ہم کبھی کثرت و قلت پر بھروسہ نہیں کرتے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-13

ہم کبھی کثرت و قلت پر بھروسہ نہیں کرتے

maulana-nadeem-ansari
گذشتہ دنوں آئی اس رپورٹ نے ہندو انتہا پسندوں کی نیند اُڑا دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ چند دہوں میں مسلمان ملک کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن جائیں گے۔انھیں فکر ہونے لگی ہے کہ جن مسلمانوں کو ہم مختلف حربوں سے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، آخر یہ کیوں کر اتنی بڑی طاقت بن کر ابھریں گے۔ ہم نے تو ان کے دانا پانی بند کرنے کی کوشش کی، ان کی مرغوب غذا پر پابندی لگا دی، انھیں فرضی مڈبھیڑوں میں انکاؤنٹر کروادیا، ان کے علاقوں میں دہشت کا ناچ نچوایا، کیا یہ سب بے سود رہے گا؟اس موقع پر ہم اتنا ہی عرض کریں گے کہ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہم مسلمان کبھی کثرت و قلت پر بھروسہ نہیں رکھتے، ورنہ تو جب مسلمان فقط تین سو تیرہ تھے، تو ایک ہزار کے لشکر کے سامنے ڈٹ نہ جاتے۔ہاں آپ اطمینان رکھیں کہ جب ایسا ہوگا، اس وقت بھی ہم آپ کے ٹھکانوں کو نہیں اجاڑیں گے، آپ کے نوجوانوں کو اس طرح انکاؤنٹر کے نام پر بھینٹ نہیں چڑھائیں گے،اس لیے کہ ہم تو دنیا کو امن و آشتی کا پیغام دینے کے لیے آئے ہیں، روٹھوں کو منانے کے لیے آئے ہیں، مصیبت زدوں کو گلے لگانے آئے ہیں۔ ہم بدلہ لینے نہیں آئے، ہم ظلم کا بازار گرم کرنے نہیں آئے۔ کیا آپ نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، اگر نہیں کیا تو اب ضرور کر لیں، آپ کو معلوم ہوجائےگا ہم تو وہ ہیں کہ مکہ کے مشرکین نے ہمیں ظلم و استبداد کے باعث شہر سے نکلنے پر مجبور کیا تو خالی ہاتھ جاکر مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کر لی اور جب اللہ نے طاقت و قوت سے نوازا اور فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں واپسی کا موقع ملا، اس وقت بھی ہماری زبانوں پر تھا "آج معافی کا دن ہے، بدلے کا دن نہیں ہے"۔
وشو ہندو پریشدنے2050ءتک ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہونے کے تخمینوں کے پس منظر میں ملک میں"آبادیاتی عدم توازن"کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک قانون کا مطالبہ کیا اور ہندوؤں سے کہا کہ وہ مسلمانوں جتنے بچے پیدا کریں۔خدا جانے ان کی نظر میں بچے پیدا کرنا کیا محض ایک انسانی فعل ہےکہ آپ کی جتنی مرضی آئے پیدا کرلو۔ ہم تو اس معاملے میں بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے، دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کچھ بھی نہیں دیتا۔ آپ نے خود ایسے پرفیکٹ کپلس کو دیکھا ہوگا، جو تندرست بھی ہوتے ہیں اور جن میں ظاہری طور پر کوئی کمی نہیںہوتی لیکن پھر بھی وہ شادی کے کئی سالوں بعد بھی بچے کی کلکاریوں کو ترس رہے ہیں۔ ایسے بھی نحیف و لاغر میاں بیوی کو بھی آپ نے دیکھا ہوگا، جن کی ناک پکڑو تو دم نکلے لیکن ان کے ہاں اولاد کی کثرت ہے۔ پھر آپ اس بات کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ کون کتنے بچے پیدا کرے؟ سریندر جین کا کہنا ہے کہ ایسا نہ ہونے پر ملک کشمیر، پاکستان یا افغانستان جیسا بن جائے گا، جہاں مسلم اکثریت میں ہیں۔ وشو ہندو پریشد کا یہ تبصرہ"پیوسرچ سینٹر"کے ایک بین الاقوامی مطالعہ کے نتیجہ کے بعد آیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان2050ء تک سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔اس سے پہلے بھی وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی جنرل سکریٹری چمپت رائے نے یہ تبصرہ کیاتھاکہ ہندوؤں کوایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے چاہئیںتا کہ ہندوستان کی آبادی کی شکل میں"کوئی عدم توازن"نہ آئے۔اس سے پہلے بھی بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ، ساکشی مہاراج کے ذریعہ ہندو خواتین سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل پر ہنگامہ ہو چکا ہے۔جس پر انگریزی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق کانپور میں آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کی ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے کہا تھا"ہماری مائیں بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہیں، کتنے بچے پیدا کرنے ہیں، وہ ان کا نجی فیصلہ ہے۔" مذکورہ اخبار کے مطابق اس میٹنگ میں موجود لوگوں نے بتایا کہ بھاگوت نے ہندوؤں کے گھٹتے تناسب کا تذکرہ کیا اور اسے قومی سلامتی کے لیے خطرناک بتایا۔اس وقت ہندوستان یا دنیا بھر کے جو بھی حالات ہیں، ہم ان سے قطعاً مایوس نہیں، یہ تو زندگی کے آتے جاتے رنگ ہیںلیکن اس بات سے فکر مند ضرور ہیں کہ مٹھی بھر فرقہ پرستوں نے کس طرح ملک میں آپسی رنجش کو بڑھا دیا ہے۔ چند سالوں پہلے تک جس ملک کے باسی آپس میں پیار ومحبت سے ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک رہتے تھے، ان کے دلوں میں کسیی کدورت پیدا کر دی گئی ہے ! انسانیت کو کیا ہو گیا ہے کہ جو ان میں سے کسی ایک کے ذہن و دماغ میں ہے وہ جبراً دوسروں پر وہی کچھ تھوپنا چاہتا ہے؟ ہم اس مضمون کے ذریعے قارئین کو اس جانب متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے ہم پر کوئی مصیبت نہیں آتی،مگر وہ ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے رب نے ارشاد فرمایا ہے:" اے نبی (ﷺ)! آپ فرما دیجیے کہ ہم پر کوئی حادثہ اور مصیبت نہیں آتی، مگر وہی جو اللہ نے ہمارےلیے مقدربنایا ہے، وہ اللہ ہمارا مالک ہے اور چاہیےکہ تمام مسلمان اسی پر بھروسہ کریں اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کریں۔" (سورہ توبہ:51)
آپ کو ہماری آبادی بڑھنے سے بھلے ہی خطرہ محسوس ہو رہا ہو، لیکن جب یقینی طور پر ہماری آبادی بڑھ جائے گی، اس وقت بھی ہم کبھی اپنی کثرت پر نظر نہیں رکھیں گے، ان شاء اللہ۔ ہمیں تو اسی بات کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کردیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان کی تلافی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہوگا، کامل اور پاے دار نہ ہوگا۔ ہم اپنے ملک میں ہمیشہ اپنے وطنی بھائیوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ہیںاور اگر فرقہ پرست اپنی گندی سیاست کی چنگاریوں سے اس محبت کے آشیانے کو جلاکر بھسم نہ کریں، تو ہمیشہ یوں ہی چین و سکون کے ساتھ ہنسی بکھیرتے ہوئے زندگی گذارتے رہیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی عمارت کا استحکام اس کی ظاہری خوشنمائی سے نہیں ہوتا، نہ مکینوں کی کثرت اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے، حوادث زمانہ کا معاملہ اندرونی حقائق سے آتا ہے، جو کہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے اور دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ اگر یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کرچور چور ہو جاتے ہیںاور اگر بالعکس ہو تو حوادث کی ٹکریں آکر کار اس کو پاش پاش کردیتی ہیں۔
ان سب کے بعد ایک بات ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی کہنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کارساز ٹھہرایا، ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی؛ وہ گھر بناتی ہے حالاں کہ سب گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ (سورہ عنکبوت: 14)مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذات خود کسی قسم کی طاقت و قوت نہیں رکھتی۔ ایسے کمزوروں پر اعتماد کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی کمزور ہوجاتے ہیں جیسے ان کے سہارے ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ دراصل مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں، ان میں طاقت ہوتی ہےنہ قوت۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہمیشہ قادر مطلق رب کائنات پر اعتماد اور بھروسہ رکھیں اور اس اعتماد کو مزید قوی کرنے کی فکر میں لگے رہیں۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

We do not rely on the abundance and scarcity. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں