ایسے بھی تھے کہ انھیں غصہ دلاؤ تو ایک کلو مٹھائی کھاؤ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-05

ایسے بھی تھے کہ انھیں غصہ دلاؤ تو ایک کلو مٹھائی کھاؤ

control-anger
ممبرا آج کثیر آبادی کا ٹاؤن بن چکا ہے مگر وہ وقت گزرے ہوئے بہت زمانہ نہیں ہوا جب یہاں گنتی کے گھر تھے ۔ ایک طرف کھاڑی اور دوسری طرف پہاڑی، ایک نیارے گاؤں کا منظر تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جو مسلم ہوٹل ہے اس سے متصل شکیل صاحب کی پان کی دکان تھی اور اس سے متصل نظام الدین اشرفی عطر اور اگر بتّی کی دکان سجاتے کیا، یہاں کی فضا مہکاتے رہتے تھے۔ یہ دکان اس زمانے میں یہاں کے شعرا و ادبا اور صحافیوں کا ایک مرکز بھی ہوا کرتی تھی ۔ شام کو یہ معمول تھا کہ قاضی وصی احمد عرف آوارہ (سلطان پوری) نظام الدین اشرفی کی دکان پر ضرور آتے اور ان کا یہ سلسلہ برسہا برس کا تھا۔۔۔
نظام الدین اشرفی سے روایت ہے کہ شکیل پان والے اور نظام الدین میں کسی موضوع پرگفتگو میں یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ اس ش ی ع ہ بچّے (آوارہ) کو غصہ دلاؤ تو ایک کلو مٹھائی کھاؤ۔
نظام الدین نے جواباً کہا، میرے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔
آوارہ حسب معمول ایک شام آئے اور نظام الدین کی دکان پر اپنے کرتے کا پچھلا دامن اٹھا کر بیٹھے ہی تھے کہ نظام الدین نے جملے بازی شروع کی، آوارہ صاحب مسکراتے رہے، سنتے رہے، نظام الدین کے جملوں کی بندوق جب خالی ہوگئی تو انھوں نے آخری داؤں یہ چلایا کہ آوارہ صاحب کے مسلکی و مذہبی شعائر پر حملہ آور ہوئے۔ پے در پے جب کئی وار یہ بھی خالی گئے تو نظام الدین پر مایوسی طاری ہوئی تو تبسم کے ساتھ آوارہ صاحب کے منہ سے صرف اتنا نکلا کہ۔۔۔۔
" نظام الدین! آج دوپہر میں کس جانور کا گوشت کھایا تھا۔؟"۔۔۔

یہ کہہ کر آوارہ صاحب کرسی سے اٹھّے، عادت کے مطابق اپنے کرتے کا پچھلا دامن یوں جھٹکا جیسے نظام الدین کی خرافات، انہی کے منہ پر مار رہے ہوں اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۔۔جوانی میں لکھنؤ کے اکھاڑوں میں پہلوانی کئے ہوئے 70 سالہ نظام الدین نے برسوں بعد ہمیں بتایا کہ اس دن کی شکست میں آج تک نہیں بھولا۔
جب آوارہ چلے گئے۔ تو شکیل پان والے کے کان میری ہی طرف لگے ہوئے تھے ،اچھل کر آئے اور فاتحانہ انداز میں کہنے لگے۔
" نظام الدین !میں نے کہا تھا نا ،کہ تم آوارہ کو غصہ نہیں دلا سکتے۔ لاؤ مٹھائی کھلاؤ۔۔ نظام الدین! یہ لوگ راجستھانی کنویں ہیں، راجستھانی کنویں۔۔۔ تمہارے ڈول کی رسّی جتنی لمبی ہو ،کم ہی پڑیگی ان کی گہرائی کو پہنچنے کیلئے کے لیے۔ "۔۔

نظام الدین بتاتے تھے: " آوارہ بہر حال آدمی تھے۔ میری یہ حرکت یقیناً انھیں گراں گزری۔ دو چار دن وہ نہیں آئے۔ مگر پھر چند دنوں بعد اسی طرح اْن کی آمدورفت شروع ہوگئی۔کئی برس بیت گئے میرے دل میں اپنی اس حرکت کا کانٹا چبھتا رہا خیال گزرا کہ عمرکا کیا بھروسہ کون کب رْخصت ہوجائے۔ لہٰذا ایک شام میں نے کہا کہ " آوارہ! تم سے ایک حساب برابر کرنا ہے۔"۔۔۔
آوارہ کے ماتھے پر شکنیں اْبھریں اور وہ گویا ہوئے کہ ۔۔۔کیا مجھ پر تمہارا "کچھ "بقایا ہے؟ ۔۔۔
نظام الدین نے کہا نہیں تم پر نہیں، مجھ پرکچھ باقی ہے۔ آوارہ صاحب نے تجسس بھرے لہجے میں استفسار کیا:
وہ کیا؟ ۔۔۔
جواباً، نظام الدین نے ماضی کا وہ واقعہ دہرایا کہ شکیل اور میرے درمیان یہ شرط لگی تھی کہ
" آوارہ کو غصہ دلاؤ تو ایک کلو مٹھائی کھاؤ۔ "۔۔۔
میں ا پنے اس دن کی یاوہ گوئی کیلئے تم سے معافی چاہتا ہوں۔

نظام الدین نے آوارہ صاحب کی ر حلت پر ہمیں اس واقعے کاکلائمکس روتے ہوئے سنایا تھاکہ جب میں نے آخری جملہ ۔۔۔'معافی چاہتا ہوں'۔۔۔ادا کیا تو آوارہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ
" نظام الدین! ۔۔۔۔بس اتنی سی بات کیلئےـــ۔۔۔تم نے وہ سب کیا تھا۔
اماں لکھنوی پہلوان! ہم لوگ حسینی ہیں حسینی۔۔۔ ہم صبر و اعراض کے ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں ارے کچھ اور بھی کرکے دیکھ لو حاضر ہوں۔ ہم پر تو کوفے سے لے کر اب تک حملے ہی ہورہے ہیں مگر ہم زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ شکست کس کا مقدر ہے یہ تو تم بھی جانتے ہو نظام الدین!!۔۔۔"

آوارہ فوراً اٹھّے اور مٹھائی لے کر آئے، کہنے لگے شکیل (پان والے) تو مرگئے، وہ دوست تھے اور مردم شناس بھی ان کی روح کو ایصال ثواب کرو۔ مٹھائی پر مجھ سے فاتحہ کروائی خود بھی کھائی مجھے بھی کھلائی اور آس پاس کے لوگوں کا بھی منہ میٹھا کروایا۔۔۔

یہ باتیں اور ان مرحومین کو بہت وقت نہیں گزارا، یہی کوئی بیس پچیس برس کی مدت۔ ان میں عام اختلاف رائے ہی نہیں مذہبی اختلاف بھی تھا مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے اعراض ان کی جیسے فطرت ثانیہ تھی۔ رات کے گیارہ بج گئے اور اگر ان میں سے کوئی ممبئی گیا ہے اور نہیں لوٹا تو سب کے سب فکر مند ہو جاتے تھے اور رات دیر گئے انتظار کرتے رہتے اور جب وہ آجاتا تو خیر خیریت طلب کرنے کے بعد وہ اپنے گھروں کو جاتے تھے۔

اب اسی ممبرا کے گھروں سے۔۔۔ اور ممبرا کیا اپنے اپنے علاقے کے گھروں میں رات دیر گئے بھی ایسی ایسی نسوانی اور مردانی آوازیں ایک دوسرے سے الجھتی ہوئی ہم سب سنتے ہی رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ' کالم نگار تو پھینک رہا ہے۔'
ہم کہتے ہیں جن کو یقین نہیں آتا، ان سے عرض ہے کہ شعبان المعظم کے آخری ایام ہیں اور صرف دس بارہ دنوں بعد ہم اپنے علاقوں میں چھوٹوں کا نہیں عمر دراز متقی جیسے لوگوں کا شام کے وقت مشاہدہ کریں ، ہم کریں نہ کریں دنیا تو یہ منظر عام طور پر دیکھتی ہی ہے کہ بڑے میاں اور جوان سب 'جلال صوم' میں مبتلا ملتے ہیں کوئی راستے پر ٹیکسی والے سے کوئی بائیک پر اپنے سے آ گے نکلنے والے پر یوں اتاؤلا رہتا ہے کہ بس۔۔۔ انھیں غصہ دلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی ۔۔۔ اگر انھیں غصہ نہ آئے تو چچا نظام الدین اشرفی والی ایک کلو مٹھائی کھایئے۔

آنے والے مبارک ایام اپنے نفس پر لگام بھی چاہتے ہیں صرف بھوکے پیاسے رہ کر کچھ نہیں ملتا۔
یہ ہم ہی نہیں کہتے مولوی صاحب نے بھی کتابوں میں یہی لکھ رکھا ہے۔ مگر اب کتاب کون پڑھتا ہے۔۔۔!!

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

control anger and practice patience & tolerance. Article: Nadeem Siddiqui

1 تبصرہ: