لکھنو کی حسین و دلکش تاریخی عمارتیں حکام کی بے توجہی کا شکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-17

لکھنو کی حسین و دلکش تاریخی عمارتیں حکام کی بے توجہی کا شکار

لکھنو
یو این آئی
لکھنو کو18ویں اور 19ویں صدی کے دوران اپنے بے مثال اور حیرتناک تعمیرات پر فخرو ناز ضروری ہے تاہم بد قسمتی سے آلودگی میں اضافہ ، غیر مجاز قبضہ، عدم نگہداشت اور دیگر کئی اسباب کے نتیجہ میں ایسی تمام عمارتیں اپنا حسن اور اپنی شناخت کھوتی جارہی ہیں۔ لکھنو کا رومی گیٹ عالم باغ کوٹھی گیٹ ، اکبری گیٹ ، گول گیٹ، چھوٹا امام باڑہ گیٹ، لائن گیٹ، لکھی گیٹ ، سکندر باغ گیٹ، اور واٹرگیٹ کے علاوہ کئی اور دیگر تعمیر نہ صرف گنگا جمنی تہذیب بلکہ ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان مضبوط بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بھی علامت تھیں۔ اگر آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا( اے ایس آئی) نے مغل تعمیرات کی ان حسین اور بے پناہ خوبصورت مثال کی نگہداشت کے اہم قدم نہ اٹھائے تو وہ دن دور نہیں جب ان مقامات کا تذکرہ صرف تاریخ کے صفحات کی زینت بن کر رہ جائے گا اور نہ صرف لکھنو بلکہ ریاست کی تاریخی اور بے مثال عمارتوں کی شناخت کہیں گم ہوجائے گی۔ لکھنو کے رومی گیٹ، آرٹ اور مغل تعمیرات کی بہترین مثال ہے جس کی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک تک پھیلی ہوئی ہے ۔ گیٹ غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کی دلکشی کا باعث ہے ، اور شعبہ سیاحت کی آمدنی کا23فیصد حصہ اسی گیٹ کے ذریعہ ہے۔ جسے نواب آسف اللہ نے1784میں تعمیر کرایا تھا جس کا مقصد قحظ کے دوران روزگار کے مواقع سے متعلق اطلاع فراہم کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم تیار کرنا تھا ۔ گیٹ کی تعمیر لاخودی اینتوں اور ذرد لائم اسٹون( چونے کے پتھر) سے ہوئی تھی ۔ اس کے برج(مینار) پرشٹ دھاتوں سے بنی ایک چھتری بھی ہے اور برج تک پہنچنے والے زینوں کی تعمیر و آرائش بھی اسی سے ہوئی ہے ۔ اے ایس آئی نے ان تعمیرات کی خصوصی نگہداشت پر توجہ مرکوز کررکھی ہے ۔ آرکیو لوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس کے نیچے سے بھاری گاڑیوں کی روانی پر امتناع کا مشورہ بہت پہلے دیاجاچکا ہے کیوکہ بارش سے18 ویں کا ورثہ بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ گیٹ کا رنگ بھی دھوئیں سے اب سیاہی مائل ہوچکا ہے ۔ اس سے ہوکر گزرنے والی موٹروں سے خارج ہونے والا دھواں اس کی خوشنمائی پر بدنما داغ چھوڑنے مین کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہا ۔ بے شک اس کی نگہداشت کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ چند روز قبل ایک سروے سے معلوم ہوا کہ روزانہ20ہزار گاڑیاں اس گیٹ تلے سے گزرتی ہیں جب کہ بوقت تعمیر اس کے نیچے سے تانگوں ، ٹھیلوں اور بیل گاڑیوں کے علاوہ کوئی اور گاڑی نہیں گزری تھی۔ اے ایس آئی سیوریج کے لئے یہاں زمین کی کھدائی اور محکمہ آب رسانی کی جانب سے کیبلس اور پائپس بچھانے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے کیونکہ گیٹ کی بنیادیں ایسے امور سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں اس کے باوجود ہدایت نامہ جاری کئے جانے اور انتباہ کے باوجود متعلقہ محکمے باز نہیں آئے اور وقفہ وقفہ سے اسی نوعیت کے امور جاری رہے ہیں ۔ بیگم حضرت گنج محل پارک کے آخری سرے پر واقع لائن گیٹ1857کے غدر کے دوران انقلابیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا ۔ لکھنو، کانپور روڈ پر قائم ایک اور شاہی گیٹ ، آزادی ہند کے متوالوں اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا قصیدہ خواں ہے جو پھانسی گیٹ کی عرفیت سے بھی مشہور ہے کیونکہ یہاں مجاہدین آزادی کو پھانسی دی جاتی تھی۔ قیصر باغ برادری کے مغربی سرے پر دو گیٹس ہیں جن سے قیصر باغ محل کا حسن دوبالا ہوتا ہے ۔ ان باب الداخلوں (گیٹس) کی تعمیر1850میں نواب واجد علی شاہ نے کرائی تھی ۔ ان کی تعمیر پر ایک لاکھ روپوں کے مصارف آئے تھے جس کی بنا پر انہیں لکھی گیٹس بھی کہاجاتا ہے ۔ عہد واجد علی شاہ میں ان دروازوں پر اودھ کا پرچم لہرایاکرتا تھا تاہم اب اپنی خستہ حالی کے سبب یہ سیاحوں کی دلکشی کا باعث نہیں رہے ۔ اس کے نیچے ٹیمپو اسٹینڈ بنادیا گیا ہے اور گاڑیوں کی آمد و رفت سے اس پر دباؤ پڑ رہا ہے ۔ موٹر گاڑیوں کے سبب آلودگی میں مزید اضافہ ہورہا ہے علاوہ ازیں غیر مجاز قصبوں سے بھی گیٹس متاثر ہورہے ہیں ۔ چوک علاقہ میں بھی گیٹس ہیں جو اکبری اور گول گیٹ سے موسوم ہیں ۔ اکبری گیٹ کی تعمیر قاضی محمود بلگرامی نے کرائی تھی جو سکندر اعظم کے قریبی معاون تھے ۔ اکبری گیٹ اور گول گیٹ کے درمیان ایک خوبصورت اور دلکش مغل چوک بازار ہوا کرتا تھا جہاں صارفین روزانہ کے مصارف میں آنے والی اشیا اور بعض خصوصی مغل مصنوعات عطریات ، زردہ چکن اور پارچہ جات خرید نے آیا کرتے تھے ۔ برطانوی حکومت نے اسی مقام پر تعمیر ہاتھی کے2 عظیم الجثہ مجسمے منہدم کروائے تھے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں