ڈاکٹر کلیم احمد عاجز - ایک پیکر اخلاق و وفا نہ رہا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-15

ڈاکٹر کلیم احمد عاجز - ایک پیکر اخلاق و وفا نہ رہا

Dr-kalim-ajiz
آج (15/فروری اتوار) دوپہر میں ایک خبر ملی کہ
"ڈاکٹرکلیم عاجزصاحب کا صبح 8/بجے انتقال ہوگیا۔"
یہ سن کر میں سناٹے میں آگیا، کچھ دیر تو سکتے کی سی کیفیت طاری رہی، میں نے بے یقینی کی کیفیت میں ان کے موبائل نمبرپرکال کی تو ان کے خادم نے اس کی تصدیق کردی تو رہی سہی امید دم توڑگئی اور زبان دیر تک تلقین ربانی اناﷲ کا وردکرتی رہی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کے کلمات زبان پر جاری رہے۔ابھی دوتین روز پہلے ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ وہ حرمین شریفین اور امریکہ کے ساڑھے چارماہ کے طویل دورے کے بعدابھی 24/جنوری کو واپس آئے تھے، میں نے کہا کہ میں 14/فروری کو دہلی جارہاہوں واپسی کا ٹکٹ 18/فروری کا بنواکے جمعرات کی صبح آپ کے دردولت پر حاضر ہوتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے میں ہزاری باغ اور دھنباد جارہاہوں میں بھی جمعرات کی صبح آجاوں گا۔ان کے خادم سے اتنا معلوم ہوا کہ ابھی دھنباد نہیں جاسکے تھے ہزاری باغ ہی میں طبیعت خراب ہوئی اور انتقال فرماگئے۔اﷲ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔
ڈاکٹر صاحب کے تعارف میں استاذ محترم حضرت مولانااعجازاحمد صاحب اعظمی نے ان شخصیت کی مکمل عکاسی کی ہے:
"ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب اس دور میں متاعِ درد وغم ، سرو رعشق ومحبت ، جذبہ ¿ خلوص وبے نفسی اور انسانیت وشرافت کی ایک روشن علامت ہیں ۔ بہار کا یہ مظلوم انسان جس نے ابتداءجوانی میں فسادیوں ، رہزنوں اور قاتلوں کے ہاتھوں اپنے پورے خاندان ، اپنی پوری بستی بلکہ ایک خطے کے خطے کو برباد ہوتے دیکھا ۔ درد وغم کی اَنی دل میں اتری اور ٹوٹ کر رہ گئی ، اس درد کی کسک کو انھوں نے شعر وادب کا پیکر عطا کرکے دنیا والوں کے سامنے تحفہ کے طور پر پیش کیا ، خاموش مگر نہایت گہری سوچ والے ، یکسو مگر کام کی ہر چیز پر وسیع نگاہ رکھنے والے ، ان کی کتاب " جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی " سے تعارف ہوا، وہی ذریعۂ ملاقات بنی ، ان کی غزلوں کے مجموعہ " وہ جو شاعری کا سبب ہوا" نے ان کے دل کی ترجمانی کی ،بس وہ اپنے اس شعر کے ہوبہو مصداق ہیں
کیسے کیسے دکھ نہیں جھیلے ، کیا کیا چوٹ نہ کھائے
پھر بھی پیار نہ چھوٹا ہم سے عادت بری بلائے

دنیا کا اپنے انداز کا نرالاالبیلا انسان، نہایت دیندار، بہت ہی پُرسوز ، ان کا البیلاپن ، ان کا جذبۂ بیداری اور ان کا سوزِ دروں ،جب الفاظ کے پیکر میں جلوہ گر ہوتا ہے تو ادب وانشاءکا ایک نیا اُسلوب جنت نگاہ بنتا ہے۔"
حضرت مولانا ایک خط میں لکھتے ہیں:
"میرے سامنے ایک شخصیت ہے ، بچپن اس کا محبت کی معصوم فضاو ¿ں میں گذرا ۔ جوانی آئی تو گردشِ زمانہ نے سخت ٹھوکر لگائی ، مگر سنبھالنے والا اسے سنبھالے رہا ۔ اب اس کا بڑھاپاہے ، آفتابِ عمر لب بام آگیا ہے ، اب کوئی دم ہے کہ کانوں میں
یا ایتها النفس المطمئنه ارجعی الی ربک راضیه مرضیه
(اے نفس مطمئنہ! اب اپنے رب کے حضور لوٹ چل ، اس حال میں لوٹ چل کہ تو بھی راضی اور وہ بھی راضی )
کی صدائے دلنواز گونجنے والی ہے ، اور وہ
فادخلي في عبادي
(میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا )
کی رہنمائی میں انھیں لوگوں کے جھرمٹ میں جا پہونچے گی ، جس کی یاد میں اس نے آنسو دریا دریا بہائے ہیں ، زندگی تڑپ تڑپ کر بسر کی ہے ، اور سب کے ساتھ مل کر
وادخلي جنتي
(میری جنت داخل ہوجا )
کا روح پرور نغمہ سنتے ہوئے جنت میں جاداخل ہوگی ، جہاں ناقدری کی شکایت نہ ہوگی ! ایسی شخصیت کو بھلا یہاں کے ناقدروں سے کیا شکوہ؟ اس نے سب کے ساتھ پیار کیا ہے اور کئے جارہا ہے ، اس نے دشمن کو گلے لگایا ہے ، اس نے کانٹوں کو پھول سمجھ کر اٹھایا ہے ، اس نے زخموں سے بھی پیار کیا ہے ، اور زخم دینے والے ہاتھوں کوبھی بوسہ دیا ہے۔"

حضرت مولانا کی وساطت سے ان سے خط وکتابت شروع ہوئی ،اور آج سے 22سال پہلے1993ءمیں ان کی محبت مجھے کھینچ کر ان کے آستانے پر پٹنہ لے گئی،یہ اس وقت کی بات ہے جب میں درجہ فارسی میں پڑھ رہا تھااور ان کی خود نواشت سوانح جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی اور ان کا سفرنامہ حج "یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ" پڑھ چکا تھا۔اور ان سے حددرجہ ان کی نثر اور اشعار دونوں نے مجھے اپنا بنارکھاتھا۔ کسی شاعر کا کلام اور نثری تحریریں جتنی میں کلیم عاجز صاحب کی پڑھی ہیں کسی کی نہیں پڑھی ہیں ، پہلی ملاقات کے بعد یہ محبت نہایت تعلقات میں بدل گئی ، پھر تو نہ جانے کتنی بار محض ان سے ملنے پٹنہ گیا ، ان کی شرافت وانسانیت، محبت ومروت ، تواضع وخاکساری ،اعلیٰ درجہ کا اخلاق ان سب چیزوں نے مجھے ہمیشہ ان کا اسیر بنائے رکھا اور میں نے ان کا پیغام محبت عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کی ذرہ نوازی اور قدرافزائی کا حال یہ تھا کہ میں نے ایک مرتبہ جب وہ دہلی سے پٹنہ واپس آرہے تھے، تو درخواست کی کہ آپ میرے وطن خیرآباد اور ہمارے مدرسہ شیخوپور آئیے۔ انھوں نے بغیر کسی تامل کے یہ درخواست منظورکی، اور دونوں جگہوں پر تشریف لائے اور دونوں جگہ ان کے پروگرام ہوئے، پھر میں ان کو رخصت کرنے ان کے گھرپٹنہ تک ساتھ گیا۔اب تو ہرسال یہ معمول بن گیا تھا کہ ایک دوبار ملاقات کے لئے پٹنہ پہونچ جاتاتھا ،اسی سلسلے کی ایک کڑی بدھ کا سفرپٹنہ تھا، لیکن افسوس کہ اب وہ نہ مل سکیں گے تو چل کر قبر پر حاضری دے لیں ان کی یاد میں کچھ آنسو بہالیں ، ان کے لئے دعائے مغفرت کا سلسلہ تو انشاءاﷲ تاحیات جاری رہے گا۔ ان کی یادیں تو مسلسل درِ دل پر دستک دیتی رہیں گی اور ان کی غیر معمولی شفقت ومحبت اور قدرافزائی خون کے آنسو رلاتی رہے گی۔

ڈاکٹر صاحب اکتوبر 1925ءمیں عظیم آباد(پٹنہ) کے ایک دیہات "تیلہاڑہ " میں پیدا ہوئے، ابتداءہی میں مطالعہ کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ دس سال کی عمر میں فسانہ عجائب طلسم ہوش ربا اور نہ جانے کون کون سی ادبی کتابیں اور رسالے پڑھے ہی نہیں بلکہ چاٹ ڈالے، اسی زمانے میں کچھ اشعار بھی کہے ، ہائی اسکول انھوں نے امتیازی شان کے ساتھ پاس کیا ، لیکن اسی دوران کچھ خانگی پریشانیاں والد کا انتقال اور پھر 1946ءکے فسادکا دلسوزوالمناک سانحہ جس نے ان کو زیروزبر کرڈالا ، 1946ءمیں عین بقرعید کے دن ان کی ماں اور بہن سمیت خاندان کے 22افراداور گاوں کے تقریباً 800افراد فسادیوں درندوں اور جنونیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے، اس حادثے نے ان پر کیا کیفیت پیدا کی اسے ان کی خودنوشت سوانح "جہاں خوشبوہی خوشبوتھی" میں پڑھئے ۔اس غم والم کو انھوں نے شعر وادب کا پیکر عطا کیا،وہ کہتے:
غم نے گانابجانا سکھایا
جان دیدیں گے گاتے بجاتے

اس سانحے کے کئی سال کے بعد انھوں نے تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا ، اور ایم اے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسرہوئے اور اخیر میں شعبہ اردو کے صدر شعبہ کی حیثیت سے 1984ءسے سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے بقیہ زندگی دین کی اشاعت اور پیغام محبت وانسانیت کو عام کرنے میں بتادی، وہ بہار تبلیغی جماعت کے گزشتہ کئی دہائیوں سے امیررہے۔ مرکز کے تمام اکابرین سے ان کے نہایت گہرے مراسم رہے ، امیرجماعت تبلیغ مولانا انعام الحسن صاحب پر ان کا مرثیہ جواردو ادب کاشاہکارہے ان کی نظموں کے مجموعہ "کوچۂ جاناں جاناں" میں ہے ۔ ان کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔ وہ جو شاعری کا سبب ہوا(پہلا مجموعہ کلام)
2۔جب فصل بہاراں آئی تھی(دوسرا مجموعہ کلام)
3۔پھر ایسانظارہ نہیں ہوگا(مجموعہ کلام)
4۔جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی (خود نوشت سوانح)
5۔ابھی سن لو مجھ سے(خود نوشت سوانح)
6۔کوچۂ جاناں جاناں! (نظموں اور نعتوں کا مجموعہ)
7۔مجلس ادب( شعری نشستوں کی ایک روداد)
8۔دیوانے دو(خطوط کا مجموعہ)
9۔میری زبان میرا قلم(مجموعہ مضامین دوجلد میں)
10۔۔دفتر گم گشتہ (پی ایچ ڈی کا مقالہ)
11۔یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ (سفرنامہ حج)
12۔ ایک دیس اک بدیسی (سفرنامہ امریکہ)
اس کے علاوہ ان کی بھانجی نے ان کے نام خطوط کا مجموعہ اکٹھا کیا جسے خدا بخش لائبریری نے شائع کیا ہے۔

***
ضیاءالحق خیرآبادی
مدرس مدرسہ سراج العلوم چھپرہ، ضلع مؤ (یوپی)۔
zeyaulhaquekbd[@]gmail.com

Demise of renown poet Dr. Kalim Ajiz. Article: Zia-ul-Haq Khairabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں