منشیات کی لعنت کا مکمل خاتمہ - مربوط کوششوں کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-01

منشیات کی لعنت کا مکمل خاتمہ - مربوط کوششوں کی ضرورت

say-NO-to-drugs
گذشتہ چند دنوں سے کچھ اس طرح کی خبریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، جن سے خیال ہوتا ہے کہ ملک کو منشیات سے پاک کرنے کی کوشش اب عوامی اور حکومتی سطح پر کی جا رہی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب اس مسئلہ کے خاتمہ کے لیے علاقائی سطح پر کوششوں اور اقدامات کا تہیہ کیاگیا ہے، اسی کے ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اس نیک کام شروعات اپنے قرب و جوار سے کریں۔نہایت حیرت وافسوس کا مقام ہے کہ آج کے ’’پڑھے لکھے ‘‘ دور میں بھی دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے۔ اس کی اصل وجہ ہمارے نزدیک---اس وسیع منافع بخش تجارت---کو حکومتی سطح پر ملنے والی حمایت ہے۔یہ بات اس لیے کہی گئی کہ منشیات و جرائم پر نگاہ رکھنے والی اقوام متحدہ کے ادارہ یونائٹیڈ نیشنز آف ڈرگس اینڈ کرائم (UNODC) نے اپنی 2008کی سالانہ رپورٹ میں وضاحت کی تھی کہ’’ ہندوستان و جنوبی ایشیا چرس اور گانجہ جیسے منشیات کی غیر قانونی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ‘‘ اور یو این او ڈی سی(UNODC) کا کہنا تھا کہ ’’جنوبی ایشیا کے بیشتر ملکوں نے منشیات کے غیر قانونی کاروبار اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ابھی تک کوئی جامع سروے نہیں کیا ہے۔ بھارت سرکار اس سلسلہ میں ایک سروے کی تیاری کر رہی ہے، شاید اس کے بعد اس لعنت کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آسکے۔‘‘ اسی موقع پر اقوام متحد کے نمائندے اشیتا متل نے کہا تھا کہ ’’منشیات کی اس لعنت پر مشترکہ کاروائیوں کے ذریعہ قابو پایا جا سکتاہے۔۔۔ اس سے کوئی ایک ملک ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے متعدد ممالک متاثر ہوتے ہیں‘‘۔مضمون نگار کا بھی خیال یہی ہے کہ اس لعنت کے مکمل خاتمہ کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیابھر میں 25کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں، جب کہ ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مَردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین کی بھی بڑی تعداد اس کا شکار ہوتی نظر آنے لگی ہیں۔ منشیات کے اسباب پر غور کرنے سے اس کے مندرجہ ذیل محرکات سمجھ میں آتے ہیں؛ (۱) غم غلط کرنا ۔ نشہ کرنے والوں کے زعم کے مطابق، ایسا کرنے کے بعد ان کے تمام غموں کا مداوا ہو جاتا ہے۔ (۲) جنسی کزوری کو دور کرنا۔ جب کہ اطباء کی مطابق چند دن نشہ کے استعمال سے جنسی کزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایسے کیمیلکز ہوتے ہیں، جو ہارمونز اور غدود کو متاثر کرکے سینے کے امراض پیدا کرتے نیز جنسی طاقت کو ہمیشہ کے لیے کم کر دیتے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو نعمتوں سے ڈھانپ رکھا ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان پر اُس کریم مولا کی نعمتیں بارش کے قطرات کی طرح برس رہی ہیں۔ اسی لیے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر تم ہماری نعمتوں کو شمار میں لانا چاہو، تو نہیں لا سکتے۔‘‘ (النحل:18) اس کے باوجود ان نعمتوں کی کماحقہ تو کجا عشر عشیر بھی قدردانی نہیں کرتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن نعمتوں سے حضرت انسان کو نوازا ان میں ایک عظیم نعمت عقل و خرد بھی ہے، جس سے انسان مفید و مضر اور اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے۔ لیکن مشاہدہ اس کے خلاف ہی ہے، کیوں کہ انسان اس عظیم نعمت کو بھی مفید کاموں میں کم ہی استعمال کرتا ہے۔ آج کا یہ دور---جسے ’عقلاء‘---ترقی یافتہ دور کہتے ہیں؛ بدقسمتی سے انسانی سماج کے مسائل کی ترقی کا دور ہے۔ منشیات بھی اس سماج کے مسائل میں ایک بڑامسئلہ ہے۔
خیال رہنا چاہیے کہ شراب، چرس، افیون، ہیروئین اور نکوٹن وغیرہ ---سب ہی منشیات کے زمرہ میں آتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض ایسی ادویہ بھی اس زمرے میں شامل ہو جاتی ہیں، جنھیں انسان لَت کے طور پر عادتاً بے جااستعمال کرتا ہے اور جو انسان کی عقل کو بے قابو کر دیتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ اے ایمان والو! شراب ، جُوا ، بُت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام، شیطان کے اعمال میں سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ‘‘۔ (المائدۃ: 90) معلوم ہوا اس آیت میں ان تمام چیزوں کو ’رِجس‘ کہا گیا ہے۔ ’رجس‘عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے، جس سے انسان کی طبیعت کوگھِن اور نفرت پیدا ہو۔ یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع سلیم رکھتا ہو تو خود بخود ہی ان چیزوں سے اس کو گھِن اور نفرت ہوگی۔ (معارف القرآن: ۳؍۲۲۶)اس آیت میں اصل مقصود دو چیزوں کی حرمت اور مفاسد کا بیان کرنا ہے؛ یعنی شراب اور جُوا۔ انصاب یعنی بُتوں کا ذکر اس کے ساتھ اس لیے ملایا گیا کہ سننے والے سمجھ لیں کہ شراب اور جوئے کا معاملہ ایسا سخت جُرم ہے، جیسے بُت پرستی۔ (ایضا: 227) اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن کریم کا مذکورہ بالا حکم صرف شراب کے نشے سے ہی متعلق نہیں، بلکہ اس میں ہر وہ چیز شامل ہے، جو نشہ طاری کر دے۔ اسی لیے فاروقِ اعظمؓ نے ایک موقع پر جمعہ کے خطبے میں ارشاد فرمایاتھا؛’’خمر کے معنی کسی چیز کو ڈھانپ دینا یا پردہ ڈال دینا اور خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے، جوعقل پر پردہ ڈا ل دیتی ہے۔ اصل میں منشیات کا سب سے خطرناک حملہ دماغ پر ہوتاہے اور پھر دھیرے دھیرے اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ اعضاء رئیسیہ کے ساتھ ساتھ معدہ، جگر اور گردے پر بھی اس کا اثرپڑتا ہے۔ جو لوگ ان چیزوں کے عادی ہوتے ہیں، ان چیزوں کا اثر اُن پر ایک خاص مدت تک ہی رہتا ہے اور اس کے زائل ہوتے ہی انسان کو پھر اس کی طلب ستانے لگتی ہے۔وہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور جب ان کی یہ طلب آسانی سے پوری نہیں ہوتی، تو وہ اس کی تکمیل کے لیے بہت سے غلط راستو ں---چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری--- تک کو اپنانے سے گریز نہیں کرتے ۔
آج کل سگریٹ نوشی کا تو اس قدر رواج ہو چلا ہے کہ اسے بُرا تو کیاسمجھا جاتا بلکہ فیشن تصور کیا جانے لگا ہے۔اس میں ایک مزید برائی یہ بھی ہے کہ اس کانقصان صرف سگریٹ پینے والے ہی کو نہیں ہوتا، بلکہ اس کے آ س پاس موجود لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیوں کہ جب سگریٹ پینے والا سگریٹ کا کش لے کرسا نس چھوڑتا ہے، تو اس کے ارد گرد کے لوگوں کو لامحالہ اسی دھنویں کو اپنے جسم میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ سگریٹ نوشی سے انسان کے صرف پھیپھڑے ہی متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کی قیمت تمام اعضاء کو چکانی پڑتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ تمام اشیاء ان اشیاء کی خرید و فروخت ان خطرناک تصاویر کی جاتی ہے، جو کہ ان کا نتیجۃً لاحق ہوسکتی ہیں۔
جیساکہ ہم نے بیان کیا دین اسلام میں نشہ کی سخت مذمت و ممانعت کی گئی ہے، لیکن مسلم علاقوں میں بھی اس کے عادی پائے جاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے شراب و چرس ،گانجہ کے تو کم لیکن سگریٹ و نکوٹین کے عادی تو گھر گھر میں مل جاتے ہیں۔ پُلوں اور سڑکوں کے کناروں پرایسے بہت سے افراد نظر آجاتے ہیں، جن کا اس بستی میں کوئی شناسا نہیں ہوتا اور وہ کسی کے شناسا نہیں ہوتے۔ وہ بس تنہا یا اپنے جیسوں کے ساتھ چرس و گانجہ میں مست رہتے ہیں اور بستی سے اُن کے کھان پان کا بھی انتظام ہوتا رہتا ہے۔ہمیں نہایت استعجاب ان لوگوں پر ہے جو اپنے اہل خانہ اور بڑوں کے سامنے سگریٹ نوشی کرنے سے ذرا عار محسوس نہیں کرتے اور اس وقت تو ہمای حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ جب یہ ’بڑے‘ اس پر چُپّی سادھے رہتے ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اس معاملے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو شروعات اپنے آس پاس سے ہی کرنی ہوگی۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Need to coordinate efforts for eradication of drugs. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں