تن کی بات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-25

تن کی بات

cow urine
گزشتہ دنوں ہمارے ایک مرکزی وزیر نے پیشاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑے بیش قیمت مشورے دیئے جسے ہم وزیرِ اعظم کی "میک اِن انڈیا"تحریک کا توسیعی حصہ مانتے ہیں۔ظاہر ہے مذکورہ تحریک کی کامیابی کا سارا دارومدار ہمارے قدرتی بلکہ "جسمانی" وسائل کے دانش مندانہ استعمال پر ہے۔وزیر موصوف کے اس انقلابی و اجتہادی نظرئیے پر کچھ لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تو کچھ کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ کچھ زیرِ لب مسکرائے تو کچھ کھلکھلا اُٹھے۔لیکن ہمیں یقین ہے ہمارے سابق وزیرِ اعظم مرارجی ڈیسائی کی روح "بلبلا" اٹھی ہوگی۔حیف، ان کے رشتے داروں سے اتنا نہ ہو سکا کہ کم از کم وزیرِ مذکور پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہی دائر کر دیتے۔
لیکن ہم بہرحال سارا کریڈٹ وزیر موصوف کو ہی دیں گے جنہوں نے اس re-discovery سے قوم و معاشرے کو فیض پہنچانے کا بیڑہ اُٹھایا ورنہ سابق وزیرِ اعظم تو اپنی اس دریافت سے ساری زندگی چپکے چپکے خود ہی استفادہ کرتے رہے۔ وزیرِ مذکور نے سائنس دانوں کی طرح مرحلے وار پہلے مفروضہ، پھر نظریہ اور تب کلّیہ پیش نہیں کیا بلکہ ایک ہی بار میں اپنے "باغیچہ گاہ" میں اسے ثابت کر کے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ انہوں نے "پیشابپاشی" کے ذریعہ ایسی سبزیاں اور پھل اُگائے کہ ریلائنس فریش والوں کے چہروں پر مُردنی چھا گئی۔انہوں نے پیشاب کو مکمل اور بہترین کھاد بتایا جس میں پودوں کی صحیح نشوونما اور اچھی فصل کے لیے تمام ضروری اجزاء شامل ہیں۔ ہمیں بھی یقین ہے کہ اس "پیشابیانہ" اندازِ فکر کے نتیجے میں کسانوں کی حالت اچھی ہو نہ ہو مگرفصل اچھی ضرور ہوگی۔ البتہ اگر اسے تحریک کی شکل دے دی جائے تو شاید درختوں کی شاخوں پر اتنے پھل لٹکیں گے کہ غریب کسانوں کو ان سے لٹکنے کی ضرورت نہ رہے۔
لیکن اس تحریک کے شروع ہوتے ہی اپوزیشن بھی متحرک ہو جائے گی اور بدیس سے کالا دھن واپس لانے کا مطالبہ بھول کر "سووَچھ بھارت" کے نام پر پورے ملک میں ٹائیلیٹ کی تعمیر پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپیوں کا حساب طلب کرنے کی تحریک شروع کر دے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیر موصوف کی "پیشابرانہ" قیادت اپوزیشن کی اس تحریک کی نہ صرف ہوا نکال دے گی بلکہ حکومت کو گھیرنے کی حزبِ اختلاف کی کوششوں پر "پیشاب" پھیر دے گی۔وزیر موصوف کی "نجی پیشاب بینک" کے طرز پر تمام ٹائیلٹس کوحوض کی شکل دے دی جائے گی جہاں شب و روز تمام افرادِ خانہ اپنا مثانہ خالی کریں گے۔پھر بوقتِ ضرورت اس اسٹاک سے مطلوبہ لیٹر یا گیلن خرچ کئے جائیں گے۔اگر فیملی میں ذیابطیس یا پروسٹیٹ کے مریض زیادہ ہوئے تو پڑوس کے غریب کسانوں کی بھی مدد ہو جائے گی۔
اس "مادۂ زرخیزی" کو مقبولِ عام بنانے اور اس کا زیاں روکنے کے لئے کئی اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً کارپوریشن کی عمارت کی دیواروں پر "یہاں پیشاب کرنا منع ہے" لکھا ہونے کی بجائے موٹے لفظوں میں یہ عبارت تحریر ہوگی: "اس دیوار پر تجریدی آرٹ کا مظاہرہ کرنے سے بہتر ہے کسی قریبی سرکاری یا غیر سرکاری 'پیشاب بینک' میں اپنا اکاؤنٹ کھلوالیں...یاد رکھیں، آپ کی طرف سے چند بوتلیں ایک کسان کو زہر کی شیشی سے دور رکھ سکتی ہیں۔"
چھوٹے کنبے والے کسانوں کو درپیش پیشابپاشی کے مسئلے کے حل کے لئے "پیشاب عطیہ کیمپ" کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے جہاں ذیابطیس اور پروسٹیٹ گلینڈ کے مریضوں کے ساتھ ساتھ شیر خوار بچوں کے لیٹنے کا الگ سے خصوصی انتظام ہوگا اور وہاں جلی حرفوں میںلکھا ہوگا:"No Diaper Zone" ۔ ڈائپر بنانے والی کمپنیوں کو بھی مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے ہر پروڈکٹ پر واضح لفظوں میں "ضروری ا نتباہ: ڈائپر کا استعمال زراعت کےلیے مضر ہے" لکھنا نہ بھولیں۔
اگر کسی خطّے میں خشک سالی کی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو فلاحی تنظیمیں بڑی تعداد میں رضاکاروں کو بھی اکٹھا کر سکتی ہیں اور اجتماعی "پیشابپاشی" کا پروگرام بھی منعقد کروا سکتی ہیں۔رضاکار کھیتوں میں متوازی قطاروں میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو کر " ڈانڈیا" کا مزہ بھی لے سکتے ہیں، بس اتنا دھیان رکھتے ہوئے کہ ہولی کی طرح ایک دوسرے کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
بڑی بڑی شخصیات کے ہاتھوں اب سنگِ بنیاد رکھنے کے بدلے پودے لگائے جانے کا چلن عام ہو گیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں ایسے موقعوں پر منتظمین آگے سے ہی پودا لگا کر رکھیں گے، اور مہمانِ خصوصی کے آتے ہی ان کی ضیافت چکن تکّہ، برگر اور پزّہ سے کرنے کی بجائے لسّی، شربت، لیموں پانی اور مختلف اقسام کے کولڈ ڈڑنکس پلا پلا کر افتتاحی پروگرام کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ پھر مہمانِ خصوصی کے کھڑے ہوتے ہی ان کے گرد بھیڑ لگائے ہوئے لوگ تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیں گے اور "رسمِ سنگِ بنیاد" ادا ہو جائے گی۔
شادی کی بڑی بڑی تقریبات میں سوٹ بوٹ زیب تن کئے مہمان جب میزبان کو اپنی چھوٹی انگلی دکھائیں گے تو میزبان اپنی شہادت کی انگلی سے کمپاؤنڈ کے ایک دور والے گوشے کی طرف اشارہ کرے گا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب یہ مہمان پنجوں کے بل کپکپاتے پیروں سے واپس آ کر اطلاع دیں گے کہ انہیں وہ جگہ ملی ہی نہیں تو میزبان حیران ہو کر کہے گا: "کیا بات کر رہے ہیں؟آم، امرود، جامن اور کٹھل کے پیڑ تو یہیں سے نظر آ رہے ہیں۔آپ کہیں بھی فارغ ہو لیں۔ البتہ دوسرے گوشے کی طرف ہر گز نہ جائیں۔ وہاں گلاب، چنبیلی اور رات کی رانی کے پودے ہیں۔ سر پر سینڈل پڑنے کی صورت میں، میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔"
اس قومی اثاثے کے تحفظ کے لئے کچھ نئے قوانین بھی بنائے جائیں گے۔ اگر کوئی کھلے عام سڑک کے کنارے اس "سنہری رقیق" کو ضائع کرتا ہوا نظر آئےگا تو پولیس اسے فوراً گرفتار کر لے گی۔ پھر متعلقہ دفعات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ اب یہ ثابت کرنا اس کے وکیل کی ذمہ داری ہوگی کہ "جائے واردات" سے سب سے قریبی "پیشاب بینک" اتنی دوری پر تھا کہ اس کے مؤکل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ سرِ عام اپنی عزت نیلام ہونے سے بچنے کے لئے قانون شکنی کو ترجیح دے۔اگر عدالت میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ ملزم نے اپنی عزت بچانے کی خاطر قانون توڑا تھا تو اسے باعزت بری کر دیا جائے گا۔اس سلسلے میں وکلا ذیابطیس یا پروسٹیٹ کی بیماری کے نقلی میڈیکل سرٹیفیکٹس بھی بنوا کر پیش کر سکتے ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں "پیشابیات" کے نئے شعبے کھولے جائیں گے۔تحقیقی اداروں میں پیشاب کی مقدار و معیار میں بہتری لانے کے مختلف امکانات پر ریسرچ کئے جائیں گے۔جنرل اسٹورس میں پیشاب کی کئی اقسام دستیاب ہوں گی۔ مسلم ممالک سے امپورٹ کی گئی پیشاب سب سے زیادہ مہنگی ہو گی کیوں کہ گوشت یا بیف زیادہ کھانے کی وجہ سے ان پیشابوں میں نائٹروجن کی فیصدی مقدار زیادہ ہوگی۔ بلکہ اس تناظر میں مسلم پرسنل لا میں چند اہم ترمیم و اضافہ بھی کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً مسلمان بھلے ہی PUC یعنی پولیوشن انڈر کنٹرول سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ نہ لئے پھریں مگر NUC یعنی نائٹروجن انڈر کنٹرول سرٹیفکیٹ ہمہ وقت ساتھ رکھنا لازمی قرار دیا جائے گا تاکہ ان کے فریج میں رکھےگوشت کی لیباریٹری ٹسٹ کرانے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے، جیب میں رکھے سرٹیفکیٹ سے ہی کام چل جائے۔
***

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 09830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Tan ki baat - Humorous Essay: Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں