آہ بشر نواز - کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-11

آہ بشر نواز - کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

bashar-nawaz
اِدھرکئی دِنوں سے جَون ایلیا کا یہ شعر قلبِ ساحل پر کسی بے قرار موج کی طرح آ مد و شد بناہوا تھا :
دِل بہت چاہتا ہے رونے کو
کیا کوئی حادثہ ہے ہونے کو!

اور جمعرات کی دوپہر موبائیل پر بشر نواز کی سناؤنی نے ہمیں رُلا دِیا۔
1975 میں اورنگ آباد سے ایک جریدہ شمیم احمد کی ادارت میں "غبار خاطر" جاری ہوا تھا حسنِ اتفاق کہ اس کی ایک کاپی گزشتہ ایک عشرے پہلے ہمارے گنجِ کتب سے بر آمد ہوئی تو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کے مشمولات اس قدر دل چسپ اور گراں قدر تھے کہ ایک رات بس ہم دیکھتے چلے گئے کہ سحری کا وقت ہوگیا۔
بظاہر یہ عام سا شمارہ ہے مگر یہ اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اِس وقت اُردو کے چند پرچوں کو چھوڑ کر کوئی جریدہ بھی ایسا نہیں کہ جس کا اکثر متن اس معیار کا ہو۔ اس کے تمام مشمولات بلکہ خطوط کا حصہ بھی خاصا دل چسپ ہے۔ جس میں فیض احمد فیض، ن۔ م۔ راشد، وزیر آغا، رام لعل، اقبال مجید سلیم احمد، مظہر امام، زیب غوری، پرکاش فکری،اسعد بدایونی وغیرہ کے ساتھ قاضی سلیم، عصمت جاوید،قمر اقبال اوربشر نواز کا کلام بھی جلوہ افروز ہے اور اسی جریدے میں سکندر علی وجد کے شعری مجموعے " بیاض مریم" پر (از: شمیم احمد) اور بشر نواز کے شعری مجموعے "رائیگاں"( صد صفحات) جس کی قیمت صرف چھ روپے تھی یوسف عثمانی کا خاصا تبصرہ بھی ہم نے پڑھا۔ جس سے پتہ چلا کہ بشر نواز نے اپنے پہلے ہی شعری مجموعے سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔

بشر نواز سے کوئی تیس برس قبل ہم پہلی بار ملے تھے اور جب گزشتہ برس گیٹ وے آف انڈیا پر اُردو اکادیمی کے مشاعرے میں ملاقات ہوئی تب بھی اُ نھیں اپنے تئیں ایک مشفق بزرگ نہیں بلکہ ایک مہذب دوست جیسا ہی محسوس کیا۔ یاد آتا ہے کہ 1965 کا زمانہ ، جب ان کا کلام پہلی بار ہفت روزہ اُردوبلٹز(Blitz) میں پڑھا تھا۔ اس کا ایک شعر تو ابتک ذہن میں تازہ ہے:
چاہتے تو کسی پتھر کی طرح جی لیتے
ہم نے خود موم کی مانند پگھلنا چاہا

کوئی نصف صدی تو گزر گئی مگر اس شعر میں چھپے ہوئے بشر نواز کے فطری مزاج نے ہمیں اُن سے ہمیشہ قریب رکھا۔
بشر نواز کی بیس پچیس کتابیں نہیں چھپیں مگراُن کا جو سرمایہ ہمارے سامنے ہے وہ اس قدر وقیع اور تاثر و تاثیر سے بھر پور ہے کہ یہ جو ہمارے دور کے حمارِ ادب ہیں کہ ہر مہینے دو مہینے میں جو ایک کتاب کے ساتھ مشتہر ہو رہے ہیں ان کی کوئی ایک کتاب بھی بشر نواز کے قدموں کو نہیں چھوتی۔
دراصل قدرت نے اِنسان کو دو مقام دِیے ہیں کچھ لوگ دوسرے مقام سے بھی نکلنے والی آوازوں کو ادب سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ بادِ فاسد وقت کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو جا تی ہے کہ ماضی میں بھی اس کی مثالیں "عبرت" بنی ہوئی ہیں۔ مگر عبرت تو وہی لیتے ہیں جنہیں قدرت توفیق دے اور جنہیں قدرت ہی عبرت بنانا چاہتی ہو تو اُن کا اقبال کیسے بلند ہو سکتا ہے ۔؟!

بشر نواز کو دورِ جدید کا شاعر و ادیب کہا جاتا ہے اور اس دور میں اکثر لکھنے والے دین و مذہب سے بیگانے ہی نہیں بلکہ مجتنب ملتے ہیں مگر بشر نواز کے بارے میں یہ جان کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اسلامیات کا بھی خاصا درک رکھتے تھے۔ وجہ اس کی، ان کے گھر کا ماحول تھا،بالخصوص ان کی والدہ کا مذہبی کردار و عمل ۔ والدۂ محترمہ ممتازفاطمہ خود ایک عالمہ تھیں جن کے گھر میں ہفت وار اجتماعِ نسواں باقاعدگی سے ہوتا تھا اور وہ تمام شہر میں درسِ قرآن کےلئے مشہور تھیں اور یہ صفاتِ احسن اُنھیں اپنی والدہ مقبول بیگم سے وراثت میں ملی تھیں۔ بشر نواز کی نانی ایک سرکاری مدرسے میں معلمہ کی خدمات انجام دیتی تھیں پتہ چلا کہ بشر نواز کا پورا خاندان علم وادب کا حامل تھا۔ کسی بھی فرد کو "شخص" بنانے میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ آدمی کہاں کہاں سے کیا کیا اخذ کر تا ہے؟ اس کا کوئی ایک جواب نہیں دیا جاسکتا۔ بشر نواز خاکِ دکن سے اٹھے اور ایک دُنیامیں نوازے گئے۔ یہ سب اُنہوں نے اپنے ضمیر و قلب سے نکلنے والے حرف کے ذریعے حاصل کیا۔ اس میں ان کی کسی ہوس کا کوئی دخل نہیں تھا۔

جو لوگ پُر اعتماد ہوتے ہیں اور جن کے فکر و عمل میں اخلاص اور ایک دُھن کی سمائی رہتی ہے ا ن کے ہاں کسی پبلسٹی کا تصور تک نہیں ہوتا ۔ دراصل جن کو اخلاصِ فکرو عمل کی توانائی میسر ہوتی ہے وہ اس طرح کی ہوا ہوس سے خود ہی دور ہو جاتے ہیں۔ بشر نواز نے اپنی حیات ہی میں اپنی آئندہ زندگی کے روشن پہلو دیکھ لئے تھے۔ ایسا ہر فنکار کے ساتھ نہیں ہوتا مگر ہوتا تو ہے اور وہ بشر نواز کے ساتھ ہوا۔
ساگر سرحدی کی فلم میں ان کے لکھے ہوئے ایک گانے کا یہ شعر اس وقت بے طرح یاد آ تا ہے:
"گلی کے موڑ پَہ سونا سا کوئی دروازہ
ترستی آنکھوں سے رستہ کسی کا دیکھے گا

اس دور میں جب کہ ہمارے اِرد گرد ادب کے نام پر ایک بازار سا لگا ہوا ہے اور جدھر نگاہ جاتی ہے ایک افراتفری اور انتشار کا سا ماحول ہے ایسے میں بشر نواز جیسے زندہ ضمیر قلم کارکا اُٹھنا ہماری زبان و ادب کابڑا نقصان ہے۔

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The sad demise of Renowned Urdu poet Bashar Nawaz. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں