تعارف خودنوشت - ہوا کے دوش پر - ڈاکٹر فیروز عالم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-20

تعارف خودنوشت - ہوا کے دوش پر - ڈاکٹر فیروز عالم

Autobiography Hawa ke dosh par by Dr. Fairoz Alam
کل شام‌ ڈھلے یہ خودنوشت طباعت کے بعد راقم کی قیام گاہ پر پہنچی۔ سید معراج جامی‌ صاحب شہر کراچی کے مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوتے، ہڑتال اور امن و امان کی خراب صورت حال کے باوجود اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے "ہوا کے دوش" ہی پر ہمارے پاس پہنچے۔

سب سے پہلے سب سے اچھی اور طمانیت بخش بات۔ اور وہ یہ کہ 472 صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کی قیمیت صرف اورف 300 روپے ہے۔ ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز پر کتاب آج صبح پہنچا دی گئی ہے جہاں سے اسے مناسب رعایت کے بعد حآصل کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر فیروز عالم ہمارے کرم فرما ہیں، بنیادی تعلق جودھ پور سے، تقسیم کے بعد میر پور خاص میں پڑاؤ، طب کی تعلیم کراچی میں، اور گزشتہ کئی عشروں‌ سے امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ جہاں آپ ایک نامور ماہر امراض گردہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

ذیل میں کتاب میں شامل راقم الحروف کا تعارفی مضمون پیش خدمت ہے۔
راقم کی کوشش ہے کہ اس خودنوشت کے چند نسخے ہندوستان میں کھام گاؤں مہاراشٹر میں قیام پذیر برادرم محمد انیس الدین کے پاس پہنچا دیے جائیں اور ساتھ ہی ادارہ شب خون الہ آباد بھی بھیج دیے جائیں۔

- راشد اشرف ، کراچی سے۔
یہ ڈاکٹر فیروز عالم کی خودنوشت ہے۔ایک ایسے شخص کی داستان حیات جس نے اپنی زندگی میں کڑی محنت سے ایک اعلی ٰ مقام پایا۔ایک ایسی آپ بیتی جس کا حرف حرف ایک ایمان دار اور قابل قد ر انسان کی حیات کی غمازی کرتا ہے۔ اس خودنوشت میں آنسو بھی ہیں، قہقہے بھی، آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا سبق بھی۔ ڈاکٹر فیروز عالم کی زندگی میں آنے والی کامیابیاں ان کی والدہ مرحومہ کی دعاﺅں کا ثمر ہیں اور وہ اس پر نازاں ہیں۔ ان کا قاری بھی ان کی والدہ کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد جودھ پور سے آنے والے لٹے پٹے خاندانوں میں سے ایک خاندان سید ابن عباس صاحب کا بھی تھا ۔ یہ مصنف کے والد تھے۔ پڑاو ¿ میر پور خاص میں ڈالا ۔ جہاں آراءبیگم سے شادی ہوئی اور یوں ان دو سیدھے سادے اور اللہ پر بھروسہ رکھنے والے انسانوں نے زندگی کا آغاز کیا۔ زندگی جو اس دور میں کڑی محنت کی متقاضی تھی۔ آج کے دور کی آسائشوں کا ایک عام آدمی تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ لقمہ حلا ل خود بھی کھایا اور اپنے بچوں کو بھی کھلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے صلے میں اولاد بھی ویسی ہی عطا کی، فرمانبردار ، تابعداراور ماں باپ کے سامنے اف تک نہ کرنے والی، ان کا ہاتھ بٹانے والی۔بڑے بیٹے نے تو دیگر اہل خانہ کے مستقبل کی خاطر اپنا مستقبل داو پر لگا دیا۔

ڈاکٹر فیروز عالم کی اس خود نوشت میں ہمیں جا بجا ایسے لوگوں کے تذکرے ملتے ہیں جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ان کا ہاتھ تھاما۔ شہر کراچی میںزندگی کے کارزار میں سخت جدوجہد کے دوران مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگوں اور عزیز اقارب کو وہ نہیں بھولے اور ان سبھوں کا ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت میں نہ صرف محبت سے کیا ہے بلکہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو بھی رہے ہیں۔ ان میں فخرالدین خاں،فرخی خالہ، منظر بھائی جان، لانڈری کے مالک کے ضعیف والد اور ڈاکٹر محسن احمد جیسے پرخلوص لوگ شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بے مثال تعاون نے مصنف کو اس بے رحم معاشرے میں جینے کا حوصلہ میسر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا دم غنیمت ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے ہمیں ڈھارس ملتی ہے اور بڑے
بوڑھوں کی وہ کہاوت سچ ہوتی نظر آتی ہے کہ یہ دنیا چند نیک انسانوں کی وجہ ہی سے قائم ہے۔

زیر نظر خودنوشت حالات و واقعات کا ایک بہتا دریا ہے۔ میر پور خاص سے امریکا تک کے سفر کی دلچسپ روداد ہے۔ راجستھان اور میر پور خاص کے قصے ہیں ، وہاں کی تہذیب کی ایک روشن جھلک ہے۔ طب کے شعبے سے وابستگی کے دوران پیش آنے والے یادگارواقعات ہیں ۔اس خودنوشت میں آگے بڑھنے اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم ہے۔ عزیز و اقارب کا دلچسپ احوال ہے اور کہیں کہیں یہ احوال پڑھنے والے کو اداس بھی کردیتا ہے۔ خاص کر مصنف کے فضل ماموں کے ساتھ پیش آنے والے الم ناک واقعے اور ان کی زندگی کے آخری لمحات کی منظر کشی کو پڑھ کر دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان حیات ہے جس کو پڑھ کر یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی نیت صاف ہو تو اللہ تعالی بھی قدم قدم پر مدد کرتے ہیں، اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتے۔اسکول کے زمانے کے قصے، پہلی نوکری، پہلا عشق، امریکا میں دوران ملازمت پیش آنے والے واقعات ، غرضیکہ اس کتاب کے تمام ہی ابواب دلچسپ ہیں۔

'ہوا کے دوش پر' کو راقم نے حرف بحرف پڑھا ہے۔ شاید یہ اردو ادب کے ان جغادریوں کی وضع کردہ خودنوشت کی تعریف پر پورا نہ اترتی ہو مگر یہ کتاب ڈاکٹر سید عبداللہ کی آپ بیتی کے بارے میں اس رائے پر یقینا پورا اترتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ' آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو'۔

راقم الحروف کو ڈاکٹر فیروز عالم سے ملاقات کاشرف حاصل ہے۔ان سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔ میں نے انہیں ایک انتہائی نفیس انسان پایا ہے۔ ان کی منکسرالمزاجی ان کا وصفِ خاص ہے۔ یہ وصف خدا کی دین بھی ہے او ر ان کے والدین کی تربیت کا نتیجہ بھی۔ اپنی عملی زندگی میں ڈاکٹر فیروز عالم کو جس کڑی جدوجہد کا سامنا رہا،اس آزمائش سے کندن بن کر نکلے ۔ وہ اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولے جنہوں نے کڑے حالات میں ان کا ہاتھ تھاما تھا بلکہ یوں کہیے کہ انہوں نے اپنے ان محسنوں کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور اپنی زندگی میں اس قابل ہوئے کہ لوگوں کی دل کھول کر اس طور مدد کرسکیں کہ مبادا کوئی دوسرا 'فیروز عالم' ڈاکٹر بننے سے نہ رہ جائے۔

آئیے 'ہوا کے دوش پر' کا مطالعہ کرتے ہیں۔ایک ایسی خودنوشت کا جو ہمیں مصائب کے سامنے ثابت قدمی اور پامردی سے کھڑے رہنے کا سبق دیتی ہے۔
hawa-ke-dosh-par-backcover
سائنس دماغ کی دنیا ہے اور ادب دل کی۔ دل اور دماغ کا سنگم جب ہوتا ہے تو کمال ہوتا ہے اور اگر دل و دماغ دو مختلف سمتوں میں چلتے چلتے مختلف فیلڈ [] میں اپنی شناخت قائم کریں تو وہ قابل تحسین ، قابل پذیرائی اور قابل ستائش کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔
"ہوا کے دوش پر" ایک عام آدمی کی خاص داستان حیات ہے۔ انہوں نے میرپور خاص (پاکستان) سے کیلی فورنیا (امریکا) تک کے سفر کو بہت خوبصورتی ، سچائی ، ایمانداری اور دلچسپی سے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں جکڑے رکھتا ہے۔ ان کا یہ سفر آسان نہیں تھا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
خودنوشت میں ڈاکٹر فیروز عالم کی شخصیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ نہ تو زندگی میں پیش آئی دشواریوں ، لاچاریوں ، مجبوریوں کا بیان کرتے جھجھکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے محسنوں کو فراموش کر پائے ہیں جن کی مدد کے باعث ان کی دشواریاں آسان ہو گئیں۔
خوشبوؤں اور تتلیوں سے محبت کرنے والا نوجوان جو انتہائی جمال پرست ، نفاست پسند تھا جسے شوق تو میر کا کلام پڑھنے کا تھا ، اس نے اپنے شوق کو بھاری من سے پیچھے سمیٹ کر اناٹومی کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اپنی منزل حاصل کرنے کے بعد پھر سے اپنے ادھورے خوابوں کی اور رجوع کیا اور سائنس داں کے ساتھ ساتھ ادب ساز بھی بن گئے۔ خودنوشت دلچسپ تو ہے ہی ساتھ ہی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے واقعات اس صداقت اور معصومیت سے بیان کیے ہیں کہ دل کو چھو جاتے ہیں۔
"میں نے میڈیکل کالج کی زیادہ تر پڑھائی مانگے کی کتابوں سے پڑھی"۔
جس مقام پر وہ ہیں اس بلندی سے اس حقیقت کا خودنوشت میں بیان کرنا جرات کی بات ہے اور ماں کی دعاؤں کا اعتراف کرنا ان کی شخصیت کی نئی پرتیں کھولتی ہے۔ وہ ایک قابل ڈاکٹر ہیں۔ ایک حساس ، درد مند انسان ہیں جس کا اندازہ ان کے افسانوں اور خودنوشت کو پڑھ کر بخوبی ہو جاتا ہے۔ سائنس داں اور ادب ساز یعنی دو مختلف خوبیوں کے مالک ڈاکٹر فیروز عالم کو میرا سلام۔
"ہوا کے دوش پر" کسی ناول سے کم دلچسپ نہیں۔ اسے پڑھیے اور بھرپور لطف اٹھائیے۔

ڈاکٹر رینو بہل
ایم۔اے ، پی ایچ ڈی (اردو)
چندی گڑھ (انڈیا)

صفحہ نمبرعنوانصفحہ نمبرعنوان
16پیش لفظ268نیا ماحول نئے دوست
19ایک صابر و شاکر انسان کی خود نوشت - سید معراج جامی269میری مشکلات اور ایک جذباتی قدم
22ہوا کے دوش پر - راشد اشرف271ایک بےنام اندرونی ویرانی
25ایک خاص آدمی کی داستان حیات - نوید سروش272پڑھائی میں ناکامی
32کتاب زندگی274ایک خوشگوار شام
38ابتدا275دوسرا سال
42میری نانی 'بوا'275گرمیوں کی چھٹیاں
44بڑی خالہ بی276میری بہن ، میری کزن اور میری دوست غزالہ
45میرپور خاص سے ہمارا تعلق278واپسی
47شادی278نجمہ شیخ کی میرے گھر آمد
51کارڈ280دوسرا سال
52سسرال سے علیحدگی283مینڈکوں پر ظلم
55ریلوے میں تقرر284فارماکولوجی
56سلطانہ آپا میری بڑی بہن285پریکٹکل
58سید ذوالفقار حسین286سال کے آخیر کی پارٹی
63فضل ماموں -- ایک دردناک المیہ286تیسرا سال
69زیور کی چوری287پروفیسر صالح میمن
70بچوں کی پیدائش288طب قانونی
71بچوں کی تعلیم289پہلا پوسٹ مارٹم
71ابا کی علالت290باقی مضامین
73میری پیدائش290تیراکی کے مقابلے
74جودھپور291پکنک
80ماؤنٹ آبو292رشید ڈوبتے ڈوبتے بچا
84نازک بانہیں مضبوط پتوار293پبلک ہیلتھ اور پاگل خانے کا ٹور
88ٹی نائین اے294ریڈیو پاکستان
91(پاکستان میں پہلا گھر)295کالج میگزین
95ریلوے کالونی296الوداعی پارٹی
95سالگرہ اور اسٹیج ڈرامہ297ریحانہ آپا
96سالگرہ299میڈیکل کالج کا چوتھا سال
98ایک یادگار ڈرامہ300کالج میں ہنگامے و ہڑتال
99پہلی مشکل301ہفتۂ طلبہ
102ایک جاں گداز آزمائش302چو این لائی اور بھٹو
105دار النسواں اور ریلوے اسکول302چوتھے سال کے مضامین
106لڑکیوں کے اسکول میں میرا داخلہ303امراض خواتین اور زچگی
108ریلوے پرائمری اسکول305زچاؤں کی صحت
109پڑھائی میں ناکامی306وارڈ کی نرسیں اور حسنہ
111ہیڈ ماسٹر سے غضبناک پٹائی307کالج کا میگزین
113گھر کا ماحول307میرپور خاص -- اف میرا پیارا میرپور خاص
116مشاعرے308میرپور خاص کے لڑکوں کا گروپ فوٹو
120سلطان بھائی جان کا میٹرک اور کالج کے داخلے میں ناکامی309فائنل ایئر
121سلطان بھائی جان کا ایثار310پرکیف محفلیں
122شاہ عبداللطیف کالج اور پرتاب بھون311ایک بھیگی رات
124ڈرامہ312فائنل امتحان
125گلوکار مسعود رانا313ایک غلطی جس کا آج بھی قلق ہے
126شادیاں314بقایا مضامین کا امتحان
129چوتھی جماعت میں فیل ہو گیا315سنگین حادثہ
132گورنمنٹ ہائی اسکول میرپور خاص317کیا رشید مر گیا؟
140یوم جمہوریہ پاکستان319الوداع الوداع
147نئی ابتدا321میرا مستقبل ، ایک سوال ؟
148میرا پیدائشی خوف326فائنل امتحان کا نتیجہ
149مرزا اشفاق بیگ328نتیجہ کا دن
152ماسٹر چودھری بشیر332حسن پھوپھی کا بنگلہ
153ایک تھپڑ333بزرگوں سے ملاقات
155نئی بلڈنگ334میرپور خاص واپسی
156میرا جرات مندانہ قدم یا حماقت334شاہ عبداللطیف کالج میں حاضری
159پھولوں کی چوری336پاکستان میڈیکل کاؤنسل
160ایک سیاح337کراچی کی کلینکس میں نوکری کی تلاش
162میرے لکھنے کی ابتدا340ایک ناخوشگوار تجربہ اور اذیت
164موسیقی341مستقبل کا تصور اور بےچینی
165تقریریں اور مباحثے342سیونتھ ڈے ہسپتال
166تصویر کشی کا شوق اور اسکالرشپ342ہولی فیملی ہسپتال
167کیڈٹ کالج میر پور خاص / پٹارو343سیونتھ ڈے ہسپتال اور ڈاکٹر چیپ مین
169شرارتیں349کراچی میں رہائش کا مسئلہ
172اسکول کے دیگر اساتذہ352خالہ جان کی عبرت انگیز کہانی
173چودھری بشیر سے علیحدگی358میری پیشہ وارانہ زندگی کا پہلا دن
174فش پونڈ میں پکنک367مضحکہ خیز غلطیاں
175متفرقات373ناظم آباد بڑا میدان
177سلطانہ آپا کی شادی375سیونتھ ڈے کا اسٹاف
178خمیازہ خمیازہ -- مشکل ترین دور379ایک نئے مہمان کی آمد
180تین مشکل ترین ماہ382خالہ جان کے گھر کو الوداع
181فرشتہ اور غیبی امداد384ذوالفقار بھائی جان کے یہاں رہائش
183لائبریریاں386پچیسی
184میری منہ بولی بھابی387ایک مضحکہ خیز اور شرمندگی کا لمحہ
188دنیا کی سیاحت کا شوق388نیند کی کمی
192ایک اور تھپڑ (مگر پیار کا)389رشید غوری کی آمد
194جن بھوت یا نمونیا392مختلف پروسیجرز کا تجربہ
196ڈاکٹر ڈراگو اور دیگر ڈاکٹر صاحبان393رشید کا کنبہ اور ان کی محبت
199محرم394ہوٹلنگ
200ہائی اسکول کے آخری سال394ہمارے ڈاکٹر دوست اور ان کے حال احوال
200میری بےراہ روی396رنگین دامن مہکتے آنچل
203میٹرک کا نتیجہ398مسز ڈیوڈ کی بیٹی للین
206میرپور خاص واپسی اور مستقبل399ڈاکٹر ناظم خواجہ
207شاہ عبداللطیف گورنمنٹ کالج403ایک حیرت انگیز مریض
209ایک نئے کنبے سے ملاقات405ایک ایسا ہی واقعہ امریکہ میں
211کالج کا محل و قوع405ڈاکٹر ناظر کی کار
212نجمہ شیخ407ای سی جی پڑھنے کی خواہش
215کالج کے دیگر اساتذہ408میری کامیابی میں ڈاکٹر ناظر کا کردار
217میگزین کی ایڈیٹری409قاسم رضوی اور آصف اقبال
219گلاب خان تاج410ڈاکٹر خالدہ فاروق اور ڈاکٹر محسن احمد
220کیمسٹری لیب اور نقاب پوش415ایک المیہ جو میں فراموش نہیں کر سکوں گا
221مستقبل کے خواب418انجوبالا
222نجمہ شیخ -- ایک بار پھر424ٹال والا گھر
224خوشگوار تبدیلی424تھوڑی سی مالی فارغ البالی
225دل میں اک اجنبی احساس کی خوشبو جاگی425ڈرامائی تبدیلی
229دوسرا سال430ایک اور فرشتہ
229دیواری مجلہ 'فانوس'431ایک نیا چھوٹا سا آشیانہ
230موسیقی کا مقابلہ432نیا دور
231اہالیان کوفہ کی مثال433میری علالت و عیادت
232ایک اور دلچسپ واقعہ اور پھر ایک سبق434منظر بھائی جان کی مدد
234انٹر سائنس کا سالانہ امتحان436ایک انتہائی پیارا دور
2351963 زندگی کا اہم ترین اور یادگار سال438ڈھلتی بڑھتی دھوپ
236امتحان کے بعد --441امریکی اور انگلینڈ کا نظام تعلیم
238امتحان کا نتیجہ444سنگین حادثہ
239میڈیکل کالج میں داخلہ449بچے نے بندا نگل لیا
243لیاقت میڈیکل کالج451قتل کا پہلا کیس
246انٹرویو454ہوا کے دوش پر
249کیا دنیا میں فرشتے بھی ہوتے ہیں461امریکا میں ٹریننگ کی تلاش
254میرے بھائی جان کی شادی462امریکا کی تیاری
257میڈیکل کالج کے لیے روانگی463امریکا کا ویزا
261چندرنوتانی464کامیابی کی خوشی میں میری دعوت
263میڈیکل کالج میں پہلا دن465ایک غیرمتوقع مشکل
265مردہ خانہ467ڈاکٹر محسن احمد -- ایک حقیقی محسن
265ہمارا ڈسکشن ہال469روانگی ، الوداع پاکستان
267کتابیں471قارئین کرام

***
Rashid Ashraf
ای-میل : zest70pk[@]gmail.com
ویب سائٹ : وادئ اردو
راشد اشرف

A Review on Autobiography "Hawa ke dosh par" by Dr. Fairoz Alam. Reviewer: Rashid Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں