جاوید نہال حشمی - ایک ہمہ جہت فنکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-31

جاوید نہال حشمی - ایک ہمہ جہت فنکار

jawed-nehal-hashami
فوٹو گرافی کا شوق، اردو مجلسوں میں اس زاویے سے تصویر لینے کی کوشش کہ کوئی نہ چھوٹے ، اور خود منظر سے غائب۔۔۔ مگر مجلسوں میں ان کی گہری چھاپ۔۔۔یہ چھاپ کبھی افسانے کی، کبھی طنزو مزاح تو کبھی محض ناظر و منتظم کے نمایاں ہے۔
تذکرہ ہے مرحوم حشم الرّمضان کے صاحب زادے جاوید نہال حشمی کا، گویا ہونہار بروا کے چکنے پات ۔۔۔

ان کی پیدائش 17/مارچ 1967ء کانکی نارہ (مغربی بنگال) میں ہوئی۔ بی ایس سی آنرز (زولوجی)، کلکتہ یونیورسٹی، بی ایڈ، بی اے (انگلش)، ڈپلوما اِن سافٹ وئیر ٹیکنولوجی۔۔۔اتنی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی مضطرب ہیں کہ مزید کون سی ڈگری حاصل کروں۔ بھائی آپ بھلے ہی اور ڈگریاں حاصل کرلیں، ہم تو منتظر ہیں اس دن کے کہ جب آپ کو ایک اچھا افسانہ نگار کی سند مل جائے۔ ساتھ ہی افتخار حاصل ہوبہترین استاد کا کہ آپ مدرسہ عالیہ سے منسلک ہیں، اور اس بیمار اسکول کو آپ جیسے فعال ٹیچر کی ضرورت تھی۔

اپنی ادبی زندگی کا سفرافسانہ "سنہرا خواب" سے شروع کیا، جو پیام تعلیم (نئی دہلی) مئی 1981ء کے شمارے میں شائع ہوا۔۔۔پھر انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا ، اور افسانے کو اپنا ہم سفر بنایا۔ اگر دیکھتے تو شاید ڈراما "رجنی" انہیں روک لیتا،کہ جس نے انٹر اسکول ڈراما مقابلے میں اوّل انعام حاصل کیا تھا۔
کاش، آپ نے 'رجنی' کی آواز سُنی ہوتی تو اُردو ادب کو ایک اچھا ڈراما نگار مل جاتا۔ اب کیا کیجئے کہ افسانے میں بلا کی کشش ہے کہ ہر نثر لکھنے والا اس صنف کو ہی اپنانا چاہتاہے۔
ان کا ایک افسانہ "روبوٹ "ہے۔ خوبصورت افسانہ ہے۔ اگر اس افسانے کو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رویّوں کا درمیانی افسانہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ یہ نیم علامتی اور بیشتر بیانیہ ہے۔ اور ان دو رویّوں کے درمیان یہ افسانہ کچھ کمزور ہو کر رہ گیا ہے۔ دراصل افسانہ نگار حیران ہے کون سا طرز اپنائے کہ اسے قاری سے بھی جُڑے رہنا ہے:
"۔۔۔تمہارے جسم کی تمام ہڈّیاں اسٹیل میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تمام اندرونی اعضا بھی اسٹیل کے ہو چکے ہیں۔ لیکن دل ابھی تک اپنی اصلی حالت میں ہے۔ اندازہ کر سکتے ہو کہ اسٹیل کی پسلیوں پر گوشت پوست کے دل کے مسلسل ٹکرانے سے اس کی کیا حالت ہو رہی ہوگی۔اس کی دیواروں کے ریشے بکھر رہے ہیں۔تار تارالگ ہو رہے ہیں۔ اگر یہ صورتِ حال مزید کچھ عرصے تک جاری رہی تو دل کی دیواروں کی دھجّیاں اُڑ جائیں گی۔۔۔"
اور جب افسانہ اختتام کو پہنچتا ہے اور افسانہ نگار اسکول سے نکل کر ٹرام پر سوار ہوا تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسکول کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے جب کہ ٹرام کی گھنٹی کی ڈور جھول رہی ہے۔۔۔تو پھر یہ گھنٹی کی آواز۔۔۔؟
"۔۔۔اس آواز کے ساتھ ہی ایک اور حیران کن تبدیلی نےمجھے مسرّت آمیز احساس سے سرشار کر دیا۔
میرے جسم اور سینےکے ہر درد کا احساس فنا ہو چکا تھا!!"

اب اُردو افسانے میں جاوید نہال حشمی کو کیا مقام حاصل ہوگایہ تو ان کے افسانوی مجموعہ "دیوار" کے شائع ہونے کے بعد ہی کہا جا سکتاہے۔
بقول فیروز عابد: "جاوید نہال حشمی نہ مبلغ ہیں ، نہ ناصح۔ وہ ایک عام انسان ہیں جن کے دل میں خلوص ہےجو کسی بھی اِزم سے پاک ہے۔"

جواری، پرورش، لہو کادرد، دیوار، تھرڈ امپائر، چوینگم وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو قاری کی توجہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ مزید مطالعہ و مشاہدہ ان سے کئی شاہکار افسانے لکھا لے گا کیوں کہ ان کے اندر ایک اچھا افسانہ نگار بننے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے۔
افسانوں کے علاوہ جاوید نہال حشمی نے طنز ومزاح اور ڈرامے پر بھی طبع آزمائی ہے۔ بیچ کا آدمی، ھائے ھائے یہ مجبوری۔۔۔وغیرہ شگوفہ (حیدرآباد) میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیچ کا آدمی کا یہ پیراگراف پڑھئے:
"۔۔۔بڑے بڑے مفکرین نے زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال پسندی کی تلقین کی ہے۔ لہٰذا جب کبھی آپ کسی متنازعہ معاملے میں کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں خطرہ محسوس کریں، بیچ کا آدمی بن جائیں۔دوسرے لفظوں میں، نظریات کے انتہائی سِروں میں سے کسی سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دونوں کے درمیان رہ کر میانہ روی کی مثال قائم کریں۔یعنی دونوں مخالف نظریات کی خامیوں کے ساتھ خوبیوں کی بھی نشان دہی کرتے جائیں، آپ کا موقف غیر واضح ہونے کے باوجود بالکل واضح رہے گا۔اس طرح آپ دونوں کی نگاہ میں سُرخ رو ہوں یا نہ ہوں، تبدیلئ موسم کے اثرات سے بالکل محفوظ رہیں گے۔ اس کے علاوہ خود کو "غیر جانب دار" اعلان کر کے آپ 'چمچہ' یا 'دلال' جیسے القاب سے نوازے جانے سے بھی بچ جائیں گے۔ ہماری حکومت اس حکمتِ عملی کی عالمی علم بردار ہے۔ آخر معاملہ چاہے فلسطین اسرائیل کا ہو یا ایران امریکہ کا ، تیل اور تیکنالوجی میں کسی کی اہمیت دوسرے سے کم نہیں۔۔۔"
اور پھر دوسرے پیراگراف میں ہی مضمون دوسرا رُخ اختیار کرتاہے:
"بین الاقوامی سطح پر انکل سا م نے تو ان بیچ کے آدمیوں کی ہوا ہی نکال دی تھی، یہ کہہ کر کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپ یاتو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر دہشت گردوں کے ساتھ۔"

جاوید نہال حشمی نے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ڈراما "رجنی" مرشدآباد میں اسٹیج ہو کر انتہائی مقبول ہوا۔ اس کے کئی اور شوز کے بھی آفر ملے۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں مدرسہ عالیہ کے زیرِ اہتمام انٹر اسکول مقابلہ میں اوّل انعام حاصل کرنے کے علاوہ مولانا آزاد کالج میں بھی یہ دو بار اسٹیج ہوا۔ پورے ڈراما میں رجنی کون ہے یہ تحیر برقرار رہتا ہے اور کلائمکس میں جب ناظرین کے سامنے رجنی آتی ہے تو سبھوں کی بےساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ یہ مزاحیہ ڈرامے کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
ڈرامے میں ہریا کی زبان مختلف رکھ کر ڈراما نگار نے نہ صرف ڈراما کو دلچسپ بنایا ہےبلکہ اس کردار کو نبھانے میں اداکار کو معاونت بخشی ہے، ملاحظہ فرمائیے ڈرامے کا ایک مکالمہ :
ہریا: (حیرت اور مسرت آمیز لہجے میں) ارے سنجو بیٹوا؟___ تو وکیل کب سے ہوئے گوا رے؟ہم کو پہچانا؟___ہم توہار دوست رام کھلاون کے بابا۔ (جج کی طرف مڑتے ہوئے) جج صاحیب، ان سے ملیو____ ای ہمار گاؤں کے ماسٹر دینا ناتھ کا لڑکا____بڑا ہون ہار لڑکا ہے___اب تو ہم ای مکدّمہ جرور جیتیں گے۔ آکھر ہمار طرف سنجو بیٹوا جو ہے۔۔۔

ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں طنزیہ و مزاحیہ سیاسی کارٹون 'پوسٹ مارٹم' کے عنوان سے جاوید نہال حشمی اخبارِ مشرق پر مسکراہٹ بکھیرتے رہے۔ اردو اور انگریزی زبان میں کئی سائنسی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔
جاوید نہال حشمی کا ادبی سفر ہنوز جاری ہے۔ ابھی طبیعت کی جولانی اگر مختلف پگڈنڈیوں پر چلنے پر اکساتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔وقت ان کے قدم کو خود ایک راہ پر گامزن کر دے گا اور یقیناً وہ راہ افسانے کی ہی ہوگی۔
**

Jawed Nehal Hashami, a versatile writer. Article: Kamal Ahmed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں