کمپیوٹر شعر کہے گا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-14

کمپیوٹر شعر کہے گا

computer-shayeri
خبر ملی ہے کہ کمپیوٹر شعر بھی کہے گا۔ ایک ہی قبیلے کے ہم مزاج الفاظ کو جو کچھ باہمی ربط بھی رکھتے ہوں، اگر کمالِ ہشاری سے کمپیوٹر کے اس پروگرام میں فیڈ کر دیا جائے تو ایک نہیں کئی طرح کی لے (Rhythm) والے شعری ٹکڑے یہ پروگرام فراہم کر دے گا۔ اپنی صواب دید کے مطابق الفاظ کے مجموعے بدلتے جائیے اور اشعار کہتے جائیے۔
یعنی ایک بے جان شے کی یہ مجال کہ زندہ اصنافِ سخن پیدا کرنے کی جرأت کرے۔ ہم شاعر نہ بھی ہوتے تب بھی دل کو دھچکہ لگتا اور شاعرانہ وصف سے متصف ہوتے ہوئے تو یہ خبر ایک صدمہ ٔجانفزا ںسی ہو گئی۔ ہم ٹھرے غزل کے شاعر‘ ہماری نگاہوں میں اردو غزل سے وابستہ تمام فکری و فنی کار فرمائیاں ڈانواڈول ہو گئیں۔ ہمیں تو اردو شاعری کی لفظی صناعیاں، زبان و بیان کی نازُک سامانیاں اور معنوی التزامات گویا قتل ہوتے ہوئے نظر آئے۔
غزل جو پچاس سالہ شعور اور ہزار سالہ لاشعور کا نغمہ ہے جب اس نوعمر کمپیوٹر کے ہاتھ پڑے گی تو اس کا کیا حشر ہوگا۔ ممکن ہے کوئی جامع پروگرام کمپیوٹر کو یہ ادراک کرا دے کہ جو الفاظ اس میں لے بنانے کے لئے فیڈ کئے جا رہے ہیں وہ فکر کی کس سطح کی غمازی کرتے ہیں، جو شخص یہ الفاظ کمپیوٹر کو شاعری کرنے کے لئے دے رہا ہے اس کے افکار کا طول و عرض اور وزن و عمق کیا ہے۔کاش کہ اشعار وضع کرتے وقت اپنے دور کے تقاضوں اور وقت کی بصیرتوں اور بنیادی قدروں پر گرفت کمپیوٹر کو نصیب ہو جائے۔ فن کی پاسداری غزل کی ایمائیت اور اشعار کی رمزیت کو برتنا بھی شائد کسی سوفٹ ویئر کے ذریعہ ممکن ہو جائے۔ معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کا اسلوب غزل بھی اگر کمپیوٹر کو سکھا دیا جائے تب بھی شاعر کے تخیل کا مزاج اور بے لگام آسمانی اور زمینی تصور تو کمپیوٹر کو آہستہ آہستہ ہی آئے گا۔ کلام میں والہانہ جوش، سرمستانہ کیفیت پیدا کر دینا اور مقبولیت اور معنویت کے تقاضوں کو پورا کر نا بھی اس الہڑ کمپیوٹر کو سکھانا پڑ جائے گا۔ ہاں اگر کوئی فکری اور نظریاتی شعور کی ترجمانی کرنے والا اشعار کہنے کے لئے کمپیوٹر کو آمادۂ سخن کرنے لگا تو کمپیوٹر بڑی دُشواری میں پڑ جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہو جائے تو شاعری میں چپکے چپکے بدلتی ہوئی زبان کے روز مرہ کا استعمال اور اپنے دور کے تقاضوں کے تحت زبان وضع کرتے چلنا بڑے جوکھم کا کام ہوگا۔
غزل، نظم، رباعی، قصیدہ اور قطع کہنے یا دوہا اور ثلاثی کہنے کے لئے سافٹ ویئر بنائے جا سکتے ہیں مگر ایک ایسے دور میں جب اپنے حقیر مشاہدہ اور مطالعے سے ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ اس قدر غلط اور بے سروپا جملے لکھنے کا رواج ہو چکاہے، تو جب یہ زبان کی ہنر مندی کمپیوٹر کے حوالے ہوگی تو کس طرح کی زبان وجود میں آئے گی۔ ایک زمانہ تھا کہ عام بول چال میں جملوں کے صحیح استعمال کی سند اساتذہ کے اشعار سے لائی جاتی تھی۔ آج بھی تمام بڑی لغات ان مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہزاروں الفاظ کے مروجہ مفہوم متروک ہو گئے۔ اب جو زبا ن آج کی ناچتی گاتی ہوئی تہذیب کے متوالے کمپیوٹر پر بیٹھ کر تشکیل دیں گے وہ اپنا جواز آپ ہوگی۔
ونڈو2000 انگریزی زبان لکھتے ہوئے ہجے کی غلطیاں درست کر دیتاہے اور گرامر کی خامیوں کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ اردو کے لئے کچھ مشاق مگر دانشورانہ ذہن کے نوجوان اگر کوشش کریں تو اردو کا مستند استعمال لاگو کیا جا سکتا ہے۔آج ہندوستان میں ہندی اور مراٹھی، گجراتی کے اثرات اردو کے درپہ ہیں اور پاکستان میں کئی زبانوں نے اردو کا حلیہ بگاڑکر رکھ دیا ہے، تو دہلی اور لکھنؤ کی اردو، میر کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی اردو کی حفاظت اور فروغ کمپیوٹر کے سپرد کیا جانا ایک خوش گوار مشغلہ ہو سکتا ہے۔ زبان کے سیاسی رکھوالے اس سلسلے کی بڑی کڑی ہو سکتے ہیں۔ وہ اس قسم کی تجاویز سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی راہ بھی خوب نکال سکتے ہیں۔
غزل گوئی مشکل ضرور ہے مگر کچھ شاعرانہ مزاج پروگرامر کوشش کریں تو تجربات نقل کرنے کا یہ فن، تہذیب، عاشقی، وحشت و دیوانگی کا یہ ہنر، رشک اور ازخودرفتگی کا یہ اظہار، خودداری اور بے خودی، غفلت آگہی کی یہ عکاسی کمپیوٹر سے ہو سکتی ہے۔ چاندنی کی انگلیوں سے پتیوں کے سینوں پر شبنم کی کہانیاں ایک بظاہر بے جان مشین لکھ سکتی ہے اور دھوپ کی تمازتوں سے پتھریلی چٹانوں پر وقت کی داستان یوں بھی رقم ہو سکتی ہے۔
غزل کا عالمگیر مزاج اور آہنگ ہے۔ آج انٹرنیٹ کے ذریعے ملک ملک کی زندگی، مختلف زبانوں اور رنگارنگ تہذیبوں کے رنگ اپنے اندر سمو لینے کا اردو غزل کا سلیقہ فروغ پا سکتا ہے۔ غزل اپنے دور کے وقتی آئینہ خانے سے نکل کر ہر عہد کی جیتی جاگتی دنیا میں گزر بسر کرنا سیکھ سکتی ہے۔یہ غزل ہر دور کے شعور کی حصار بندی کا بوجھ اٹھائے موسیقی کی نغمہ آفریں معنویت لئے ہوئے کروڑوں دلوں پر راج کرتی رہ سکتی ہے۔
غزل کی تمام رسومیات کو کمپیوٹر سے بہ حسن و خوبی سرانجام دینے کے لئے کام تو بہت سے ہیں۔شاعر کی پریشاں حالی، پیچ و تاب، تجرد، تڑپ اور تلاش کو کمپیوٹری اشعار میں لانے پر کام ہو سکتا ہے۔ دلِ شاعر کی حسرت ویاس، خانہ خرابی، کرب ا ور آشوب زمانہ کی عکاسی کرانے پر کام ہو سکتا ہے۔ غمِ یار اور غم روزگار سے لیکر تمام رنج و غم، سر بہ گر بیانی اور کرب و بے چینی کو منقل کرنے والے سافٹ ویئر بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ چلا تو مارکیٹ میں ہجر کے گلے شکوے اور دنیائے دل کی بے رنگی پر فخر کرنے کو شعریات میں اظہار کرنے والے سافٹ ویئر کی مانگ بڑھ جائے گی اور کتنے ہی دل جلے مالا مال ہو جائیںگے۔
اپنی کلاسیکی غزل کی شعریات کو اگر کمپیوٹر میں فیڈ کر دیا جائے تو پھر میرؔ کی شعور انگیزی، غالبؔ کی بلندخیالی، ہمارے اشعار میں لے آنا کیا مشکل ہوگا۔ حسرتؔ کی شگفتگی ہو، میرؔ کی دردمندی ہو یا اقبالؔ کی نکتہ سنجی ہو، بس بٹن دبائیے اور اپنے کلام میں داخل کر دیجئے۔جگرؔ کے لب و لہجہ، استعارے کنائے، تراکیب لفظی اور بندش الفاظ کیا دور کی بات ہوگی۔ اور چند معروف شاعروں پر ہی کیا موقوف ہے، تمام مشہور و معروف اور غیر معروف اساتذہ کا کلام ان کی بحریں، اشعار کا آہنگ، ان کا ابہام، انشائیہ اسلوب، شعری پیکر، مشابہتوںکو محسوس کرنے اور اس فن کو استعمال کرنے کی قوت اگرکمپیوٹر میںلے آئی جائے ،پھرتو ہر ہر انداز کو آزما تے جایئے۔ یا تو صاف صاف نام لیکر انھیں کے رنگ میں کمپیوٹر سے شعر حاصل کرتے جائیے یا مکسنگ (Mixing)کرکے سب رلا ملا کر شعرحاصل کیجئے اور اس ملے جلے رنگ کو اپنا رنگ بناکر شائع کرا دیجئے۔
کلاسیکل غزل میں تو لا تعداد خصوصیات ہیں، اس غزل میں ڈرامائیت، سبک بیانی، خوش طبعی، تنز و مزاح، عشق کی تہہ داری اور غزل کو خود نوشت سوانح حیات بنا دینے کا فن جب یہ سب الٹ پلٹ کر ملا دئے جائیں گے تو کون تحقیقی اسکالر ہے جو پتہ لگائیگا کہ کہاں کہاں سے ’’استفادہ‘‘ کیا ہے۔ استادوں کی متانت، لطافت، معصومیت، ان کے عشق کی نوعیت، دہی ضرب المثل اور محاوروں کے استعمال پر قدرت، معاملہ بندی، رعایت اور مناسب کا اہتمام سب کمپیوٹر میں سما جائے تو پھرسے کلاسیکل غزل کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی روانی، زور بیان اور سبک بیانی کے تازہ بہ تازہ نمونے گلی گلی کوچے کوچے نمودار ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کو زبان کی روانی، روز مرہ کی صفائی مصرعوںکی برجستگی، بندش کی چستی، شگفتگی اور بے ساختگی سکھانے میں وقت تو لگ سکتا ہے، زبان کی شیرینی، فصاحت، کلام کی بلاغت، خیال کی لطافت، حسن بیان، نزاکتِ تخیل، صداقتِ جذبات بھی اس دور کے کمپیوٹر کو آسانی سے نہیں آئیگا۔ اثر آفرینی، وجد انگیزی، جدت طرازی وغیرہ وہ روائتی شعری محاسن ہیں جو کمپیوٹر پر بھاری پڑیںگے۔
کمپیوٹر سے کہلوائی ہوئی یہ غزل زندگی کی المناکی کے بجائے انسانی تعلقات سے بھرپور غزل ہوگی۔ جس میں فکر و فن اساتذہ کا ہوگا تو مغز ریزی کچھ شاعرانہ مزاج رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامرس کی ہوگی، تخلیق اس کی کہلائے گی جو پیسہ خرچ کرکے یہ سوفٹ ویر خریدیگا اور اپنے طور پر اپنی ذہنی ترنگ کے مطابق شعر بنائے گا۔
ایک نقصان ہماری شاعر برادری کا ہوگا۔ اُردو نیوز کی اشاعت سے اب تک چند سالوں میں خلیجی ممالک سے پیدا ہونے والے شاعروں کا کلام جب اس پروگرام میں فیڈ کرینگے تو یہ بتا دیگا کہ یہ مصرع فلاں استاد کا ہے یا یہ شعر فلاں شاعر کے شعر کا چربہ ہے۔ بڑی مشکل پڑ جائے گی جب معلوم ہوگا کہ اچھے اچھے نامور شعراء نے جنھیں حکومت سے انعام اور پدم شری کا اعزاز مل چکا ہے پورے کے پورے مصرعے استادوں کے اڑائے ہوئے ہیں۔ وقت اس کمپیوٹر سے کیا کیا کرائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

***
manjumiqbal[@]gmail.com
موبائل : 00966502537312
Makkah Mukarramah, KSA.

Poetry by Computer. Article: Anjum Iqbal

1 تبصرہ:

  1. قدم قدم پہ اجالے اتر کر آگیے
    تیرے نصیب میں تارے اتر کر آگیے
    سہارا بنکے نکل گھر سے بے سہاروں کا
    تری مدد کو فرشتہ اتر کے آگئے

    G.M.Qadri

    جواب دیںحذف کریں