نشان عبرت - اردو کے ایک مایہ ناز ٹھیکیدار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-15

نشان عبرت - اردو کے ایک مایہ ناز ٹھیکیدار

Anjuman-Taraqqi-i-Urdu-Hind
تیسری کلاس میں ایک نظم پڑھی تھی "سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ" اس نظم کا مطلب جب ہی سمجھ میں آگیا تھا ، یہ نظم اردو کے مایہ ناز ٹھیکدار ڈاکٹر خلیق انجم نے بھی پڑھی ہوگی لیکن 90سال کی عمر میں بھی اس کا مطلب نہیں سمجھ پائے ۔ دغل فیصل سے سینکڑوں کروڑ روپے کمائے اور اپنے حوارین کو بھی خوب کمائی کروائی ۔ کنجوسی اور خود قرضی میں ڈاکٹر خلیق انجم صاحب اپنی مثال آپ ہیں ۔ اتنے خود غرض کہ ان کے سامنے کود غرضی بھی شرماجائے ۔ ایک زمانہ تھا کہ اردو دنیا میں پتہ بھی ڈاکٹر صاحب کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تھا ۔ پھر وہ وقت آیا کہ اردو دنیا کے بے تاج بادشاہ ڈاکٹر خلیق انجم صاحب کو اردو کے دوسرے درجے کے ٹھیکیدار نے انجمن ترقی اردو ہند سے ڈنڈا ڈولی کر کے باہر پھینک دیا ۔ اب شروع ہوتی ہے اردو دنیا کے شہنشاہ وقت کی عبرتناک کہانی۔

آج کی تاریخ میں ڈاکٹر خلیق انجم صاحب بے یارومددگار بستر پر پڑے ہیں ۔ حاجت رفع کے لئے بھی ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے، رات کو ڈائیپر باندھ کر سوتے ہیں ۔ ایک بیٹا ہے جو کہ کینیڈا میں جاکر آباد ہوگیا ہے ۔ساری مال و دولت بیٹے کو دیدی، جب تک بیٹے کو ساری دولت نہیں دی تھی تو وہ ہر دو مہینہ میں ہندوستان آتا تھا جب سارا پیسہ اسے دیدیا تو اب وہ ڈیڑھ سال سے ہندوستان نہیں آیا۔ بیٹا اس لئے چھوٹا کہ ساری دولت اس کو دیدی اور بیٹی اس لئے چھوٹی کیونکہ بیٹی کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملا ۔ رہی سہی کسر ڈاکوؤں نے پوری کردی، پہلے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈکیتی ہوئی اور ابھی حال ہی میں چالیس پچاس لاکھ کی چوری ہوئی ۔ چوری کا مال تھا چوری میں چلاگیا ۔
ڈاکٹر صاحب کی بیگم صاحبہ پنجابی شرنارتھی ہیں ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا ، بیٹی کو وراثت سے بے دخل کرنے کا سہرہ بیگم صاحبہ کے سر جاتا ہے کیونکہ جوانی میں انہوں نے مسلمان ہوکر شادی کی تھی اس گناہ کے ازالے کے لئے انہوں نے ہندو شریعت کے مطابق سارا ورثہ بیٹے کو دے دیا ۔ اب بیگم صاحبہ بلا ناغہ مندر اور گرودوارے جاتی ہیں اور مرنے کے بعد جلانے کی بھی وصیت کردی ہے ۔ بیگم صاحبہ مسلمان بن کر آئیں اور ڈاکٹر صاحب کی نسل کو ہندو بناکر لے گئیں ۔ اب ڈاکٹر صاحب اور بیگم صاحبہ بیٹے کو یاد کرکے گنگناتے ہیں:
کوئی پرسان حال ہو تو کہوں کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد
دن گزارا ہے کس طرح میں نے رات کیسے کٹی ہے تیرے بعد
اب دونوں بزرگوار حسرت و یاس کی زندگی گزار رہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اب تو کوئی خیریت کا فون بھی نہیں کرتا۔ اردو دنیا کے باقی ٹھیکیدار خوش ہیں کہ راستے کا کانٹا نکل گیا۔

اس لاچاری کی وجہ کیا ہے؟
اس کی بنیاد مال ودولت کی محبت ہے۔ اس ناداری کی وجہ مال کی محبت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مال کو خدا بنالیا۔ اس کو مکافات عمل کہتے ہیں ۔ جس چیز کی فصل بووگے وہی کاٹنی ہوگی ۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت سے لوگوں کو برباد کیا ، کیا ان کی بددعائیں رائیگاں جائیں گی۔ یہ کالم اس لئے لکھا گیا ہے کہ لوگ عبرت حاصل کریں ۔ اردو دنیا کے ٹھیکیدار تو شاید ہی نصیحت حاصل کریں ، تاریخ گواہ ہے کہ حرام سے کمایا ہوا مال و دولت کسی کے کام نہیں آیا ۔ قارون ، فرعون ، حسنی مبارک ، قذافی وغیرہ کی بے انتہا دولت نے انکا ساتھ دیا ؟ کم و بیش اس طرح کی لا تعداد مثالیں ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ جو عمل بھی ہم کررہے ہیں اس کا ایک نتیجہ نکلتا ہے ۔ عمل اچھا ہوگا تو نتیجہ اچھا ہوگا اور اگر ڈاکٹر صاحب جیسے عمل ہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب جیسا ہی انجام بھی ہوگا۔
ہماری آنے والی زندگی ہمارے آج کے اعمال پر منحصر ہے ۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔ حرام سے کمائی ہوئی دولت حلال اور صحت ساتھ میں لے کر جاتی ہے ، یہ بات یقینی ہے ۔

***
Rizwan Abid Quraishi
Mob.: 09811134881
Email : rizwanabidquraishi[@]yahoo.in
رضوان عابد قریشی

Exemplary punishment of a renown urdu personality. Article: Rizwan Abid Quraishi

2 تبصرے:

  1. ایسے مضامین سے گریز کیا جاے ۔ادب کے حوالے سے ادیب پر گفتگو ہو ۔
    سید فضل اللہ مکرم

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بجا فرمایا۔
      مگر ادب کی تاریخ کے بعض سیاہ صفحات بھی ہوتے ہیں، جس کی ایک مثال جناب رؤف خیر کا یہ مضمون بھی ہے:
      فائق باپ کی لائق اولاد

      حذف کریں