عدم رواداری کے خلاف احتجاج میں شدت - سائنسدانوں اور مورخین نے بھی آواز اٹھائی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-30

عدم رواداری کے خلاف احتجاج میں شدت - سائنسدانوں اور مورخین نے بھی آواز اٹھائی

نئی دہلی
پی ٹی آئی
عدم رواداری کے ماحول کے خلاف زور پکڑتے ہوئے احتجاج میں آج ادیبوںِ فلمسازوں اور سائنسدانوں کے ساتھ مورخین بھی شامل ہوگئے۔ اعلیٰ سائنسداں پی ایم بھارگوا نے کہا کہ وہ اپنا پدما بھوشن ایوارڈ واپس کررہے ہیں اور الزام عائد کیا کہ مودی حکومت ہندوستان کو ایک ہندو مذہبی آمریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ایک ایسے وقت جب دانشورں کے مظاہروں کی لہر میں سائنسدانوں کا دوسرا گروپ شامل ہوا53مورخین بشمول رومیلا تھاپر، عرفان حبیب، کے این پامیکر اور مرید ولا مکرجی نے ملک میں پھیلنے والے نہایت مذموم ماحول پر خدشات کے بعدیقین دہانی کراتے ہوئے کوئی بیان نہ دینے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ معروف سائنسداں بھارگوا نے جو رحیدرآباد میں سنٹر فار سیلولر اینڈ مالیکیولر بائیولوجی کے بانی ہیں کہا کہ وہ ملک میں ایک نہایت گہرا خوف محسوس کررہے ہیں اور یہ حقیقت پسندی معقولیت پسندی اور علمی ماحول کے خلاف ہے۔ میں نے ایوارڈ واپس کردینے کا فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت، جمہوریت کے راستہ سے بھاگ رہی ہے اور پاکستان کی طرح ملک کو مذہبی مطلق العنانیت کے راستے پر ڈالنے کی سمت بڑھ رہی ہے جو قابل قبول نہیں ہے ۔87سالہ سائنسداں نے الزام عائد کیاکہ مختلف عہدوں پر ایسے افراد کا تقرر کی اگیا ہے جو آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مودی حکومت پر اپنے وعدوں کا لحاظ نہ رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بھارگوا نے کہا کہ ایوارڈ کی واپسی واحد کام ہے جو ایک سائنسداں کی حیثیت سے میں کر سکتا ہوں ۔ انہوں نے کہا بی جے پی ، آر ایس ایس کا ایک سیاسی بازو ہے ، آر ایس ایس اس کی آقا ہے ، حال میں سی ایس آئی آر ڈاکٹرس کی میٹنگ میں آر ایس ایس کے لوگ شریک تھے ۔ سی ایس آئی آ ر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔ میں آئندہ ہفتہ ایوارڈ واپس کردوں گا۔ انہوں نے کہا کہ خوف کے ماحول کو ہوا دینے پر آر ایس ایس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے ۔ مودی حکومت اور آر ایس ایس طے کررہے ہیں کہ عوام کو کیا کھانا چاہئے اور کیا کرنا چاہئے ؟ اس دوران50سے زائد معروف مورخین نے ایک مختصر بیان میں ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور پر تشدد واقعات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گہری تشویش کااظہار کیا ہے ۔ خیال رہے کہ کل ملک کی 12فلمی شخسیات نے اپنے قومی ایوارڈس واپس کردئیے ۔ اس کے علاوہ تقریبا50سائنسدانوں نے بھی ایک مختصر بیان جاری کر کے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور پر تشدد واقعات کی مذمت کی تھی۔ اس سے پہلے تقریبا300سے زائد مصوروں نے بھی ادیبوں کے ہاتھوں ایوارڈ واپس کرنے کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا تھا ۔ صفدر میموریل ٹرسٹ( سہمت) نے آج53مورخین کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں جواہر لعل نہر و یونیورسٹی( جے این یو) دہلی یونیورسٹی ، کولکاتا یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی سے وابستہ مورخین ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ کبھی کسی کتاب کے اجراء کے موقع پر چہرے پر کالک پوت دی جاتی ہے تو کہیں محض افواہ کی بنیاد پر کسی کا قتل کردیاجارہا ہے ۔ ایسی صورت میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں ایسا ماحول قائم کرے جس میں کوئی بھی شخص بلا خوف اپنی بات کہہ سکے اور ملک کی کثیر جہتی ثقافت اور روایات کا تحفظ ہوسکے ۔
پٹنہ، ممبئی سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب عدم رواداری کے ماحول کے خلاف دانشوروں کے ایک طبقہ کے بڑھتے ہوئے احتجاج اور ایوارڈس کی واپسی سے لفظی تکرار شروع ہوگئی ہے اور مرکز نے ادعا کیا ہے کہ یہ احتجاج سیاسی محرکات پر مبنی ہے جب کہ ممتاز مصنفہ نین تارا سہگل نے کہا کہ مودی حکومت دہل گئی ہے ۔ ایک ایسے وقت جب کہ مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی اپنے اس ریمارک پر قائم رہے کہ مصنفین ، فنکاروں، فلمسازوں اور سائنسدانوں کا احتجاج مصنوعی بغاوت ہے ، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے احتجاج کو سیاسی سازش قرار دیا اور سوال کیا کہ یہ افراد اس وقت کیا کررہے تھے جب کانگریس کے اقتدار میں فرقہ وارانہ فسادات ہورہے تھے ۔ کانگریس کے لیڈر آنند شرما نے ارون جیٹلی کے مصنوعی بغاوت ریمارک کے بارے میں کہا کہ اس سے تنقید پر عدم رواداری کی ذہنیت ظاہر ہوتی ہے ۔ جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل نے ممبئی میں کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ حکومت دہل گئی ہے اور اس شدید عوامی رد عمل پر مایوس ہوگئی ہے اور ایسا طریقہ اختیار کررہی ہے جو دانشورانہ نہیں ہے ۔ سہگل نے کہا کہ نہتے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر ملک برہم ہے ۔

Protests against religious intolerance get bigger, 53 historians raise voice against PM Modi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں