کارخانۂ حیات کو چلانے والا کوئی فانی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ اس پر مستزاد یہ کہ شکست و ریخت کے لئے تخلیق کا یا اشیاء کا عدم سے وجود میں آنا بھی ضروری ہے ، اور پھر خارجی و داخلی اسباب کا ہونا ، اور کسی دو یا زائد اجسام یا اشیاء کا آپس میں ٹکراؤ اور مزاحمت کے مراحل سے گزرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ چونکہ تمام تر تخالیق کا وجود اس کارخانہ حیات میں عارضی ہے اس لئے اس گمان و بد گمانی سے بھی بہ آسانی نجات پایا جاسکتا ہے کہ کوئی انسانی گروہ یا ساری مخلوقات خود مل کر یہ دنیا چلا رہی ہے، یا انسانی دریافت کردہ سائینسی اصول و ضوابط یا تحقیقی قوانین سے یہ دنیا جاری و ساری ہے۔۔۔۔۔
کارخانۂ حیات میں علوم کی ایک انتہا ہے جو اشیا و اجسام کے وجود کی بحث پر جاکر رک جا تی ہے ، اور اس سے پرے عدم سے وجود میں آنے کے عمل سے علوم کی انتہا بھی لا علم ہے ۔۔۔۔۔اس لئے یہ دنیا بے شک خالق کائینات ہی چلا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ انسان اگر کسی مرحلہ میں شکست و ریخت سے بچ بھی جائے تو تھکن، نیند، بیزاری ، فراموشی، فراغت ، ضروریات، حساسیت و بے حسی اور بے یقینی کی کیفیات سے فرار حاصل نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ اور دنیا چلانے کے لئے ان کیفیات سے مستشنی ہونا شرط اول ہے، ورنہ ایک نیند کا جھونکا اور نظام کائینات درہم برہم ہو جا ئے۔۔۔۔۔رہا وہ سائینسی کلیہ کے یہ نظام کائینات خود کار ہے تو سائینس سے بہتر اس بات کی توجیہ اور کہاں ہوگی کہ ہر ایک خود کار نظام ایک شروعات چاہتا ہے ، اور ہر ایک شروعات دانش و حکمت، طاقت و قوت چاہتی ہے ۔۔۔ ان عناصر کا بے جان اشیا اور جانوروں میں پایا جانا تو غیر منطقی اور غیر سائینسی ہے ہی لیکن اس لا متناہی کائینات کو چلانے کے لئے تمامتر فانی انسانی حکمتیں اور قوتیں بھی کم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اب مہذب انسان کو شکست تسلیم کر لینی چا ہیے اور خالق کائینات کو جان اور مان لینا چاہیے، ایسے ہی جیسے اسکو ماننے کا حق ہے ۔۔۔۔۔

الغرض اقوام، گروہ، جماعتیں، انسانی قوانین، تہذیب و تمدن، افکار و تحریر و ادب سب ٹکراؤ مزاحمت، شکست و ریخت، تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرنے کے متقاضی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسکے علاوہ کارخانہ حیات کے وہ تمام بے جان پرزے بھی جو خارجی عوامل کے سبب ٹکراؤ اور مزاحمت کے عمل سے گزر کر شکست و ریخت اور فنا کو جا پہنچتے ہیں ۔۔۔انجام کار ایسی تمام شکست و ریخت، کامرانی و ترقی اور عروج و زوال بھی فنا کی مزل کو جا پہنچتی ہے ۔۔۔ایسے تمام مراحل کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ کارخانہ حیات کے یہ سارے مراحل اجمالی طور پر ایک منظم، طے شدہ اور تحریر شدہ احکام کے تحت کام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہی دین فطرت بھی کہتا ہے ۔۔۔۔ اورتہذیب جدیدہ میں انسان نے زندگی کے ہر ایک شعبہ میں اسی طرز فکر و عمل کو شعوری یا لا شعوری طور پر اپنایا بھی ہے، اور اس طرح اپنے اپنے شعبہ میں ترقی حاصل کی ہے۔۔۔ یہاں تک کے سائینس بھی اس طرز فکر و عمل سے مستشنی نہیں۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تہذیب جدیدہ کا پروردہ انسان اس "شکست" کو قبول کرنے میں عار محسوس کرتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے۔۔۔۔ اسکی یہ شکست ہی دراصل فتح و کامیابی اور ترقی کا نقارہ ثابت ہوسکتی ہے ۔۔۔جو فی الحقیقت اصل کامیابی و ترقی ہے اور جسے فنا نہیں ۔۔۔۔۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

The Defeat. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں