قصہ ایک مشاعرہ ساز شاعر کا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-25

قصہ ایک مشاعرہ ساز شاعر کا

munawwar rana
صوبہ بنگال سے تعلق رکھنے والے میرے ایک عزیز دوست نذر الاسلام (عرف نذرلؔ دا ) اپنی نو عمری میں ٹیبل ٹینس کے ایک اچھے کھلاڑی تھے۔ اسکول کی سطح پر کھیلتے ہوئے انھوں نے سب جونیر ٹیم میں بنگال کی نمائندگی بھی کی تھی۔ ٹیبل ٹینس کے علاوہ کرکٹ، ہاکی اور بیڈمنٹن جیسے اسپورٹس سے بھی انھیں گہرا لگاؤ تھا، اور ان کھیلوں سے متعلق وہ گھنٹوں سیر حاصل گفتگو کرتے۔ البتہ ایک انتہائی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان کی زبان پر کبھی حرف غلط کی طرح بھی فٹ بال جیسے مقبول عام کھیل کا ذکر نہیں آتا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے کسی اسپورٹس کے شیدائی کی زبان پر فٹ بال کا نام بھی نہ آئے، اس سے زیادہ حیرت انگیز بات اور کیا ہوسکتی ہے! چنانچہ میں نے ایک دن ان سے اس عجیب و غریب رویے کا سبب جاننا چاہا تو پہلے انھوں نے ٹال مٹول کرنے کے انداز میں انتہائی مختصر سا جواب یہ دیا کہ بس یوں ہی مجھے فٹ بال کے کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی اس مجمل بات سے میری تسلی نہیں ہوئی کیونکہ صوبہ بنگال، جسے پورے ہندوستان میں فٹ بال کا مرکز تصور کیا جاتا ہے اور فٹ بال کی دنیا کا بے تاج بادشاہ پیلےؔ (Pele) اہل کولکاتا کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کا مہمان بننے میں خوشی محسوس کرتا ہے، اس دیار کا ایک باشندہ جو کھیل کود کی دنیا سے گہرا لگاؤ بھی رکھتا ہو، فٹ بال کے کھیل سے اس طرح لاتعلق کیونکر ہوسکتاہے!
جب میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ استفسار کیا تو مجبور ہوکر نذرلؔ دا نے انتہائی تاسف کے ساتھ جو کچھ بتایا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسکول کی طالب علمی کے زمانے میں انھیں فٹ بال کے علاوہ کسی دوسرے کھیل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، دن رات وہ اپنے تصور میں یہی تانے بانے بنتے رہتے کہ ایک دن وہ شہر کولکاتا کے کسی بڑے فٹ بال کلب یعنی محمڈن اسپورٹنگ، موہن بگان یا ایسٹ بنگال وغیر ہ میں سے کسی ایک کی نمائندگی کریں گے۔ (جی ہاں ان دنوں محمڈن اسپورٹنگ کا شمار بھی بڑے کلب کے زمرے میں ہوتا تھا!) اسی خواب و خیال میں غرق ایک دن وہ اپنے محلے کے پارک میں پورے جوش و خروش کے ساتھ دوستانہ میچ کھیل رہے تھے ۔محلے کے کچھ بزرگ حضرات وقت گزاری کے طور پر بچوں کے کھیل سے محظوظ ہو رہے تھے۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے کھیل کے بعد 'لیمن بریک' ہوا تو پسینے میں شرابور نذرل دا بھی کسی منجھے ہوئے پروفیشنل کھلاڑی کے سے انداز میں نیبو پانی سے اپنا گلا تر کرنے لگے۔ اسی بیچ انتہائی شفقت سے کسی بزرگ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کے ابو کا نام وغیرہ پوچھا۔ نذرلؔ دا نے پوری وضاحت سے سب کچھ بتا دیا، شاید مذکورہ بزرگ کوان کاکھیل بطور خاص پسند آیا تھا۔
رسمی گفتگو کے بعد ان بزرگ نے بہت ہی پیار کے ساتھ یہ کہا کہ میں پورے آدھ گھنٹے سے صرف تمھارا ہی کھیل دیکھ رہا تھا۔ یہ خوش کن جملہ سننے کے بعد نذرلؔ دا کی جو کیفیت رہی ہوگی وہ سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کی یہ کیفیت لمحاتی ثابت ہوئی، کیونکہ اس کے فوراً بعد ہی ان بزرگ نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں نذرلؔ دا سے اپنا اگلا اور آخری سوال ان الفاظ میں کیا :
"پورے آدھ گھنٹے تک تمھارا کھیل بغور دیکھنے کے باوجود میری سمجھ میں یہ نہیں آسکا کہ تم کس ٹیم کی جانب سے کھیل رہے تھے !"
ظاہر ہے نذرلؔ دا کے پاس اس کا کوئی معقول تو کیا، نامعقول جواب بھی نہیں تھا،چنانچہ اپنی جگہ کھڑے کھڑے سیدھے پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کو کریدنے لگے، اور اسی خفت زدہ حال میں انھیں چھوڑ کر وہ بزرگ ایک معنی خیز تبسم کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
نذرل دا نے قدرے جذباتی لہجے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مجھے بتایا کہ اس المناک 'لیمن بریک' کے بعد پھر میں نے فٹ بال کا نام نہیں لیا!

اپنے دیرینہ دوست نذرلؔ دا کی مذکورہ بھولی بسری کہانی مجھے دو ایک دن قبل اُس وقت یاد آئی جب اردو کے ایک ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ( مشاعرہ ساز) شاعر نے دوسری زبانوں کے ان شعرا اور ادبا کو 'Outdated ' (یعنی فرسودہ) قرار دیا جنھوں نے 'دادری سانحہ' پر احتجاج درج کراتے ہوئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈز واپس کیے تھے۔ شاعرموصوف کی اس ' فرسودہ' گوئی پر ابھی چہ میگوئیاں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک انھوں نے 'یو ٹرن' لیتے ہوئے ایک لائیو ٹیلی ویزن شو کے بیچ پورے تام جھام کے ساتھ اپنے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کو واپس کرنے کا اعلان کردیا اور نذرلؔ دا کے فٹ بال کھیلنے کے سے انداز میں 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی' والی صورت حال پیدا کر دی۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکت ا ن سے پہلی بار سرزد ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے پچیس تیس برسوں سے وہ مشاعروں میں (بہ بانگِ دہل) جو کچھ سناتے رہے ہیں اس کا بیشتر حصہ شاعری سے تعلق رکھتا ہے یا اداکاری سے، یہ معاملہ بھی 'بوجھو تو جانیں' کے زمرے میں آتا ہے۔

بات اداکاری کی آئی تو یاد آیا کہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں شاعر مذکور اُس وقت کے ایک مقبول فلمی اداکار کے انداز میں ڈائلاگ اداکرنے کی خوب کوششیں کرتے لیکن افسوس کہ ان کی نقل، اصل کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی اور بددل ہوکر انھوں نے ڈائیلاگ ادائیگی کے اس شو ق کو خیر باد کہہ دیا۔ بعد ازاں جب 'بے کار مباش ، کچھ کیا کر' والی صورت حال پیدا ہوئی تو اس سے نمٹنے کے لیے وہ شعر گوئی کے میدان میں اپنی نقل کو اصل ثابت کرنے کی کوشش (بلکہ جدوجہد) میں تن من اور ۔۔۔۔ دھن سے جٹ گئے۔ کسی بھی میدان میں جب انسان پوری مستقل مزاجی سے (اور وہ بھی تن من اور دھن کے ساتھ) لگ جاتا ہے تو اس کی یہ محنت ضائع نہیں جاتی اور دیر یا سویر ، اسے 'کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ' حاصل ہو ہی جاتا ہے، سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا !
۔۔۔اب کوئی یہ پوچھے کہ 'یہ کیا غضب ہوا ،یہ کیسے کب ہوا' .... تو اس سلسلے میں کسی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں، کہ عیاں را چہ بیاں !
جہاں تک شاعر محترم کی متذکرہ 'فرسودہ ' بیانی کا معاملہ ہے، تو اسے سنجیدگی سے لینے کی گنجائش ہے اور نہ ضرورت ،کیونکہ یہ تو ان کی شاعری کی طرح بالکل بے ضرر قسم کا ایک جملہ ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاعر موصوف فوراً ہی اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کر کے خود کو ' فرسودہ' لوگوں کی صف میں کیوں شامل کر لیتے!

The story of a poet. - Article: Arshad Kamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں