وہ میرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا - بشیر باغ حیدرآباد کی محفلیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-11-01

وہ میرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا - بشیر باغ حیدرآباد کی محفلیں

basheerbagh-palace hyderabad
حیدرآباد میں ریذیڈنسی کی تعمیر کے ساتھ ہی تہذیب پر اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے تھے۔ برطانوی ریذیڈنٹ کرک پیٹرک مشرقی تہذیب کا دلداہ تھا۔ مغرب و مشرق کے اس امتزاج کا اثر شہریوں پر بھی مرتب ہوا۔ میر محبوب علی خاں کے دور تک مغربی تہذیب نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ چنانچہ بندوق سے شکار، پولو، بلیرڈ، ڈنر پارٹی، ٹی پارٹی، فلور ڈانس، دیسی مشروب کی جگہ ولایتی مشروبات نے اپنا اپنا رسوخ پیدا کرلیا۔ کچھ سر سید احمد خاں کی ترقی پسندی کا اثر تھا کہ انگریزی تعلیم کا رجحان بڑھا اور نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ کا رخ کرنے لگے۔ لوٹ کر آئے تو کچھ اپنا چھوڑ آئے کچھ اپنے ساتھ لے آئے۔
سر آسمان جاہ بھی ولایت گئے تھے جب واپس آئے تو بشیر باغ قدیم و جدید تہذیب سے آراستہ ہوگیا۔ آصفجاہوں میں میر محبوب علی خاں پہلے بادشاہ تھے جو خوش پوش بھی تھے اور مغربی طرز لباس کو پسند بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے ملبوسات کی الماری 176 فیٹ طویل تھی، دو منزلہ تھی۔ الماریوں کی اس قطار میں 124 مختلف شعبے تھے جو الگ الگ لباس اور ان کے لوازمات سے آراستہ تھے۔ محبوب علی خاں نے کبھی ایک لباس دو مرتبہ نہیں زیب تن کیا۔ ان کے درزی ہمیشہ ملبوسات کی تیاری میں مصروف رہتے جیسے جیسے الماریوں میں جگہ خالی ہوتی رہتی نئے لباس سے وہ جگہ پر ہوجاتی تھی۔ کوئی ایک صدی بعد 1990 ء میں اس الماری میں نمائش کے لئے دو جوڑ گھڑ سواری کے جوتے، ایک پا پوش اور ایک ڈبے میں ہیٹ پائی جاتی تھی جو بالکل نئی حالت میں تھے۔ خدا جانے وہ اب موجود ہیں یا نہیں۔ البتہ الماری ابھی بھی موجود ہے شاید اس لئے بھی کہ اس کا جنبش کرنا محال ہے۔
سر آسمان جاہ کی ترتیب دی ہوئی تقاریب کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کبھی ناشتے کی ضیافت ان کے آسمان گڑھ محل میں ہوا کرتی تھی کبھی رات کی محفلیں بشیر باغ میں سجائی جاتی تھیں۔ ایک یادگار پارٹی /17 فروری 1897 ء کو منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے لئے دعوت نامہ ایک مہینہ پہلے روانہ کر دیا گیا۔ اس پارٹی کی خصوصیت یہ تھی کہ اسے "فینسی ڈریس پارٹی" سے موسوم کیا گیا تھا اور مہمانوں سے خواہش کی گئی تھی کہ وہ اپنے عام لباس کی بجائے کوئی ایسا لباس اختیار کریں کہ بدلے ہوئے بھیس میں انہیں پہچاننا مشکل ہوجائے۔ مہمانوں کی پہلی فہرست کے مطابق جب دعوت نامے جاری ہوئے تو اوروں کو بھی یہ خواہش ہوئی کہ یہ اعزاز انہیں بھی حاصل ہو کہ وہ ان مدعوئین میں شامل ہوسکیں۔
اس شام بشیر باغ پیلس رشکِ ارم بنا ہوا تھا۔ پانی کے بڑے بڑے حوض جن میں سیکڑوں گیلن عرق گلاب شامل کرکے فوارے کھول دیئے گئے تھے اور ساری فضاء گلابوں سے معطر تھی۔ چمن زار جو ہمیشہ ہی شاداب رہا کرتا تھا اس کی از سر نو تزئین کی گئی تھے۔ محل کے سارے پردے تبدیل کردیئے گئے۔ نئے قالینوں سے فرش مزین ہوا۔ دس ہزار چراغ محل کے گوشہ گوشہ میں روشن کئے گئے۔ چمن کے تین گوشوں میں علحدہ علحدہ موسیقی نواز ساز و آواز کا جادو جگا رہے تھے۔ انگریزوں نے تو نت نئے بھیس بدلے لیکن حیدرآبادی قدرے محتاط تھے کہ بہر حال وہ وزیر آعظم کی رہائش پر مدعو تھے۔ اس دعوت میں مہمانوں کی آمد پر اعلان نہیں کیا جارہا تھا کہ کون مہمان تشریف لا رہے ہیں۔ شرط یہ تھی کہ مہمان خود ایک دوسرے کو پہچانیں۔ ایسے میں کوئی عرب جمعدار کے بھیس میں آیا تو کوئی روہیلے پٹھان کے بھیس میں۔ ایک نواب صاحب جن کا بال بال قرض میں بندھا تھا انہوں نے ایک روہیلے کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے ان پر کوئی توجہ ہی نہ دی اور مشروبات کی طرف آگے بڑھ گیا تب انہیں پتہ چلا کہ گھنی مونچھوں کے پیچھے کوئی اور شخص ہے۔ رقص کدے کے جنوبی حصے میں مجرے کے لئے طائفے الگ الگ ٹکڑیاں بنائے بیٹھے تھے۔ ہر طائفے کے ساتھ کئی رقاصائیں تھیں لیکن ان سب سے الگ ایک طائفہ تھا جس میں سازندے سارے ہی تھے لیکن رقاصہ صرف ایک تھی۔ جب سارے طائفے اپنا اپنا جادو جگا چکے اور حسینۂ شب کی زلفیں دراز ہوکر کمر سے نیچے پہنچ چکیں تب سازندے نے شاید ستار کے کسی کسے ہوئے تار کو چھیڑا۔ تار کی لرزش کے ساتھ ہی اس نے یوں انگڑائی لی جیسے ستار کے تار کی لرزش نے سوئے ہوئے فتنے کو جگا دیا ہو اور پھر بل کھاکر اٹھی تو لگا قیامت کھڑی ہے۔ بھرے ہوئے ٹخنوں پر گھنگرو بندھے تھے۔ محفل کو کورنش بجا لاکر سیدھی جو ہوئی تو لگا شاخ گل جھوم کر سیدھی ہوئی ہو۔ سیاہ گھاگھرے پیچھے سے سنہری پنڈلیاں دو شاخہ کی طرح روشن روشن۔ کچے سونے کے برہنہ بازوں پر زمرد اور یاقوت جڑے جوشن۔ وہ محشر اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔ کسی کنیز نے آسمان جاہ کے آگے جواہر نگار صراحی اور زمردی پیالہ سجاکر رکھ دیا۔ رقاصہ نے مہین انگلیوں سے یوں پیالہ اٹھا کر پیش کیا گویا پھول چن لیا ہو۔ پھر گھوم کر رقص کدے کے آبنوسی فرش پر یوں بھرپور ٹھوکر مارکر رقص کا آغاز کیا کہ سارے گھنگرو اس کا بدن بن گئے یا وہ سراپا گھنگرو ہوگئی۔ وہ بغیر ساز کے رقص کر رہی تھی لیکن ہر ساز بج رہا تھا۔ مشک کے ابرو، نیلم کی آنکھیں، یاقوت کے ہونٹ، ہاتھی دانت کے نازک ستون، بلوری برجیاں سب اپنے غرور کے نشے میں رقص کر رہے ہیں۔ اس نے آخری گردش کی اور چھم سے آسمان جاہ کے روبرو بیٹھ گئی تو لگا بجلی کوند کر مجسمہ بن گئی اس نے جھک کر تسلیم عرض کی۔ جب طوفان تھما تو آسمان جاہ نے پوچھا "تمہارا نام؟"
اس نے شستہ انگریزی میں کہا ''I AM MISS ELISA FROM ESSEX, ENGLAND''
وہ ایک برطانیہ کی دوشیزہ تھی جس نے اس شام فینسی ڈریس شو کو تحیر کی لذت سے آشنا کردیا تھا۔ آسمان جاہ نے اپنے گلے سے مروارید کی مالا نکال کر اسے پیش کی جسے اس نے کورنش بجا لاکر قبول کرلیا۔ تب کہیں سارا طلسم ٹوٹا۔
سالار جنگ دوم اور آسمان جاہ کے بعد کچھ دنوں دیوانی راست محبوب علی خاں کی نگرانی میں رہی۔ انیسویں صدی کا اختتام اور راجہ کشن پرشاد کا بحیثیت دیوان تقرر ایک ساتھ ہے۔ سن 1900 ء میں میر محبوب علی خاں نے راجہ کشن پرشاد کو پیشکاری سے ترقی دے کر دیوانی کے عہدے پر مامور کیا۔ راجہ کشن پرشاد کا سلسلہ نسب مہاراجہ چندو لال دیوان اور پھر اس سے آگے اکبر آعظم کے وزیر ٹوڈرمل سے ملتا ہے۔ ان کے سلسلے میں بادشاہ سے وفاداری کا جذبہ عیاں تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ کشن پرشاد اوائل عمر میں محبوب علی خاں کے ہم مکتب رہے۔ ان کے تئیں یہ بات طئے تھی کہ "بادشاہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے، عقل و فراست ان پر تمام ہے، دانائی و بینائی ان کے آگے دست بستہ ہیں، فرزانگی ان کی ڈیوڑھی پر حاجب کی خدمت پر مامور ہے، ذہانت کا بلند ترین معیار بادشاہ کی ذکاوت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کلام الملوک دراصل ملوک الکلام ہے۔ ان تمام صفات کے ساتھ جذبۂ وفاداری کا دوسرا نام سر کشن پرشاد ہے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، انگریزی، سنسکرت اور پنجابی پر عبور اور دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی بھید بھاؤ نہیں تھے۔ راجہ چندو لال ہی کی طرح ضرورت مندوں، ناداروں اور غریبوں کی مدد ان کا شعار تھا۔ وہ جب بھی باہر نکلتے تو ان کی سواری میں سکّوں سے بھری ہوئی تھیلی ساتھ ہوا کرتی تھی اور راستہ بھر خیرات کا سلسلہ جاری رہتا۔ اکثر ان کی سواری کو آتا دیکھ کر بچے ان کی سواری کو گھیر لیا کرتے تھے اور وہ سب کو سکّے تقسیم کرتے ہوئے گزرتے۔ اسی لئے انہیں بچوں کا راجہ بھی کہا جاتا تھا۔ پیدائش کے اعتبار سے وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن ان کا طرز بود و باش، تہذیب، رہن سہن، زبان، لباس، ذائقہ، دستر خوان سب کچھ مسلم تھا۔ وہ کثیر الازواج بھی تھے اور کثیر الاولاد بھی۔ چنانچہ ان ازواج سے انہیں 30 اولاد رہیں۔ دعوتیں، تقاریب، شادیاں، مشاعرے، مہمان نوازیاں، امداد، خیرات، نذر، عید، دیوالی، بسنت، عرس، محرم کونسا مہینہ بلکہ کونسا دن ایسا تھا جس کو کشن پرشاد نے یادگار نہ بنایا ہو۔
راجہ کشن پرشاد کی بحیثیتِ دیوان تقرری پر میر محبوب علی خاں نے انہیں یمین السلطنت کے خطاب سے سرفراز کیا اور ساتھ ہی راجہ کے خطاب کو بلند کرکے مہاراجہ کیا۔ اور ریاستوں میں جہاں والیانِ ریاست صرف راجہ ہوا کرتے تھے وہاں ریاستِ حیدرآباد کے دیوان مہاراجہ تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاعر تھے اور شاذؔ تخلص فرماتے تھے۔ بلارم اور شاد نگر ان ہی کی جاگیر میں شامل تھے۔ دراصل وہ دور حیدرآباد کا زریں دور تھا میر محبوب علی خاں جیسے فیاض بادشاہ اور مہاراجہ کشن پرشاد جیسی فیاض اور مخیر شخصیت دیوان تھی۔ ادھر مہاراجہ کا یہ حال تھا کہ اگر کسی غریب نے آکر یہ کہدیا کہ راجہ میرے گھر بیٹی کی شادی ہے اور مارے غیرت کے احوال نہ کہہ پایا تو مہاراجہ بے ساختہ اس سے کہہ دیتے "بڑی خوشی کی بات ہے۔ بھلا اس سے زیادہ اور کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو ڈولی میں اس کے گھر رخصت کرے۔ آپ خاطرجمع رکھئے وہ آپ کی بیٹی ہوئی تو کیا، ہماری بھی تو بھتیجی ہے" اور پھر سارا انتظام خود کردیتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ دیوانی، جاگیریں، ریاست، خطاب، سب کچھ رکھ کر وہ خود کو کبھی درویش اور کبھی فقیر کہا کرتے تھے۔ آج رمضان کے مہینے میں نودولتیوں کے گھروں کے آگے مفلسوں، ناداروں، بے کسوں، بیواؤں، بیماروں، فاقہ کشوں کا ہجوم دیکھتا ہوں کہ تپتی ہوئی دھوپ اور شب کی اوس میں آنکھیں دروازے پر لگائے قطاریں کھڑی ہیں کہ جانے کب سخی کا در کھلے اور کب زکوٰۃ تقسیم ہو۔ دینے والے کو کبھی اخبار کبھی میڈیا اور کبھی کسی سیاسی لیڈر کا انتظار ہے کہ دینے والے سخی اور پانے والے محتاجوں کی تشہیر و تصویر نہ ہو تو زکوٰۃ کیا اور ثواب کیا۔
1857 ء میں پہلی جنگِ آزادی کے بعد دہلی اُجڑ گئی۔ محلے سونے ہوگئے جس کو جدھر جائے پناہ دکھائی دی چل پڑا۔ داغؔ دہلوی کا گھر بھی اُجڑ گیا۔ جو کچھ شعری سرمایہ تھا سو ضائع ہوگیا۔ نواب کلب علی خاں والئ رامپور تھے۔ داغؔ کو ایک امید کی کرن دکھائی دی سو رام پور چلے گئے۔ کلبِ علی خاں وضعدار بھی تھے۔ علم دوست بھی تھے ریاست اگرچیکہ چھوٹی تھی لیکن دل وسیع تھا۔ ایک دن داغؔ راستے سے گزر رہے تھے دیکھا ایک شخص لکڑیاں کاٹ رہا ہے۔ لباس بوسیدہ تھا، لیکن چہرے شرافت کے ساتھ ساتھ ایک خاص کشش تھی کہ آدمی دیکھا کرے۔ کئی دن بعد کلبِ علی خاں کے دربار میں محفل مشاعرہ تھی۔ داغؔ نے دیکھا وہی شخص سر جھکائے شعراء کی صف میں بیٹھا ہے۔ جب شمع گردش کرتی ہوئے اس کے روبرو ہوئی تو معتمد نے اعلان کیا "حضرت نظامؔ رامپوری" نظام نے تھوڑی سی گردن اٹھائی اور مطلع سنایا۔
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ
پاٹ دار آواز سلگتا ہوا لہجہ، اہل محفل اپنے گھٹنوں کے بل ہوکر داد دینے لگے۔ اس نے سلام کیا۔ ہونٹوں پر سوگوار سا تبسم آیا اور بس، پوری غزل مرصع تھی۔ جب غزل ختم ہوئی تو نواب کلبِ علی خاں نے ایک اور غزل کی خواہش کی۔ نظامؔ نے دھیرے سے کہا "جی حاضر کرتا ہوں"۔ غزل تو چھڑ گئی تھی لیکن جب نظامؔ نے یہ شعر سنایا۔
انداز اپنا آئینے میں دیکھتے ہیں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
تو داغؔ کو لگا جیسے دل سینے سے نکل آیا۔ یہ معاملہ بندی اور اردو غزل! داغؔ نے کب دیکھی تھی۔ پھر حسرت و یاس میں ڈوبے ہوئے شاعر کو دیکھا تو لگا کہ ایک پھانس کلیجے میں لگ جائے تو آدمی بے کل ہو جاتا ہے۔ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے یہ شخص تو سارے کا سارا بکھرا ہوا سا لگتا ہے۔ دن گزر گئے مہینے گزر گئے۔ ایک دن اطلاع ملی کہ نظام رامپوری کا انتقال ہوگیا۔نواب کلب علی خاں نظام کے گھر پہنچے۔ ساتھ میں داغؔ بھی تھے۔ سارا گھر سنسان تھا۔ بس ایک چٹائی پر میت دھری تھی۔ نظامؔ کی آنکھیں کھلی تھیں اور دروازہ کی طرف تک رہی تھیں۔ گھر کی دیواروں پر نظامؔ نے کوئلے سے جابجا شعر لکھے تھے۔ اپنی ہی طرح ٹوٹے پھوٹے لفظ ٹوٹی پھوٹی تحریر۔ نواب صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ صرف اتنا کہا نظامؔ ہمیں معاف کردو ہم تغافل پر شرمندہ ہیں۔ نظامؔ رامپوری کو سپرد لحد کردیا گیا۔ داغؔ دہلوی کی شاعری میں معاملہ بندی نظامؔ رامپوری کی دین ہے۔ نواب کلب علی خاں کے انتقال کے بعد داغؔ حیدرآباد چلے آئے۔
مہاراجہ کشن پرشاد نے بہت سے بیرونی شعراء کی پذیرائی کی ان میں داغؔ بھی ہیں۔ داغؔ چلے تو آئے مہاراجہ نے میر محبوب علی خاں کی خدمت میں باریاب بھی کیا۔ وہ دربار میں بھی یاد کئے گئے۔ دعوتوں اور ضیافتوں میں بھی یاد فرمائی ہوئی لیکن ملازمت نہ مل سکی۔ محبوب علی خاں موضع پنچولی میں شکار کے دورہ پر تھے۔ یکایک مہاراجہ نے کہا "داغؔ کو بلواؤ" ہرکارہ روانہ کیا گیا۔ داغؔ کو پنچولی پہنچتے پہنچتے دوسرا دن ہوگیا۔ صبح صبح پہنچے تھے۔ خدمت میں حاضر ہوکر سلام بجا لائے۔ محبوب علی خاں اپنے اصطبل کے پسندیدہ گھوڑوں کا معائنہ فرمارہے تھے۔ انہوں نے داغؔ سے پوچھا "آپ گھڑ سواری سے واقف ہیں؟" داغؔ نے کہا "جی حضور بس تھوڑی سی۔ کوئی شہسواری کا جوہر تو نہیں، بس یونہی کبھی سواری کی ہے" محبوب علی خاں نے کہا " دیکھیں تو" اور یہ کہہ کر سائیس کو اشارہ کیا۔ سائیس مزاج شناس تھا اس نے ایک گھوڑے کی رکاب تھامی۔ داغؔ زین پر بلند ہوئے ہی تھے کہ سرکش گھوڑا الف ہوگیا۔ داغؔ گھوڑے سے گر پڑے اور فوراً اٹھ کر آداب بجا لائے۔ محبوب علی خاں کے ہونٹوں پر تبسم آیا۔ فرمایا "ہم آپ کی شہہ سواری سے خوش ہوئے اور آپ کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ پر داروغۂ اصطبل مقرر کرتے ہیں"۔
داغؔ سلام کرتے کرتے دوہرے ہوگئے۔ بادشاہ نے دریافت کیا "آپ حیدرآباد میں کب سے ہیں؟" داغؔ نے کہا "حضور دسواں برس شروع ہوئے بس دو مہینے گزرے ہیں"۔ محبوب علی خاں نے مہاراجہ سے کہا "ہم داغؔ کو استاد شاہ مقرر فرماتے ہیں یہ جب سے ہماری سلطنت میں آباد ہیں پوری تنخواہ ایصال کردی جائے" مہاراجہ نے کہا "جو حکم عالیجاہ" اس کے بعد بادشاہ سلامت نے داغؔ سے کہا "استاد وہ مقطع ارشاد ہو جو آپ نے مہاراجہ کی محفل میں سنایا تھا"۔ داغؔ نے کہا:
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں
مجھ کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا
میر محبوب علی خاں نے کہا "اور مطلع؟"
داغ نے کہا:
میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ میرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
میر محبوب علی خاں دیر تک زیر لب دہراتے رہے
وہ میرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

***
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, Silver Oak, Edi Bbazar, Near Sravani Hospital, Hyderabad - 500023
Mob.: +919848080612
علامہ اعجاز فرخ

The literary and cultural parties at Basheer Bagh Hyderabad. Article: Aijaz Farruq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں