جمیل شیدائی - یاد رفتگاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-18

جمیل شیدائی - یاد رفتگاں

jameel-shedai
سن 1988 کی بات ہے اردو رائٹرس فورم کے زیر اہتمام راقم الحروف کی ایک نثری تصنیف "سکندر آباد کی ادبی دستاویز" جو سکندرآباد کی ادبی اور علمی تاریخ اور وہاں کے تخلیق کاروں کی ایک اینتھالوجی کے طور پر منظر عام پر آئی تھی اس کے لئے حاصل کردہ انٹرویو میں جمیل شیدائی نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے والد بزرگوار جناب شیدا محمد بذات خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جنہیں فارسی، انگریزی اور اردو زبانوں پر زبردست دسترس حاصل تھی ۔ وہ بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور شاعری سے شغف بھی رکھتے تھے ۔ ان کی ہمہ لسانی شخصیت کا اثر جمیل کی فکر و نظر پر پڑنا لازمی تھا۔ انہوں نے انگریزی اور فارسی کے ادب کو اپنے والد کی وساطت سے پڑھا اور ان زبانوں میں مہارت بھی حاصل کی۔
جمیل کے نام کے ساتھ شیدائی کا لاحقہ شیدا محمد صاحب کی شخصیت کا پرتو ہے ۔ شیدا صاحب نے نہ صرف انگریزی اور فارسی میں جمیل کی ذہنی تربیت کی بلکہ اردو زبان اور ادب کی تربیت میں بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ جمیل نے عام ڈگر سے ہٹ کر اپنے لئے ڈرامہ نگاری کی روش اختیار کی ۔ اس میدان میں وہ اکیلے ہی شہسوار تھے ۔ ان کے ڈراموں کی اخبارات، رسائل، آل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی سطح پر زبردست پذیرائی ہوئی۔ ان کے ڈراموں کی پہلی کتاب "لب گفتار" کے عنوان سے منظر عام پر آئی جس کا انتساب انہوں نے اپنے والد بزرگوار کے نام کیا تھا اور ان کی ہمہ لسانی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے اکتساب کا اعتراف بھی کیا تھا۔ حرف آغاز میں انہوں نے لکھا تھا:
"بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت ہی مشاہدے کی رنگا رنگی، گہرائی اور گیرائی کا احاطہ کر سکتی ہے اور ایسے ہی صاحب نظر کی نگاہوں کے سامنے جلوؤں کی ارزانی کی جاتی ہے ۔ جو جلووؤں کی قوت آخذہ سے شعور کی گہرائیوں میں اتارتا ہے پھر ان کی بازیافت سے زندگی کی حقیقتوں کا اظہار اپنے وجدان کے بل بوتے پر کرتا ہے ۔"

اردو ادب میں ڈرامے کی صنف ، بے التفاتی کا شکار رہی ہے۔ حالانکہ اسے مقبول اور مروج ہونا چاہئے تھا۔ کیوں کہ معاشرے کا ہر ایک فرد زندگی کی کہانی میں ایک کردارکی طرح ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر ہر آدمی ایک اداکار کی طرح اپنا حصہ ادا کرتا ہے ۔
جمیل شیدائی نے ڈرامے کی جانب ارباب ادب اور عام آدمی کی کم توجہی کی توجیہ اس طرح کی تھی کہ ڈرامے کا فن ، فنی ذکاوت ، ذہنی پختگی اور مشقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس فن سے ہر کس و ناکس کا عہدہ بر آ ہونا مشکل ہے ۔ شاید اسی وجہ سے سہل پسندی نے بہت کم لوگوں کو اس جانب راغب کیا ۔ اس راہ میں جمیل شیدائی ایسے کوہ کن تھے جو تنہا ہی جوئے شیر لانے کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔

جمیل شیدائی کے ڈراموں کی پہلی کتاب "لب گفتار" اپنے عہد کی مشہور ادبی تنظیم ، "اقلیم ادب" حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی ۔ "غالب خستہ کے بغیر" ان کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ تھا۔ جمیل شیدائی "ڈرامے کی تنقید" اور "ڈرامہ کیسے لکھیں" جیسی وقیع کتابوں کی ترتیب و طباعت کی جانب بھی متوجہ تھے۔ لیکن مختلف یونیورسٹیز سے کاموں اور ناگہانی افتادوں کے باعث وہ ان کی تکمیل نہیں کر سکے ۔

جمیل شیدائی بے حد ملنسار ، مخلص اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے ۔ کبھی کبھی ان کی ملنساری خاکساری کی حدوں کو چھونے لگتی تھی۔ اس لئے بعض فرومایہ لوگ اپنی حیثیت کی خوش گمانی میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ تاہم وہ نہایت باریک بین اور دور رس نگاہ رکھنے والے اور انسانی نفسیات اور عصری آگہی رکھنے والے تخلیق کار تھے ۔ ان کے ڈراموں کی کامیابی کا راز موضوعات کی نفاست، جامعیت اور پراسرار کشش میں پوشیدہ تھا ۔ ان کے ڈراموں کے پلاٹ طبع زاد ہوا کرتے تھے ۔ وہ اپنے ڈراموں میں صرف کہانی نہیں سناتے تھے بلکہ کہانی کو وجود کا پیکر دے کر زندہ جاوید بنادیتے تھے ۔ آج کی میکانیکی زندگی کی بے پناہ مصروفیتوں نے جمیل شیدائی کو یک بابی ڈرامہ کی تشکیل کی جانب راغب کیاتھا اور اس میں انہوں نے کامیاب تجربے بھی کئے ۔

جمیل شیدائی نے جامعہ عثمانیہ سے بی ایس سی کرنے کے بعد انڈسٹریل کیمسٹری میں ڈپلومہ کورس کیا تھا اور ایک مشہور کیمیکل فرم میں کوالیٹی کنٹرول کیمسٹ کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے تھے ۔ انہوں نے آندھرا پردیش کے علاوہ مہاراشٹرا اور کیرالا کی ریاستوں میں ملازمت انجام دی ۔
جمیل شیدائی نے جہاں اردو میں ڈرامے لکھے وہیں انگریزی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ڈراموں سے ہٹ کر انہوں نے کئی انگریزی نظموں کا سیلس اور جامع ترجمہ بھی کیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ غزل اور نظم کے بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔ بحیثیت مبصر انہوں نے کئی کتابوں پر تبصرے بھی لکھے ۔
جمیل شیدائی کو انجمن سازیوں اور انجمن کاریوں سے ہمیشہ اجتناب رہا ۔ انہوں نے شاید اقلیم ادب کے بعد اردو رائٹر فورم سکندرآباد ہی سے وابستگی قبول کی تھی لیکن وہ ہر ادبی انجمن کے ادبی کام میں بھرپور تعاون کرتے تھے ۔

جمیل شیدائی کی زندگی کا بہت بڑا عرصہ سکندرآباد کی سر زمین پر گزرا ۔ چند برس قبل وہ حیدرآباد منتقل ہو گئے ۔ نہ جانے کیوں ان کے آخری ایام کنج خلوت میں گزارے ۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ سے احباب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور فون پر بھی گفتگو ختم کر دی تھی ۔ شاید انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اب سارے رشتے ناطے ٹوٹنے والے ہی ہیں تو اپنے دکھ درد میں احباب کو کیوں شامل کریں؟
حیدرآباد میں علم و ادب کی ترویج میں جن شخصیتوں کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیاجائے گا ان میں وہ سر فہرست ہوں گے۔
جمیل شیدائی 12/فروری 1943ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 6/اگست 2015 کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
آسماں اس کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

***
Mohsin Jalganvi
Mob.: 09505967365
Flat No. 505, Block-A, Shanti Garden Apartments, Nacharam, Hyderabad-500076
محسن جلگانوی

Jameel Shedai, a renown Playwright of Hyderabad. Article: Mohsin Jalganvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں