بہار اسمبلی انتخاب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ان علاقوں میں آخری ووٹنگ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مسلمان فیصلہ کن حالت میں ہیں یا وہ جس پارٹی کے حق میں ووٹنگ کریں گے اسی کا امیدوار فتح یاب ہوگا۔ بہار کے مسلمان دوسرے صوبوں کے مقابلے زیادہ حساس ہیں۔ اس کا ثبوت گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران انہوں نے دیا ہے جب سیمانچل خطے سے بی جے پی کا صفایا ہوگیا۔جس کی کسک بی جے پی کو ہے اور اس کی حیثیت ایک زخمی سانپ کی طرح ہے۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ وہ 'منوسمرتی' کے مطابق "دام ، سام، ڈنڈ ، بھید' کو اس انتخاب میں پوری طرح آزمایا ہے۔ جن ادھیکار مورچہ اور مجلس اتحاد المسلمین کا میدان میں آنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس الیکشن میں بی جے پی نے خزانہ کا دہانہ کھول دیا ہے۔ ایسی پارٹیوں کو بی جے پی ہیلی کاپٹر تک فراہم کر رہی ہے۔ جن ادھیکار مورچہ کا اس خطے میں اثر ہے ۔ پپو یادو خود بھی ایم پی ہے اور ان کی اہلیہ رنجیت رنجن بھی رکن پارلیمنٹ ہیں جس کا فائدہ پپو یادو ہوسکتا ہے۔ اسی کے لحاظ سے بی جے پی نے پپو یادو کو میدان میں اتارا ہے۔ اگر انہیں سیاسی پارٹی بنانی تھی وہ پہلے سے میدان میں قدم رکھتے لیکن الیکشن کے پہلے میدان میں قدم رکھنا اور وہ بھی کبھی ہاں کبھی ناں کی کیفیت سے یہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے کہ ڈور کہیں اور سے ہل رہی ہے۔ وقت اور حالات کے حساب سے ہدایت دی جارہی ہے۔ اسی طرح مجلس اتحاد المسلمین کا ورود بھی اسی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ بی جے پی کے اشارے پر میدان میں آئے ہیں لیکن حالات ، آثار ، قرائن یہی کہتے ہیں وہ بی جے پی کو اس خطے میں فتحیاب کرانے کے لئے آئے ہیں۔ کئی ذرائع نے اس کی تصدیق کی بھی ہے۔ اس کا کوئی تحریری ثبوت تو نہیں ہوتا کہ پیش کیا جائے لیکن آثارو قرائن سب سے بڑے ثبوت ہوتے ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کا رخ بھی یہی تھا وہ کہتے تھے کہ بہار میں وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ وہ مسلمانوں کو کمزور نہیں کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم ہونے دیں گے۔ لیکن آخر ایساکیا ہوا کہ وہ تال ٹھوک کر میدان میں آگئے۔ مجلس کے دوسرے بڑے لیڈر اکبر الدین اویسی نے یہاں آتے ہی اشتعال انگیز بیان دے ڈالا۔ مسلمانوں کو مضبوط کرنا تھا تو حکمت عملی اور لائحہ عمل سے کرتے لیکن انہوں نے پروین توگڑیا، آدیتہ ناتھ، سادھوی نرنجن جیوتی، شاکشی مہاراج اور دیگر ہندوتو کے علمبردار لوگوں کے صف میں شامل ہونے کو ضروری سمجھا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ وہاں کس کو فائدہ پہنچانے کے لئے آئے ہیں۔ ووٹوں کی صف بندی کرکے وہ مسلمانوں کے اس خطے کو آر ایس ایس کے گڑھ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو فائر برانڈ لیڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو سنجیدگی سے کام کرے اور ہر معاملے میں حکمت عملی اپنائے۔ ٹکرانے کے بجائے خاموشی سے کام کرے۔اس وقت ہمیں نہ صرف بہار کو بلکہ ملک کو بھی بچانا ہے۔ ایسے لوگوں کو مضبوط کرنے کا الزم متھلانچل یا سیمانچل کے لوگوں پر نہیںآنا چاہئے کہ ان لوگوں کی وجہ سے بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہوگئی۔ بہارمیں ا گر بی جے پی فتحیاب ہوگئی تو یہ سارا خط آر ایس ایس کا گڑھ بن جائے گا اور فرقہ پرستی کی زد میں آجائے گا۔ اس لئے کہ جہاں جہاں بی جے پی کا عروج ہوا وہاں فرقہ پرستی اور امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی حکمرانی والی ریاست بی جے پی، آ ر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے وابستہ ذیلی تنظیموں کے جرائم کو جرائم نہیں مانتی۔ بجرنگ، دل، گو رکشا دل، خواتین کی تنظیم درگا واہنی، ہندو سینا، رام سینا اور اس طرح کی ہندو انتہا پسند کی دیگر تنظیموں کی وابستگی کسی نہ کسی درجے میں سنگھ پریوار سے ہوتی ہے۔ اسی لئے پولیس اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی اور خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔متھلانچل اور سیمانچل کے مسلمان اور سیکولر حضرات یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے وحشیانہ حرکت بہارمیں بھی انجام دیا جائے ۔ بہار جوابھی اس طرح کی فرقہ پرستی سے بچا ہوا ہے وہ بھی اس کی زد میں آجائے۔ فیصلہ کرنا متھلانچل اور سیمانچل کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔ صحیح فیصلہ آپ کے مصائب کو کم کرے گا اور غلط فیصلہ آپ کا جینا دوبھر کردے گا۔
تیسرا محاذ ہو یا دیگر پارٹی اس کا مقصد ممبر اسمبلی بننا نہیں بلکہ ووٹوں کی تقسیم کرکے بی جے پی کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو کامیاب کرانا ہے۔لوک سبھا انتخابات کے دوران سیمانچل کا ایک امیدوار جو زبردست شکست و ہزیمت کے خوف سے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اس کا اثر بہار میں کیا ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے لوک سبھا میں پانچ چھ مسلم امیدوار کم فرق سے ہار گئے تھے۔ ایسے نام نہاد مجاہد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ میدان سے ہٹنا ہی تھا تو خاموشی سے ہٹ جاتے لیکن انہوں نے میڈیا کے سہارے سیمانچل سے باہر اس کی خوب تشہیر کی۔ نتیجہ یہ ہوا ہندو ووٹوں کی صف بندی (پولورائزیشن) ہوگئی اور مسلم امیدوار ہار گئے۔ یہی چال اس بار بھی چلنے کی تیاری کی گئی ہے۔ بہت سے امیدوار اس لئے انتخاب میں اترتے ہیں تاکہ وہ زندہ ہونے کا ثبوت دے سکیں اور اپنی زندگی کے گزرو بسر کے لئے کچھ پیسے کما سکیں اورایسے امیدواروں کو فرقہ پرست پارٹی فنڈنگ کرتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ کاٹ سکیں۔ مسلمانوں کو اس خطے میں بے وقعت بنانے کے لئے تمام تر کوششیں کی گئی ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے نام پر اپنے کارندے چھوڑ رکھے ہیں۔ وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ کیا آپ اپنا کام نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو ہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔ پہلے ، دوسرے مرحلے میں حوصلہ افزاووٹنگ عظیم اتحادکے حق میں گئی ہے۔مسلمانوں نے عام طور پر اپنا ذہن عظیم اتحاد (مہاگٹھبندھن) کے حق بنالیا ہے۔ لیکن جب تک یکطرفہ طور پر سیکولر طاقتوں اور عظیم کے اتحاد کے حق میں نہیں ہوگی اس وقت امید افزا نتائج نہیں آئیں گے۔ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن میں علماء، صلحاء، مشائخ، دانشور، لیکچرر، پروفیسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حیات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، ریاست اور ملک میں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر فرض عین ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔اسی کے ساتھ تمام ذی ہوش مسلمانوں (جن میں علماء اور مسٹر دونوں شامل ہیں) کی ذمہ داری ہے وہ اپنے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے مجموعی مفادات کے بارے میں سوچیں اور ان ہی امیدوار کی حمایت کریں جو مسلمانوں کے لئے کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور اپنی نمائندگی کسی طرح بھی کم نہ ہونے دیں۔یہاں مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر امیدوار کو منتخب کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں ، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں یا آئے یا بی جے پی ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ یاد رکھئے ایک دن کی نادانی آپ کو سیکڑوں سال پیچھے چھوڑدے گی۔یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے جب برا وقت آتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کس کی ٹوپی اونچی ہے کس کی نیچے، کون قبر پرست ہے کون نہیں ہے۔ ان طاقتوں کے سامنے صرف مسلمان ہوتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ، مسلک، نظریہ ماڈرن اور الٹراماڈرن مسلمانوں سے ہو سب کو ایک ہی نظر دیکھاجاتا ہے۔ جس طرح گولی کسی کی تمیز نہیں کرتی اسی طرح یہ طاقتیں بھی کسی مسلک میں تمیز نہیں کرتیں۔ لہذاان ریاستوں کے مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔مسلمان متحد ہوکر ووٹ ڈالیں اور ہر مسلمان ووٹ ڈالنا اپنے اوپر فرض کرلیں۔ الیکشن کے دن شو بازی سے گریز کریں۔کسی کو یہ نہیں دکھنا چاہئے کہ سارے مسلمان ووٹ دینے کے لئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
Political scenario of Bihar Bihar Legislative Assembly election, 2015. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں