اردو دشمنی کا نیا طریقہ کار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-30

اردو دشمنی کا نیا طریقہ کار

Urdu-language-and-our-responsibilities
اقلیتوں سے کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنے میں مرکزی حکومت مصروف ہے ، یہ بیان اقلیتی امور کی وزیر ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ کا ہے۔ ہو سکتا ہے نجمہ ہبت اللہ صحیح کہہ رہی ہوں لیکن ہم ان کے اس بیان کو کیسے تسلیم کرلیں جب کہ اقلیتوں کے ساتھ ان کی مادری زبان کو لے کر ہی نا انصافی کی جا رہی ہے ۔
ایک ہی دن دو متضاد خبروں پر ہماری نظر پڑتی ہے تو نجمہ ہبت اللہ کے اس بیان میں صرف سیاسی شعبدہ بازی اور وعدے وعید کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے کیونکہ اس دن یہ بھی خبر ملتی ہے کہ نئے داخلہ فارم سے تیسری زبان کا آپشن ختم کردیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے اس خبر سے اردو والوں کو سخت دھکا لگا ۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں بحیثیت اردو استاد کے درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی تھی اور 10 ویں جماعت کے CBSE کے فارم بھرنے کے لئے آتے تھے تو اس میں ایک تیسری زبان کا آپشن ہوتا تھا جس میں یوں تو سنسکرت اور پنجابی زبان بھی شامل تھی لیکن مسلم طالب علم اگر دسویں میں پہلی زبان انگریزی، دوسری ہندی لے بھی لیتے تھے تو اپشن میں اردو زبان بھردیاکرتے تھے ۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ اردو زبان کا بھی ان کا خواب پورا ہوجاتا تھا اور ہندی دسویں تک پڑھنے سے کسی طرح کی سرکاری نوکری میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی تھی ۔

اصل میں یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ نہ تو کوئی سرکار یا بورڈ کی طرف سے ایسی کوئی ہدایات ملتی ہیں کہ دسویں میں ہندی کا سرٹیفکیٹ سرکاری نوکریوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ مگر خدا جانے اس غلط فہمی یا خوف کی جڑیں کتنی گہری ہیں کہ آج تک کسی حکومت کی طرف سے مختلف سرکاری نوکریوں کے لئے یا ایجوکیشن پالیسی میں دائریکٹوریٹ کی جانب سے ایسا کوئی بھی حکم نامہ نہ آنے کے بعد بھی یہ بات اتنی مشہور ہو گئی ہے کہ مسلم بچے بھی نویں اور دسویں جماعت میں ہندی ہی لیتے ہیں۔ چاہے وہ اردو آٹھویں جماعت تک پڑھتے رہے ہوں اور چاہے ان کی کتنی بھی خواہش کیوں نہ ہو چاہے وہ مستقبل میں اردو کے تعلق سے ہی کوئی کورس کرنے کے بارے میں کیوں نہ سوچتے ہوں۔
سرکاری نوکری نہ ملنے کا خوف اتنا بڑھ چکا ہے کہ اردو میڈیم کے طلباء تک اردو نویں دسویں میں نہیں لیتے لیکن جب انہیں اردو کا آپشن ملتا تھا تو وہ خوشی خوشی اس آپشن کا فائدہ اٹھاتے تھے بھلے ہی گھر بیٹھ کر یا ٹیوشن پڑھ کر ہی تیاری کیوں نہ کریں ۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ مودی سرکار کے آتے ہی مختلف اداروں میں آر ایس ایس کے لوگ سربراہ بنا دئیے گئے ہیں۔ NBT کے چیرمین اے۔ سیتھو مادھون [A. Sethumadhavan] جو کہ ملیالم کے مشہور ادیب بھی ہیں، ان کو ان کی مدت کار ختم ہونے سے پہلے ہی ہٹا کر بلدیا شرما [Baldev Sharma] کو جو کہ آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس کہے جاتے ہیں ، ان کو نیا چیرمین بنادیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ بلدیو شرما کو لانا آر ایس ایس کی بھرپور نمائندگی کو ظاہرکرتا ہے ۔
اسی طرح قومی اردو کونسل میں بھی آر ایس ایس کے پرانے حامی مظفر حسین کو وائس چیئرمین بنا دیا گیا ۔ آہستہ آہستہ مودی سرکار اپنے اصلی روپ میں آتی جارہی ہے ۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے لئے کانگریس ، بی جے پی اور سبھی سرکاریں ایک جیسا سلوک کرتی رہی ہیں ۔ کانگریس کے وقت میں یو پی ایس سی سے عربی اور فارسی کو ختم کر دیا گیا جب کہ پورے ہندوستان سے عربی اور فارسی سے یوپی ایس سی سے کامیاب ہونے والے افسران کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ کسی بھی بڑی تنظیم یا ادارے نے اس کے خلاف بھی آواز نہیں اٹھائی تب بھی "چوتھی دنیا" نے ہی اس فیصلے کے خلاف اپنے اخبار میں لکھا ۔
میں نے بھی اداریہ لکھ کر مختلف تنظیموں اور سربراہان سے اپیل کی کہ خدارا اس فیصلے کے خلاف سڑک پر آجائیے ، پر امن مظاہرے کیجئے ۔ کچھ بھی کیجئے مگر حکومت کو باور کرادیجئے کہ آپ مسلمانوں کے حقوق سلب کرتے جائیں گے ، ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے ۔
لیکن کیا ہوا؟
اگر مظاہرہ کسی نے کیا تو وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء نے کیا یا جامعہ ملیہ کے طلباء نے ، مگر نقار خانہ میں طوطی کی کون سنتا ہے ، یہ صدا بھی بازگشت بن کر رہ گئی ۔
ایسا لگ رہا ہے کہ داخلہ فارم میں اردو آپشن ختم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اقلیتی طبقے کو نفسیاتی دباؤ میں رکھاجائے ۔
جب سے بی جے پی حکومت وجود میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف زہر اگلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے بلکہ ایسی پالیسیاں بھی اپنائی جارہی ہیں جس سے اقلیتی فرقہ سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے ۔
دہلی میں آپ پارٹی کی حکومت ہے، منیش سسوڈیا وزیر تعلیم ہیں ، دہلی میں اردو سرکاری زبان ہے مگر بی جے پی کے ساتھ ساتھ آپ پارٹی بھی اقلیتوں سے دشمنی کرنے پر کمربستہ نظر آرہی ہے۔ کانگریس نے دس برسوں میں دہلی میں اردو زبان سے جو دشمنی کی، اس سے نہ صرف اردو میڈیم اسکولوں کو نقصان ہوا بلکہ اردو زبان کے اساتذہ اور نصاب بھی وقت پر دستیاب نہ ہوسکے ۔ اردو میڈیم اسکولوں میں پورے پورے سال اردو کی کتابیں نہیں مل سکیں ۔ اردو اساتذہ کا تقرر نہیں ہوسکا۔ اردو نصاب کے لئے این سی ای آر ٹی میں پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ سے 8 عدد اردو کی پوسٹ ختم کر دی گئیں۔

انگریزی میڈیم اسکولوں میں سوائے ڈی پی ایس (دہلی پبلک اسکول) متھرا روڈ یا دو ایک اسکولوں میں تیسری زبان اردو پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ انجمن ترقی اردو ہند اور اردو کی دہگر تنظیموں نے اس طرف کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی کہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں تیسری زبان سنسکرت کے ساتھ اردو کا بھی آپشن دیا جائے ۔
ظاہر ہے کہ جب کوئی کہنے سننے والا ہی نہیں رہا اور خود اردو والے بھی بے حسی کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکے تو سرکاریں بھی لاپرواہ ہو گئیں ۔ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا کہ کانگریس کے وقت میں اردو دشمنی کا لیول کتنا تھا اور بی جے پی کے وقت میں یہ دشمنی کتنی بڑھی یا گھٹی؟ مسئلہ دہلی کی اس وقت کی آپ پارٹی کی اردو دشمنی کا بھی نہیں ہے ۔
مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو زبان کو لے کر ایک واضح پالیسی ابھی تک وضع نہیں کی گئی ہے۔ حال تک جب کہ داخلہ فارم اور ایگزامنیشن فارم میں اردو زبان کا آپشن تھا تو اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ یہ سوال اٹھانے کے بجائے بیان بازی زیادہ کی جارہی ہے ۔
ایک بار سبھی ادارے اور تنظیمیں اور دہلی اردو اکادمی مل کر یہ سوال کیوں نہیں کرتیں کہ واضح پالیسی کیا ہے ؟
کیا واقعی اردو زبان پڑھ کر سرکاری نوکریاں نہیں مل پائیں گی؟
یا اردو زبان کا وجود ہی اسکولوں کالجوں سے ختم کرنا مقصود ہے؟
کیونکہ جب اسکولوں میں ہی اردو زبان پڑھائی ، سکھائی نہیں جائے گی تو پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اردو کے طالب علم کہاں سے ملیں گے؟
ریسرچ کے طالب علم کہاں سے آئیں گے ؟
پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کہاں سے ملیں گے ؟

مجھے پورے ملک کا تو علم نہیں لیکن دہلی کے بارے میں، میں اردو دشمنی کی لاتعداد مثالیں پیش کر سکتی ہوں ۔ سرکاریں کوئی بھی رہی ہوں لیکن اردو کے ساتھ سب کا سلوک ایک جیسا ہے۔ اسکولوں میں اردو زبان کے لئے مختلف افواہیں جو بار بار طلباء کو اس زبان کے لینے سے روکتی ہیں، اس کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہ ہونا اردو دشمنی ہے۔
اردو اساتذہ کا تقرر نہ ہونا اور اردو میڈیم اسکولوں میں مختلف مضامین کے لئے ہندی اساتذہ کا تقر ہونا اردو دشمنی ہے۔
اردو کی نصابی کتابوں کا وقت پر تیار نہ ہونا اردو دشمنی ہے ۔
انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو زبان کا آپشن نہ دے کر سنسکرت پڑھانے کے لئے مجبور کرنا اردو دشمنی ہے۔
اردو کے اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر اردو زبان و ادب کے ماہرین اور اردو داں حضرات کے تقرر کے بجائے حکومت کے پسندیدہ غیر اردو داں حضرات کا تقرر کیا جانا اردو دشمنی ہے۔
ڈی ڈی اردو ، اور آل انڈیا ریڈیو وغیرہ پر غیر اردو داں حضرات کو رکھنا بھی اردو دشمنی ہے !!

New policy of Urdu enmity. Article: Dr. Waseem Rashid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں