عبادات کی نقدی اور معاملات کا جرمانہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-05

عبادات کی نقدی اور معاملات کا جرمانہ

good-manners
مسجد نبوی میں ظہر کی نماز پڑھ کر ہم باہر نکل رہے تھے۔ جہاں چپّل رکھی گئی تھی وہاں ہاتھ ڈالا تو ہماری چپل نہیں تھی۔ ساتھ میں جناب ِوسیم بریلوی اور جناب ِحبیب ہاشمی بھی تھے صحن میں چہار طرف تیز دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ زمین پر پیر رکھا تو دو ہی قدم پر واپس ہونا پڑا۔ ہمارے ساتھ ہی رام پور کے جواں سال گلریز میاں بھی مسجد نبوی سے باہر نکل رہے تھے۔ غالباً اُنہوں نے کسی مشاعرے میں ہمیں سُن رکھا تھا۔
کہنے لگے:کیا ہوا ندیم صاحب!
ہمارا جواب تھا: چپل نہیں ہے اور سامنے تیز دُھوپ ہے۔
گلریز میاں جو مسجد نبوی سے قریب ہی واقع اوبیرائے ہوٹل میں کھجور کے ایک اسٹال کے منیجر تھے۔ اُنہوں نے فوراً اپنے کسی ساتھی سے کچھ کہا اور وہ سامنے کے بازار سے ایک جوڑی چپل خرید لایا۔ ہم گلریز میاں کا منہ تک رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ندیم صاحب! پیروں میں ڈالیے۔ آپ کی چپل کوئی سہواً لے گیا ہوگا۔ یہاں کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے ۔ اسے چوری نہ سمجھئے۔ وہ کوئی بدقسمت ہی ہوگا جو یہاں چوری کرے۔

ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں کے ساتھ اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب قیام گاہ سے پہلی بار مسجد نبوی کےلئے نکل رہے تھے تو مشہور شاعر اور ہمارے برادرِ مکرم معراج فیض آبادی(مرحوم) نے تلقین کی کہ :
"مسجدِ نبوی کا احترام واجب ہے وہاں چپّل بھی زمین پر زور سے نہ رکھنا اور آپس میں گفتگو بھی انتہائی ضرورت ہی پرکرنا۔ اس مقام پر کسی طرح کا گِلہ شکوہ بھی عبث ہوگا۔ یہ شکوے کا مقام نہیں یہاں تو بس شکر ہی شکر ادا کرو اور ہو سکے تو یہاں سے واپسی پر بھی ہر طرح کے شکوے سے بچنا۔ یہ عمل کفران نعمت کے مترادف ہوگا۔ زِندگی میں پھر یہ موقع نصیب ہو، نہ ہو۔ ندیم! اپنی خوش بختی پر ناز کرو ناز کہ اللہ نے اپنے محبوب کے صدقے میں آپ کو یہاں پہنچا دِیا ورنہ میں نے نجانے کتنے اشخاص کو دیکھا ہے جو حسرت ہی لئے دُنیا سے رُخصت ہو گئے کہ ایک بار اُنکی بارگاہ میں حاضری نصیب ہوجائے۔"
یہ باتیں یاد آتی ہیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ معراج فیض آبادی کو اس کے بعد دوسری بار سفرِ حجاز نصیب نہیں ہوا۔ وہ دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی تلقین ہمارے لئے کسی احسان سے کم نہیں تھی ایسا نہیں کہ ہم احترامِ مسجدِ نبوی سے ناواقف تھے مگر اِن کی تلقین نے ہمیں خبردار کر دِیا ، مبادہ ہم کہیں کسی گستاخی کے مرتکب ہو جاتے۔

اس وقت بیساختہ ماہر القادری یاد آگئے جو اپنے رب کے کرم اور رسولِ کریم کے صدقے میں جنت المعلّیٰ کی خاک کا حصہ ہیں حجاز کی مٹی کی تمنا اور حسرت کس محب رسول کو نہ ہوگی!!
ماہر القادری نے مسجد ِنبوی کے احترام اور تقدس کو جس طرح اپنے ان دو مصرعوں میں بیان کر دیا ہے ،وہ ایک درخشاں مثال ہے اللہ ان کے درجات مزید بلند کرے:
یہ بارگہِ ناز رسولِ عربی ہے
پلکوں کا جھپکنا بھی یہاں بے ادبی ہے

اسی نعت میں ایک شعر میں "مدیرِ فاران" نے یہ بھی فرمایا:
دُشوار ہے دُشوار یہاں ہوش میں آنا
اور ہوش گنوانا بھی یہاں بے ادبی ہے

یہ باتیں ذہن میں گونجنے کا سبب منیٰ کا حالیہ حادثہ اور اس کے دیگر عوامل ہیں۔ کل ایک مضمون پڑھا تھا جس کی سرخی ہی یہی تھی کہ "ایک خامی جو شاید ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی"
اگر آپ " خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر " والا مزاج رکھتے ہوں تو اس تحریر کے نفسِ مضمون کا اندازہ ہوجائے گا۔

یہاں یہ بھی تذکرہ ہوجائے کہ لوگ حج کرنے جاتے ہیں ان میں سے سب نہیں مگر ایسے بڑی تعداد میں ملیں گے جو شاکی ہوتے ہیں کہ وہاں ہمیں یہ پریشانی ہوئی اور اس طرح ہمیں مشکلیں پیش آئیں۔ جبکہ ا للہ کی راہ میں مشکلیں تو ہمارے لئے گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور نیکی کا سبب بن سکتی ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ!!

ہم اپنا ایک تجربہ بھی یہاں بیان کرنا چاہیں گے کہ مومنین کا ایک گروہ محلّے کی مسجد سے عصر کی نماز پڑھ کر نکلا اور سڑک پر وہ لوگ مسکراتے باجماعت چل رہے ہیں، سڑک تنگ مگر وہ اِس تنگی سے بے نیاز ہیں ، دوسرے راہگیروں کی اُنھیں کوئی پروا نہیں۔ سامنے سے ہم آرہے تھے ، اِس گروہ کے پیچھے ایک آٹو رِکشہ اور موٹر سائیکل بھی اسی سمت سے آرہی تھی، اب ہمارے لئے مشکل تھی کہ ہم اپنے آپ کو کس طرح آٹو رِکشہ اور موٹر سائیکل سے بچائیں۔ کسی طرح ہم بچے مگر یہ واقعہ بھول نہیں پائے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جس مذہب میں نماز جیسی عام عبادت کےلئے بھی نظمِ صف کا حکم ہو۔ اس کے پَیرو عام زندگی میں کس طرح نظم و ضبط کے منکر ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے اگر آپ اپنے اردگرد کے ماحول پر توجہ کریں توآ پ خود اِس طرح کے مناظر دیکھ سکتے ہیں، بلکہ دیکھتے ہی ہونگے۔

بےشک سب ایک ہی جیسے مزاج کے لوگ نہیں ہوتے مگر، اوراس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر مذہبی رہبر ہمیں اللہ کی عبادت کے احکام سے تو ضرور مطلع کرتے رہتے ہیں مگر زِندگی کے معاملات سے وہ قصداً نہ سہی مگر کسی طور ہمارے عوام کو بے خبر رکھتے ہیں۔ جبکہ اللہ کے ہاں سب سے پہلے "معاملات" ہی میں ہم پکڑے جائیں گے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جارہی ہے۔ ہم سب اگر اپنے عام معاشرے کی طرف بغور دیکھیں تو مسجدیں بھری ہوئی ہیں اور زِندگی کے معاملات میں عام طور پر ہم صاف شفاف نہیں ہیں۔ ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں وہ ہم میں سے کتنے ہونگے جو ادا کرتے ہوں یا ادائیگی میں سنجیدہ ہوں۔ ہم میں سے اکثر ایک دوسرے کے شاکی ملیں گے مگر ہمیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ہم کسی وقت اپنا بھی محاسبہ کریں کہ ہم نے کیا کِیا اور ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا۔
دینِ حنیف کی گاڑی کے دو پہئے ہیں معاملات اور عبادات!
ان دونوں میں کہیں بھی اور کسی بھی طرح کی کوتاہی ہوئی تو ہماری گِرِفت ہونی ہی ہونی ہے اور عبادات کی نقدی سے معاملات کا جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
اب ہم جو چاہیں سود ا قبول کریں !!

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Penalty on manners and dealings. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں