پندرہ رمضان کو جمعہ کے دن ایک ہیبتناک حادثہ - حقائق کیا ہیں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-02

پندرہ رمضان کو جمعہ کے دن ایک ہیبتناک حادثہ - حقائق کیا ہیں؟

Alarm of doomsday
رسول رحمت حضرت محمدﷺ نے اپنی امت کو بلاکم وکاست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام احکامات اور پورا دین، پوری جاں فشانی کے ساتھ نہ صرف پہنچایابلکہ اس کا حق ادا کر دیا۔ آپﷺ نے جہاں دینی و دنیوی معاملات مین رہ نمائی کی وہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی و حکم سے مستقبل میں پیش آنے والے بعض بلکہ بہت سے معاملات و حادثات کی پیشین گوئی بھی کی، یہ بات اور ہے کہ بعض کم فہموں نے ان کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھایا بعض کج فہموں نے اس بنا پر آپ کو علی الاطلاق عالمِ غیب سمجھ لیا۔رسول اللہﷺ نے امت کو مستقبل میں پیش آنےوالے جن امور سے خصوصی طور پر روشناس کرایامن جملہ ان کے تاقیامت چند ہستیوں کی آمد اور بعض چھوٹے بڑے حادثات کا ذکر بھی ہےلیکن قیامت کس وقت، کس دن، کس تاریخ، کس مہینے اور کس سال میں وقوع پذیر ہوگی اور اس موجودہ دنیا اور اس پر تَنی ہوئی آسمان کی چادر کو کس وقت سمیٹا جائے گا، اس کے متعینہ وقت اور اس کے حتمی اور واقعی علم سے اللہ تعالیٰ نے مَلَکِ مقرب وخاتم الانبیاء کو بھی واقف و باخبر کرنا ضروری نہیں سمجھا، جیسا کہ حدیثِ جبرئیل سے عیاں ہے۔
ربّ العالمین نے رحمۃ للعالمین کو قیامت اور قُربِ قیامت کی بہت سی علامتوں سے آگاہی نصیب کی، جنھیں رحمۃ للعالمینﷺ نے اپنے رب کے منشا کے مطابق دیگر وحی الٰہی کی طرح پورے جزم ویقین کے ساتھ امت تک پہنچادیا،جن کا مقصد یہ تھا کہ امت کا ہر طبقہ قیامت سے ڈرتا رہے اور اس کے آنے سے پہلے ہی سے اعمالِ صالحہ کے ذریعہ اپنی آخرت کی تیاری میں لگا رہے۔ظاہر ہے کہ حضر ت نبیِ صادق ومصدوق کی بیان کردہ یہ تمام پیشین گوئیاں از قبیلِ معجزات ودلائلِ نبوت سے ہیں،جن کا تعلق ایمانیات سے ہےلیکن چوں کہ علاماتِ قیامت سے متعلق اکثر احادیث خبرِ آحاد ہی کی زمرے میں آتی ہیں، اس لیے بعض کم عقل و کج فہم لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ انھیں ایمانیات کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے،جب کہ حضرت نبیِ اکرمﷺ کی بیان کردہ یہ پیشین گوئیاں بابِ نبوت کا جزوِ لازمی ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ پورے عہد ِصحابہ ؓ میں اس کے انکار کی ایک مثال بھی نہیں ملتی ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ نے آپﷺ کی بیان کردہ ان پیشین گوئیوں اور آپ کے دیگر اقوال پر ایمان ویقین میں سرِموامتیاز نہیں کیا، اس لیے آپﷺ کی زبانِ اطہر سے نکلی ہوئی ہر وہ بات جو لائقِ اعتماد اور بھروسے کے قابل طریقے سے ہم تک پہنچے، اس کو بلا چوں و چرا مان لینا ہمارے اوپر لازم و ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق اعتقادات سے ہویا فضائل و مسائل سے، ہاں ان تینوں کے استنباط و استخراج میں خاصا فرق ہے، جو کہ علماء محققین کا میدان ہے۔ اس وقت ہمیں اپنی بات ایک مختصر مضمون میں ختم کرنی ہے، اس لیے تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ دورِ حاضر میں بعض حلقوں سے اس طرح کی احادیث کے سلسلے میں جس ناپسندیدہ جسارت کا اظہارکیا جا رہا ہے،وہ ایک عظیم فتنہ ہے،جس کی سرکوبی کی تدابیر کی جانی چاہئیں، اسی طرح اس باب میں جو بے سر و پا باتیں مشہور ہو گئی ہیں، ان کو بھی چھان پھٹک کر علاحدہ کرنا اہلِ علم کی ذمے داری ہے۔مضمونِ ہٰذا میں ہمیں علاماتِ قیامت کے باب میں وارد ایک مضمونِ حدیث سے متعلق تحقیق پیش کرنی ہے، جس پر اس وقت بعض عوام ہی نہیں بلکہ بعض اہلِ علم بھی ایک گو نا خلجان کا شکار ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان میں آواز ہوگی اور ذی قعدہ میں قبائل کی بغاوت ہوگی اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائے گا۔( مجمع الزوائد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر رمضان میں چیخ سنائی دے گی تو شوال میں شور شرابہ ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل کی بغاوت ہوگی اور ذی الحجہ میں خون بہے گا اور محرم کا مہینہ تو کیا ہی مہینہ ہوگا!ہم نے پوچھا؛ اے اللہ کے رسولﷺ!یہ چیخ کیسی ہوگی ؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا :نصف رمضان المبارک میں جمعہ کی رات کو ایک چیخ (یا دھماکہ ) ہوگا جو سونے والوں کو بیدار کردے گا ،کھڑے ہونے والوں کو بٹھادے گا ،شریف زادیاں اپنی خلوت گاہوں سے نکل آئیں گی۔اس سال زلزلے کثرت سے آئیں گے۔جب تم جمعہ کے دن فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے گھروں میں داخل ہوکر دروازے اور کھڑکیاں بند کرلینا ،اپنی چادریں اوڑھ لینا ،اپنے کان بند کرلینا ،اور جب تمھیں چیخ کا احساس ہو تو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا اور یہ پڑھنا ”سبحان القدوس “ یعنی پاک ہے وہ ذات جو تمام نقائص سے پاک ہے،”ربنا القدوس“یعنی ہمارا رب، جو نقائص سے پاک ہے! جو ایسا کرے گا وہ نجات پائے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔(الفتن نعیم بن حماد)
خیال رہے اس دن اور تاریخ کا اتفاق اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور اس سال ہندوستان کی ریاستِ گجرات میں شدید زلزلہ بھی آیا تھا لیکن اللہ کے فضل سے ایسی کوئی ان ہونی نہیں ہوئی۔ ویسے بھی علاماتِ قیامت کی احادیث میں کوئی سال متعین نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان کو ان چیزوں سے گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں البتہ ہر وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی کسی ناگہانی حادثے سے بچنا انسان کے بس میں نہیں، جو ہمارے بس میں ہے اگر ہم وہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہمیں عافیتوں سے گھیر لےگا۔ان شاء اللہ
جہاں تک اس حدیث کی صحت کا تعلق ہے تو یہ حدیث منکر ہے، صحیح نہیں ہے اور حضرت نبی کریمﷺ سے ایسی بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ یہ روایت مختلف طرق سے وارد ہوئی ہے، کہیں مختصر ہے اور کہیں طویل، سب سے طویل حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ علامہ عقیلیؒ نے لکھاہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔ علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث من گھڑت ہے۔علامہ ذہبیؒ نے بھی اسے موضوع کہا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانیؒ نے بھی اسے موضوع شمار کیاہے۔ علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں: مستقبل کی تاریخ سے متعلق اس طرح کی احادیث (جن میں دن اور تاریخ کا تعین کیا گیا ہو) صحیح نہیں ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھیں:
(1)الموضوعات لابن الجوزیہ
(2)السنن الواردۃ فی الفتن للدانی
(3)الفتن للنعیم بن حماد
اور(4) الاحادیث الضعیفہ للالبانی وغیرہ۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
موبائل : 09022278319
مولانا ندیم احمد انصاری

The authenticity of a narration regarding doomsday. Article: Nadim Ahmed Ansari

2 تبصرے:

  1. افسوس ہے کہ نام نہاد خود ساختہ عالم حضرات اس طرح کی منکر و موضوع احادیث کا حوالہ دے کر ملت میں خوف و حراس پیدا کرتے ہیں۔ کاش کہ یہ چند روپیوں کی خاطر اس طرح کے عمل سے باز رہتے۔
    فیروزہاشمی

    جواب دیںحذف کریں
  2. چند کم فہم علماء اگر یوں کہا جائے کہ صرف عالم کا ٹیگ اپنے اوپر لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ جس کے شروع میں یہ لکھا ہو (عن ابی ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال قال رسول ﷺ) سب حدیچ بیان ہی کی جا سکتی ارے جس حدیث کے بارے میں محدثین و محققین نے یہ کہہ دیا ہو کہ یہ حدیث منگھڑت ہے تو پھر اسکے بیان کر نے کا کیا جواز ہے۔ کچھ محققین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس کو بیان کرنا ہی صحیح نے ۔
    لیکن یہ پیٹو علماء اپنی حرکتوں سے باز کہاں آتے ہیں۔ اس طرح کی بات اگر عوام تک پہنچے تو ضرور انہیں معتبر علماء سے رابطہ کربا چاہئے۔ ورنہ یہ علماء سو خود تو گمراہ ہوتے ہیں اور بھولی بھالی عوام کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں