لکھاری یا قلمکار - ایک مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-29

لکھاری یا قلمکار - ایک مکالمہ

likhaari ya qalamkaar
فیس بک کے ایک گروپ "عالمی افسانہ فورم" کے ایک مکالمے سے اخذ شدہ تحریر ۔۔۔۔
شرکاء :
مکرم نیاز ، امجد علی شاہ ، جاوید نہال حشمی ، امین بھایانی ، علی نثار ، وصی بختیاری عمری ، ارشد جمال حشمی

مکرم نیاز:
کئی دفعہ پوچھا گیا سوال ایک بار پھر : لکھاری کے بجائے لفظ قلمکار استعمال کرنے میں آخر کیا قباحت ہے؟

امجد علی شاہ:
جب لکھ رہے ہیں تو لکھاری کہنے میں کیا مضائقہ ہے.. اور بحث کیوں...جسے لکھاری لکھنا ہو لکھے..جسے قلمکار, جسے مصنف جسے افسانہ نگار وہ وہ لکھے.

مکرم نیاز:
مضائقہ اس لیے ہے کہ ۔۔۔۔
ہندوستان میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ اسکے بجائے قلمکار ہی لکھا جاتا ہے۔
آج سے بیس پچیس سال پہلے کے پاکستانی اخبار و رسائل میں لفظ "لکھاری" کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا ۔۔۔ اس وقت "قلمکار" ہی استعمال ہوتا تھا۔
پاکستان میں یہ تبدیلی کیسے آئی اور کیوں آئی؟ بس اس سوال کا جواب مطلوب ہے۔

امجد علی شاہ:
بیس پچیس سال میں بہت کچھ بدلا ہے اور .بعض الفاظ کا استعمال بھی بہت بڑھا ہے...فیس بک بھی نہیں تھی ٹوئیٹر بھی نہیں تھا مثال کو طور پر اب ٹوئیٹر استعمال کرنے والوں کے پاس اپنا پیغام لکھنے کیلئے الفاظ کی تعداد محدود ہوتی ہے وہ کئی الفاظ کو مختصر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں..اور ایسا صرف اردو استعمال کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہے ہر زبان نے اس تبدیلی کو قبول کیا ہے..اگر آپ وقت کے ساتھ تبدیلیوں کو ضم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اس سے وقت کا کچھ نہیں بگڑتا مگر آپ پیچھے رہ جاتے ہیں اسی لئے میرا اصرار ہے کہ اردو کو فرہنگ آصفیہ کی تشریحات سے باہر نکلنا چاہئے

مکرم نیاز:
ہم آپ کے اصرار سے بالکلیہ اتفاق نہیں کرتے!
۔۔ اس طرح تو کل آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارے ہاں ساری قوم "وجہ" کو "کارن" ، اداکار کو "کلاکار" اور ڈاکیہ کو "پوسٹ ماسٹر" کہہ رہی ہے ۔۔۔ اس میں کیا مضائقہ ہے؟

امجد علی شاہ:
پاکستان میں یہ الفاظ رائج نہیں ہوئے ابھی تک..
یہ خالص ہندی کے لفظ ہیں اگر وہاں کہے جاتے ہیں تو ان پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہے

مکرم نیاز:
تو پھر خاطر جمع رکھئے بھائی ۔۔۔ جب لکھاری رائج ہو سکتا ہے تو یہ بھی کبھی نہ کبھی رائج ہو ہی جائیں گے۔
اور یہ واضح رہے کہ یہ لفظ "لکھاری" ہندوستان میں ہندی دانوں کے درمیان ہی رائج ہے، اردو والوں کے ہاں نہیں۔ گوگل چیک کر کے دیکھ لیجیے : लिखारी
اور پھر یہ لفظ فیروزاللغات فرہنگ آصفیہ میں بھی نہیں ملتا ۔۔۔ (اور شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کا تقاضا ہے کہ : اردو کو فرہنگ آصفیہ کی تشریحات سے باہر نکلنا چاہیے )

جاوید نہال حشمی:
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان میں نئے نئے الفاظ کی شمولیت اس زبان کو وسیع، مقبول اور rich بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے. لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اپنی زبان میں متبادل لفظ ہونے کے باوجود دیگر زبانوں کے "نئے نئے الفاظ" شامل کئے جائیں. انگریزی میں "مجاہدین" "جہاد "اور" gherao"جیسے الفاظ اس لئے شامل ہوئے کہ ان کے موجودہ انگریزی متبادل الفاظ اصل مفہوم کو ادا کرنے سے قاصر ہیں. ہندوستانی سیاسی منظر نامے کے حوالے سے دھرنا کا sit-in, مظاہرہ کا demonstration تو ہو سکتا ہے لیکن" گھیراؤ کیا گیا" کا surrounded مضحکہ خیز ہو جائے گا!
اس بنیاد پر "قلم کار" کی بجائے "لکھاری" کا استعمال انتہائی غیر ضروری اور نہایت افسوس ناک ہے. اردو میں اس لفظ کے استعمال سے زبان کی بلاغت میں تو اضافہ نہیں ہوتا البتہ اس کی چاشنی میں کمی ضرور ہو جاتی ہے
ہندی میں کھیلنے والے کو کھلاڑی، لکھنے والے کو لکھاری کہا جاتا ہے کہ ان کے یہاں الفاظ کی ترکیب کا یہی طریقہ ہے. مگر اردو میں الفاظ کی تشکیل کا الگ طریقہ ہے جو عربی یا فارسی سے مستعار ہے اور جو اس کی نہ صرف شناخت ہے بلکہ اس سے اس کی چاشنی بھی برقرار رہتی ہے.

امین بھایانی:
میری رائے میں قلمکار کہیں بہتر ہے لفظ لکھاری سے۔
سن 80ء کی دھائی میں پاکستان میں دوردرشن دیکھے جانے کا رواج عام ہوا جس سے یہ لکھاری ہمارے معاشرے میں چند دیگر لفظوں کے ساتھ داخل ہوا۔
اسی طرح پہلے اور اب بھی اچھے اُردو لکھنے بولنے والے "میکے" لکھتے تھے۔ دور درشن اور ہندوستانی فلموں کے زیراثر یہ لفظ "مائیکے" بوزن "مائی کے" لکھا اور بولا جانے لگا ہے جو کہ اُردو کے لحاظ سے درست نہیں۔
پاکستان میں چونکہ ان دنوں عام بول چال میں کئی ایسے لفظ اور تلفظ استعمال ہونا شروع ہوگئے ہیں جو کہ ہندوستانی فلموں کے ہندی لفظوں اور تلفظ سے مستعار لے لئے گئے ہیں اور اُردو کو مشرف بہ ہندی کیا جارہا ہے۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ کٹہرے کو ہندوستانی فلموں میں کٹگہرے کہا جاتا ہے سو ہمارے یہاں نئی نسل کے نیوز ریڈرز بھی نیوز چینلز پر اسے کٹگہرے ہی کہتے سُنائی دیتے ہیں۔

جاوید نہال حشمی:
اتنا ہی نہیں، ہندی نیوز ریڈرس "انکار" کی جگہ "منع" دھڑلّے سے استعمال کرتے ہیں. یعنی "انہوں نے یہ تحفہ لینے سے منع کر دیا"

علی نثار:
میں نے جس دن تک یہ افسانہ فورم جوائن نہیں کیا تھا تب تک مجھے لفظ لکھاری کسی بھی ادبی کتاب یا رسالے میں نظر نہیں آیا تھا. اور یہاں پر ہر دوسرا تبصرہ نگار یہ لفظ استعمال کرتا ہوا دکھائی دینے لگا. مجھے یہ لفظ پڑھ کر یہی ذہن میں آتا تھا کہ لوگ افسانہ نگار کی جگہ لکھاری لکھاری کیوں لکھ رہے ہیں؟ کئ دفعہ اس لفظ کو پڑھنے کے بعد اس لفظ کے بارے میں یہی سوچنے لگا کہ یہ اردو میں لکھنے والے پاکستانی ادیبوں کی زبان کا ایک نیا لفظ ہے جو افسانہ نگار کے متبادل استعمال ہو رہا ہے. میری نظرمیں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں آئے دن ایسے نئے الفاظ کا انتخاب اور اضافہ اردو زبان کے مزاج اور وسیع دامنی کے لئے نیک شگون ہے.

وصی بختیاری عمری:
میرا معروضہ یہ ہے کہ لکھاری کسی بھی طرح، کسی بھی لحاظ سے اردو کے مزاج اور زبان کی ساخت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اردو میں جب قلمکار کا لفظ رائج اور مستعمل ہے، تو پھر یہ لکھاری کیوں؟ اور اس پر اصرار کیوں؟ چند دنوں سے فیس بُک اور دیگر ویب سائٹس پر لکھاری کا چلن عام ہو گیا ہے، اور یہی واحد وجہ ہے کہ نئے لفظ کا استعمال بطورِ فیشن کیا جا رہا ہے، جدت طرازی اور مشقِ ستم صرف اردو زبان کے الفاظ ہی کے ساتھ....؟ اب احبابِ گرامی کو قلمکار لکھنے میں کیا حرج ہے، اور لکھاری پر اصرار کیوں؟؟
اردو میں اسمِ فاعل بنانے کے قواعد ہیں، اردو کی مخصوص لسانی ساخت ہے، اس کے مستعمل اور مروج و متداول لفظیات ہیں، اردو کے دامن میں اظہار کے لیے الفاظ کی ایک وسیع کہکشاں اپنی معنوی جلوہ سامانی اور رنگارنگ بوقلمونی کے ساتھ تابندہ ہے۔ تو پھر ہندی کے نامانوس اور غریب لفظ "لکھاری" کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ویسے تو آج کل یہی ہو رہا ہے کہ نعتوں کی جمع نعوت اور کاغذ کی جمع کواغذ کے استعمال کو یار لوگ اپنی عربیت اور زبان دانی کے مظاہرے کے لیے استعمال کر رہے ہیں... میں اسی طویل پس منظر سے واقفیت کی بنا پر عرض کر رہا ہوں، جو تقسیمِ ہند سے قبل ہندی، اردو اور ہندوستانی کی بحث، اور بابائے اردو اور گاندھی وغیرہ کی کوششیں تھیں۔
میں، الفاظ کے معنیاتی سیاق سے دلچسپی رکھتا ہوں اور الفاظ کو جاندار اور تہذیبی پس منظر کا حامل سمجھتا ہوں، میرا یہ نکتۂ نظر ہے کہ ہر لفظ اپنی جگہ بذاتِ خود مکمل ہوتا ہے اور اس کے مترادف کے وجود کے باوجود بھی عام طور پر دونوں میں فرق ہوا کرتا ہے۔ لہذا اردو کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ عرض کردوں کہ لکھاری میں مجھے اجنبیت اور غرابت محسوس ہوتی ہے، لفظ استعمال سے مانوس و نامانوس ہوا کرتے ہیں، اور یہ استعمال میرا یا کسی اور کا نہیں بلکہ اہلِ زبان کا اور زبان کے روزمرہ و محاورہ پر مضبوط گرفت رکھنے والوں کا استعمال معتبر اور قابل تسلیم ہے، انہیں کی سند بھی آج تک تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ اگر معنیاتی سباق و سیاق کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا تو وقت سب سے بڑا منصف اور نقاد ہے، ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ یہ دیکھ کر ہنسیں گے کہ وہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے قلمکار کے بجائے لیکھک اور لکھاری جیسے الفاظ کو اردو میں مروج کرنے کی ناکام کوشش کی اور زبان کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہونے والے ایسے الفاظ پر اصرار کیا تھا۔

ارشد جمال حشمی:
بھئی پاکستانی اردوداں معرب اور مفرس اردو لکھتے بولتے سنتے بور ہو گئے ہیں۔ اس لئے منہ کا چٹخارہ بدلنے کے وہاں ہندی الفاظ کا چلن عام ہونے لگا ہے۔ یہ رویہ مستحسن نہیں۔
دوسری طرف ہندوستانی اردوداں (بشمول ناچیز) ایک کامپلیکس میں گرفتار ہیں۔ ہندی چونکہ یہاں اردو کی سب سے بڑی حریف ہے اسے اردو کے وجود کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا شعوری اور لاشعوری طور پر ہندی سے دامن بچانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ یہ بھی مستحسن نہیں ہے۔
رہی بات "لکھاری" کی تو یہ لفظ سنتے ہی میرے ذہن "بکھاری" گونجنے لگتا ہے جو یہاں کی علاقائی زبان میں بانس کے لمبائی میں تراشے کو کہتے ہیں جو عموماً گندے نالوں کی صفائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے مجھے اس لفظ سے کراہت ہوتی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میری کراہت سے کیا ہوتا ہے۔ اگر روئے زمین پر اردو بولنے والوں کی اکثریت اسے مروج کردے تو کوئی مائی کا لال اسے لغت اور زبان میں شامل ہونے سے نہیں روک سکتا کہ زبانیں اسی طرح بنتی اور بگڑتی ہیں۔ خاص طور سے زبان کی تبدیلیوں میں نیم خواندہ طبقوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اردو زبان ہی نیم خواندہ طبقوں (لشکری) کی بنائی ہوئی ہے۔ پڑھے لکھوں نے تو بعد میں اپنی چودھراہٹ قائم کی ہے۔

لکھاری
یہ عجیب و غریب اور بدصورت لفظ بعض لوگوں نے "لکھنے والا" کے معنی میں برتنا شروع کر دیا ہے، صرف اس وجہ سے کہ ایک فرانسیسی مصنف رولاں بارت [Roland Barthes] نے "مصنف" کے لیے فرانسیسی لفظ Ecrivain کے علی الرغم ایک لفظ Ecrivant (بمعنی "لکھنے والا") وضع کیا تھا۔
اول تو بارت کی تفریق کچھ بہت زیادہ معنی خیز نہیں ، لیکن اگر اس کو اصطلاحی طور پر استعمال کرنا ہی ہے تو ہمارے یہاں "قلمکار" جیسا سبک اور مناسب لفظ موجود ہے، اس کو چھوڑ کر ایک مضحکہ خیز لفظ "لکھاری" کیوں بنایا جائے؟
- بحوالہ : لغات روزمرہ، شمس الرحمٰن فاروقی

***
20/فروری 2015 کو دہلی کے نوجوان قلمکار تالیف حیدر کی فیس بک ٹائم لائن پر اسی "لکھاری/قلمکار" موضوع کے حوالے سے ایک دلچسپ مکالمہ جاری ہوا تھا ۔۔۔ تالیف حیدر کے شکریے کے ساتھ متذکرہ مکالمہ یہاں بھی پیش ہے۔

تالیف حیدر
کیا پتا کیوں لیکن لفظ "لکھاری" میری سماعت پر گراں گزرتا ہے۔
کوئی وجہ ہوگی تو ضرور لیکن ابھی مجھے اس خاص وجہ کا مکمل ادراک نہیں ہوسکا۔
ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان نے اس لفظ کو عام کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے، عجیب بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی ادیبوں کو جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے لفظ برتنے کا سلیقہ ہندستانی ادیبوں سے زیادہ آتا ہے اس کے باوجود ایک نہایت ہی بھونڈے لفظ کو اس ملک میں کیوں کر قبولیت نصیب ہو رہی ہے یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔

اجمل کمال
لفظ "بھونڈا " آپ کی سماعت پر گراں نہیں گزرتا؟ حیرت ہے۔

تالیف حیدر
اجمل بھائی میں بنیادی طور پر مہاراشٹر کا ہوں اس لئے ڈ اور بھ سے میری پرانی پہچان ہے شاید اس لئے نہ گزرتا ہو

اجمل کمال
آپ کا تو پتا نہیں، لیکن کچھ اور "تہذیب یافتہ " اردو والوں کو لفظ "لکھاری " اس لیے برا لگتا ہے کہ اس کی ساخت اور پس منظر ہندی لفظ "لیکھک " سے ملتاجلتا ہے۔

تالیف حیدر
میں ہندی جانتا ہوں اور پڑھتا رہتا ہوں اس لئے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ لیکھک کا استعمال کسی بھی تحریر میں مجھے کبھی لکھاری کی طرح اجنبی معلوم نہ ہوا
اردو میں ہندی کے کئی الفاظ ہیں لیکن وہ الفاظ اردو میں پوری طرح جذب ہو جاتے ہیں یہ لیکن لکھاری لفظ اردو زبان سے مناسبت قائم کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا

اجمل کمال
یہ تو آپ کا خیال ہے کہ "لیکھک " ان "ہندی " الفاظ میں شامل ہے جو " اردو میں پوری طرح جذب ہو جاتے ہیں "۔ بعض دوسرے لوگوں کی رائے میں یہ ان لفظوں میں شامل نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ " لکھاری لفظ اردو زبان سے مناسبت قائم کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ "، کچھ لوگ کہیں گے کہ ہوتا ہے۔ اب کس کی رائے کو کس پر ترجیح دی جائے، اور کیوں دی جائے؟ میں تو خیر ان سب "مناسبت " اور "جذب: " وغیرہ کے تصورات ہی کو مضحکہ خیز سمجھتا ہوں۔

تالیف حیدر
صحیح فرمایا آپ نے اور جس طرح ہر شخص کو کسی کی رائے کو کسی اور کی رائے پر ترجیح دینے یا نہ دینے کی آزادی ہے اسی طرح آپ کو ان تصورات کو مضحکہ خیز سمجھنے کی بھی آزادی حاصل ہے لہذا سمجھتے رہیئے

اجمل کمال
اجازت دینے کا شکریہ، لیکن "آزادی " اپنی اپنی نوعیت میں ایک ایسا عمل ہے جو اجازت وغیرہ کی پروا نہیں کرتا۔ اور ایک دوسرے کی رائے پر غور کرنے سے بھی نہیں روکتا۔ مکالمہ اسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔

تالیف حیدر
حضور میں نے آپ کو کسی طرح کی کوئی اجازت نہیں دی ہے۔ آپ نے ایک بات کہی میں نے اس بات کو یہ کہہ کر تسلیم کیا ہے کہ وہ بات کہنے کا آپ کو حق حاصل ہے۔ رہی مکالمہ قائم کرنے کی بات تو جناب میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ کسی بات کو مضحکہ خیز کہہ دینے سے کوئی مکالمہ قائم ہو سکتا ہے بلکہ میرے نزدیک کوئی بھی مکالمہ ہر اعتبار سے بلا کی سنجیدگی چاہتا ہے
جس میں اختلاف بھی بہت سنجیدگی سے کیا گیا ہو اور اتفاق بھی۔

اجمل کمال
بالکل درست۔ کسی لفظ یا تصور کو "بھونڈا " یا "مضحکہ خیز " کہہ کر بات نمٹا دینے سے مکالمہ قائم نہیں ہوتا، صرف اپنے سے مختلف رائے سے ابتدائی تعارف ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگلا سوال آتا ہے کہ بھیا، آپ کے نزدیک "بھونڈا " یا "مضحکہ خیز " ہونے کا معیار کیا ہے اور کتنا معقول ہے۔ میں نے شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب "لغاتِ روزمرہ: اردو زبان میں غیرمعیاری استعمالات کی فہرست و تنقید " کے دو ایڈیشن اپنے ادارے سے شائع کیے ہیں اگرچہ میں ان کے استدلال سے اتفاق نہیں رکھتا؛ یہاں تک کہ اسے مضحکہ خیز بھی سمجھتا ہوں۔ اس کو شائع کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مروج نقطۂ نظر ہے جس پر پوری طرح غور کرنا میرے نزدیک مکالمے کا حصہ ہے۔ زہی بات سنجیدگی کی، تو یہاں بھی مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ تصورات اور مکالمے کی تاریخ میں حسِ مزاح کے استعمال سے سنجیدگی کبھی متاثر نہیں ہوئی اگر اس کی بنیاد استدلال پر قائم رہے۔

شمیم عباس
میرا ماننا ہے کہ لفظ کوئی سا ہو "بھونڈا" ہوتا ہی نہیں، محلِ استعمال اور طریقۂ استعمال اسے بھونڈا کر دیتا ہے۔

صابر
فاروقی صاحب نے لغات میں "لکھاری " کو خاصا بدصورت، بدآہنگ ، مضحکہ خیز ، عجیب و غریب اور غیرضروری لفظ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ "قلمکار " جیسے سبک اور مناسب لفظ کی موجودگی میں ایسے بدصورت لفظ کو اختیار کرنے کی کیا تک ہے؟

تالیف حیدر
حضور میں نے تو معقول عذر پہلے ہی پیش کر دیا کہ یہ لفظ میری سماعت پر گراں گزرتا ہے اب اس کے علاوہ کون سی معقول دلیل دوں۔ لفظ کا سیدھا تعلق سماعت سے ہے، مجھے تو نہیں لگتا کہ اب آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گا۔
رہی تصورات اور مکالمے کی تاریخ کی تو میں آپ کو دسیوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ کس طرح حس مزاح کے بغیر بڑے علمی اور ادبی مکالمے قائم ہوئے۔ حس مزاح کوئی کلیہ نہیں

اجمل کمال
صابر صاحب، جی ہاں، میرا اختلاف اسی طریقِ استدلال پر ہے۔ کوئی مخصوص لفظ ایک شخص کے نزدیک "بدصورت، بدآہنگ ، مضحکہ خیز اور غیرضروری " اور دوسرے کے نزدیک " سبک اور مناسب " خوش آہنگ، خوبصورت اور ضروری ہو سکتا ہے۔ یہ تو ذاتی ترجیح کا معاملہ ہوا، کسی معروضی اصول اور استدلال کا نہیں۔ اب لفظ "بھونڈا " ہی کو لیجیے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ ایک کریہہ، بدصورت اور بدآہنگ لفظ ہے جبکہ فاروقی صاحب غالباً اسے خوش آہنگ اور خوبصورت سمجھتے ہیں اور کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔

صابر
ہندوستان میں "قلمکار " پر جمہور کا اجماع ہے ۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ دور حاضر میں ہندوستان میں قلمکاروں اور پاکستان میں لکھاریوں کی تعداد میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

تالیف حیدر
اجمل بھائی، بعض معاملات میں ذاتی ترجیح ہی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو کسی اور دلیل سے ثابت کیا جا سکے۔ بھائی مجھے اگر کوئی لفظ بھونڈا لگتا ہے تو کیا میں اس کے بھونڈے ہونے کی دلیل مہذب اللغات سے لاؤں گا؟

اجمل کمال
اچھا؟ یہ ریفرنڈم کب ہوا؟ اور کیا اس سے دوسرے ہم معنی الفاظ (ادیب، نویسندہ، لیکھک، لکھاری، رائٹر وغیرہ) کا استعمال غیرقانونی قرار پا گیا؟ چلیے، اب اس اصول کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ لکھنے والے کے معنی میں صرف ایک لفظ استعمال ہو گا؟ اور کیا اس فیصلے کا اطلاق صرف اسی لفظ پر ہو گا یا "جمہور کے اجماع " کو ہر لفظ کے لیے سند بنایا جائے گا؟ ویسے اگر ایسا ہو جائے تو کم از کم اردو سیکھنے والوں کو آسانی ہو جائے گی کہ انھیں نسبتاً مختصر ذخیرۂ الفاظ سے نمٹنا پڑے گا۔

تالیف حیدر
بھائی لکھاری تو مجھے پاکستان والوں کے منہ سے ایسا ہی لگتا ہے جیسے حالی انگریزی ادب کی بات کرتے ہیں

صابر
ہا ہا ہا ۔ اجمل صاحب۔ املا والے خانصاحب ایسے ریفرنڈم کروانے والے ڈکٹیٹر کی آمد کے لیے دعائیں مانگتے رہے لیکن بارآور نہ ہوئیں۔ ایسے مسئلوں کا کوئی حل نہیں نکلنے والا۔ سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ۔
پھر بھی ایک حل ہوسکتا ہے کہ اجمل صاحب ایک اچھے لکھاری ہیں اور تالیف ایک اچھے قلمکار ۔

رضا صدیقی
میاں تالیف حیدر یہ پاکستان والوں کے منہ سے لکھاری کیوں برا لگتا ہے،ہندوستان والوں نے تو ہندی لب ولہجہ شامل کر کے اردو کا ستیاناس کر دیا ہے

تالیف حیدر
آپ جن اردو والوں کی بات کر رہے ہیں میں انہیں نہیں جانتا لیکن چھوٹا بھائی ہونے کے ناتے آپ کو یہ صلاح دیتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو ہندی لب و لہجہ شامل کر کے اردو کا ستیاناس کر رہا ہے تو پہلی فرصت میں ان سے دوری بنا لیجیے

اجمل کمال
کیوں تالیف حیدر صاحب؟ لکھاری انگریزی کا لفظ ہے؟ اور کیا کوئی لفظ انگریزی، ہندی یا پنجابی کا ہونے کی وجہ سے خودبخود ناقابلِ استعمال قرار پا جاتا ہے؟ اور حالی اگر انگریزی ادب کی بات کریں تو اس میں کیا برائی ہے؟ جب آپ "اپلوڈ، ڈاؤن لوڈ اور شیئر " کر سکتے ہیں تو حالی کی حیثیت کیا آپ سے کسی طرح کمتر ہے؟ اگر لکھاری کا لفظ سن کر یا پڑھ کر آپ کو ایسا ویسا لگتا ہے تو یہ آپ کی ذاتی ترجیح ہوئی۔ جن لوگوں کو محمد حمید شاہد کا نیر مسعود کو کہانی کار یا لکھاری کہنا ایساویسا نہیں لگتا (شاید نیر صاحب کو بھی نہ لگتا ہو) ان کی ذاتی ترجیح کیوں مسترد کر دی جائے؟ دیکھیے، جب آپ اپنے ذاتی خیالات بحث کے لیے پیش کرتے ہیں تو پھر "کیوں؟ " اور "کیسے؟ " کے سوالا ت سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ سوالات مکالمے کی بنیاد ہیں۔ اگر ان کے جواب میں فاروقی صاحب کی طرح آپ بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ "بھئی، ہم جو کہہ رہے ہیں! " تو پھر دلیل کا اور مکالمے کا کیا بنا؟

تالیف حیدر
عام آدمی پارٹی نے لائٹ کا بل کم کرنے کی جو راہ نکالی ہے وہ اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی۔ نہ ہوگی لائٹ نہ آئے گا لائٹ کا بل

اجمل کمال
لائٹ کا لفظ استعمال کرنا ضروری تھا؟ بجلی نہیں کہہ سکتے تھے؟ ویسے جب بتی یا الیکٹریسٹی آ جائے اور طبیعت آمادہ ہو تو میرا یہ مضمون ذرا ایک نظر دیکھ لیجیے گا۔ آپ کو جواب دینے میں آسانی ہو گی۔
http://www.dawn.com/news/1161919/column-man-tau-hindi-hai

تالیف حیدر
حالانکہ مجھے اپنے موقف کے اظہار کے لیے کسی مضمون کے مطالعے کی ضرورت نہیں لیکن بہرحال آپ نے بھیجا ہے تو تبرکاً اور احتراماً استفادہ کروں گا

اجمل کمال
کتنے غریب پرور اور مہربان ہیں آپ۔ آپ نے تو میرا دل موہ لیا۔ لیکن شاید اسے تالیفِ قلب کہنا مرجّح ہو گا۔

تالیف حیدر
حضور دل موہ لینا آپ کا اجتہاد معلوم دیتا ہے ورنہ خاکسار نے تو آج تک من موہ لیا ہی بڑھا اور سنا ہے
اور رہی تالیف قلب کی بات تو من موہ لینے اور تالیف قلب میں کیا مناسبت؟ آپ دل جیت لیا کہتے تو غالباً درست ہوتا

اجمل کمال
بھائی آپ کی رہنمائی سر آنکھوں پر، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اردو ان دو سو پچھتر (یا دو لاکھ پچھتر ہزار) لفظوں تک محدود نہیں رہ سکتی جو آپ کو آتے ہیں۔ چنانچہ اجتہادی بے راہ روی کے صدمے تو غالباً آپ کو اٹھانے ہی ہوں گے۔ اب جب آپ نے مہربانی اور غریب پروری پر کمر باندھ ہی لی ہے تو پھر یہ بھی پڑھیے، تاکہ جم کر مکالمہ ہو سکے۔
http://www.tanqeed.org/2014/12/urdu-lit-ajmal-kamal-urdu/
اچھی اردو بھی کیا بری شے ہے
جب تک ہم کنویں کے مینڈک بنے رہیں تب تک تو اردو برتری کی سیاسی بنیاد کسی حد تک محفوظ رہتی ہے۔...

تالیف حیدر
اب آئے آپ اپنے سوالوں کے جواب کی طرف تو بھائی آپ کا پہلا سوال غیر ضروری ہے کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ لفظ لکھاری انگریزی ہے، حالی کی جس مثال سے آپ اسے انگریزی قرار دینا چاہتے ہیں تو مجھے حیرت ہے کہ آپ کو اب اتنی معمولی باتیں بھی سمجھائی جائیں گی کے میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح حالی انگریزی ادب سے مرعوب تھے اس معاملے میں پاکستان والے بھی مجھے ہندی زبان سے مرعوب نظر آتے ہیں، اگر اتنی سامنے کی بات کو نہیں سمجھ پاتے تو میں آپ سے کیا امید کر سکتا ہوں۔
آپ مکالمہ کیجئے مجھے کتابیں پڑھنے کی دعوت کیوں دے رہے ہیں اس طرح تو میں بھی وہ ساری کتابیں پہلے آپ کے سامنے پیش کروں جو میں نے پڑھی ہیں پھر آپ سے کہوں کہ صاحب اب بات کیجئے یہ کیا طریقہ ہے
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ بھائی میں نے کب کہا کہ کوئی لفظ انگریزی، ہندی یا پنجابی کا ہونے کی وجہ سے خودبخود ناقابلِ استعمال قرار پا جاتا ہے، یہ تو آپ سمجھ رہے ہیں اردو میں تو ہزاروں لفظ دوسری زبانوں سے آئے ہیں مجھے اگر ناسخ کی طرح ہر لفظ سے چڑ ہوتی تو آپ روز میری وال پر کئی الفاظ دیکھتے بھائی مجھے تو اس خاص لفظ سے واسطہ ہے جو مجھے اردو زبان کا نہیں معلوم ہوتا اور اس کا سننا یا پڑھنا مجھ پر گراں گزرتا ہے
آپ کا تیسرا سوال بھائی حالی انگریزی ادب کی بات کریں یا عربی فارسی ادب کی اس فعل میں کوئی برائی نہیں لیکن آپ تاریخی حالات و معاملات سے واقف ہیں کہ حالی یا شبلی سر سید جس طرح انگریزی ادب سے مرعوب تھے مجھے اس رعب پر اعتراض ہے نہ کے حالی کہ اردو یا انگریزی ادب پر بات کرنے پر۔
آپ نے اپنے چوتھے سوال میں مولویانہ اور متکلمانہ انداز اختیار کیا ہے ہمارے "اپلوڈ، ڈاؤن لوڈ اور شیئر " کرنے میں اور حالی کے انگریزی ادب پر بات کرنے میں کوئی مناسبت نہیں وہ مرعوبیت کا شکار تھے ہم ان تمام چیزوں کو کسی طرح کی ذہنی مرعوبیت کے ساتھ استعمال نہیں کرتے آپ کے معاملے کا مجھے علم نہیں لیکن میں تو ہرگز نہیں کرتا
اگر مغرب دنیا کو کچھ دیتا ہے تو ہم بھی اس کو بہت کچھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آپ کے اگلے سوال کا جواب میں دے چکا ہوں کہ کسی لفظ پر جب بات ہوتی ہے تو اس میں ذاتی ترجیح کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ارے صاحب مجھے اگر کچھ بھونڈا لگتا ہے تو یہ بات بھی دنیا کو کیا آپ بتائیں گے۔ کہانی کا معاملہ لفظ کے معاملے سے بہت الگ ہے اگلی بار درست مثال دیجئے گا

اجمل کمال
آپ نے میری کم فہمی کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگایا۔ سوال یہ ہے کہ اسے دور کیسے کیا جائے۔ ایک آپ ہی اہلِ علم دکھائی دیے تھے جو ان پڑھوں کو کچھ معمولی باتیں سمجھا سکتے تھے۔ افسوس کہ آپ اس پر آمادہ نہیں۔ خیر، دیکھتے ہیں، کیا عجب آپ کی سطح کا کوئی ایک آدھ اہلِ علم اور میسر آ جائے جو معمولی لوگوں کے معمولی سوالوں پر توجہ دینے کو تیار ہو۔ تلاش جاری ہے۔

تالیف حیدر
آپ کے اس سے آگے کے سوالات ایجاد بندہ ہیں میں نے کبھی نہیں کہا کے مجھے کیوں یا کیسے سے چھوٹکارا چاہئے اور فاروقی صاحب کی طرح مجھے فیصل بننے کا بھی کوئی شوق نہیں کہ میں اپنی رائے تک آخری ہوں۔
اگر آپ کو برا لگا ہو تو معافی چاہوں گا۔ کیوں کہ آپ بہر حال مجھ سے بہت زیادہ پڑھے لکھے اور میرے بڑے ہیں۔

اجمل کمال
شکریہ۔ مجھے تو صرف چند سوالات اٹھانے تھے، جو سب کے سب ایجادِ بندہ ہی ہیں۔ ان کا کچھ جواب کہیں سے ملے تو آگے بات چلے۔

تالیف حیدر
میں نے تو سارے سوالوں کے جواب دے دیے اب آپ کو کس قسم کے جوابات کی امید تھی اس کا علم تو میرے فرشتوں کو بھی نہیں ۔

سید مکرم نیاز
ہندوستانی اخبار و رسائل میں لکهاری کی جگہ اکثر و بیشتر قلمکار استعمال ہوتا رہا ہے. عرصہ ڈیڑھ عشرہ سے لکهاری پاکستانی ویب سائٹس پر اکثر و بیشتر دیکهتا آ رہا ہوں اور اس لفظ پر کئی مرتبہ بحث بهی کی

اشعر نجمی
مترادفات شجر ممنوعہ تو ہرگز نہیں ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ذخیرہ الفاظ کسی بھی زبان کو زیادہ متمول بناتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں متبادل کا استعمال حس جمال سے تعلق رکھتا ہے، اس پر لسانی عصبیت کا الزام لگانا زیادتی ہوگی۔ تالیف کا مقدمہ یہ تھا کہ "لکھاری "سماعت پر گراں گذرتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے۔ یوں بھی جیسا کہ ہمارے ماہرین لسانیات کہتے ہیں کہ لفظ کا تعلق "تقریر " (بولنے) سے ہے، نہ کہ "تحریر " سے۔ لہٰذا یہاں سماعت کا ایک اہم کردار سامنے آجاتا ہے۔ خیر یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے جس پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔

A dialogue on using words "Qalamkaar" vs. "Likhari"

4 تبصرے:

  1. میں بھی اسی بات کا قائل ہوں کہ خواہ مخواہ ایک خوب صورت متبادل کے باوجود ایسے بےہنگم الفاظ کا پیوند اردو کی شبیہ کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ اس لئے اس دور کے قلم کاروں اور ادیبوں کو اس کے استعمال سے ہر ممکن گریز کرنا چاہئے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ محترم
    جناب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی صاحب کی اس رائے گرامی کے بعد بات صاف اور منقح ہو گئی ہے
    آپ نے لغات روزمرہ کے حوالے سے جو اقتباس پیش کیا، اس سے
    بحث مکمل ہو گئی؛ اب مزید کسی قیل و قال کی گنجائش نہیں ہے
    شکریہ
    وصی بختیاری عمری

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔۔وصی اللہ بختیاری صاحب۔۔۔۔ لکھاری اور قلم کار میں مجھے ایک چیز مشترک نظر آئی پہلا لکھاری اور بھیکاری دونوں کا کام ایک ، دوسرا بھیکاری ہردن بھیک مانگ کر کماتا ہے ۔ لکھاری کتاب چھاپ کر کماتا ہے۔ منقول۔۔۔۔

      حذف کریں
  3. ارشد جمال حشمی9/08/2015 9:06 AM

    بھئی برقیاتی زمانہ ہے۔ زبانوں کی شکست و ریخت میں پہلے برسوں لگتے تھے۔ اب مہینوں میں یہ کام ہو جاتا ہے۔ فیس بک زندہ باد!!!

    جواب دیںحذف کریں