منکرین احادیث کے نفسیاتی و ایمانی مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-21

منکرین احادیث کے نفسیاتی و ایمانی مسائل

hujjiat-e-hadith
منکرین احادیث کی جتنی بھی اقسام ہیں ان میں ایک بات مشترک پا ئی جا تی ہے کہ ان میں اکثر حضرات عالم و فاضل اور اپنے اپنے پیشے اور شعبہ میں ماہر ہوتے ہیں, اور اپنے پیشہ سے بے حد وفادار بھی۔۔۔۔ قرآن اور حدیث کا کچھ کچھ یا تھوڑا بہت علم بھی رکھتے ہیں۔۔ لیکن ان کا نفسیاتی مسئلہ مختلف ہوتا ہے۔۔ کسی کو بغیر مطالعہ کے العلم الحدیث کے اصولوں سے اختلاف ہوتا ہے تو کسی کو اسکی ترویج و تدوین میں شک ۔۔۔ کوئی ایمہ اور محدثین کی محنت شاقہ اور انکے مقام تقوی و تقلید کو قرآن کی میزان پر رکھ کر تولتا ہے اور قرآنی اوزان کا استعمال کرنے کے بجا ئے پھیری والوں کی طرح خود ساختہ پتھر کے اوزان استعمال کرتا ہے۔۔ کسی کو روایات اور درایات کے مروجہ اصولوں سے اختلاف ہوتا ہے اور وہ ان اصولوں کو ریاضی کا جمع خرچ سمجھ لیتا ہے۔۔۔۔کچھ ایسے بھی ہیں جو سرے سے ختم نبوت سے ہی انکار کردیتے ہیں تاکہ احادیث کو ماننے یا نا ماننے کی بحث ہی ختم ہو جا ئے۔۔۔۔۔ان میں اکثر وہ عالم و فاضل ہوتے ہیں جو دو سو برس پر محیط سائینس، منطق، ریاضی یا ادب کے پچاس ساٹھ ہزار مقالات تو خوش دلی سے قبول کرلیتے ہیں جو پانچ چھ سو ماہرین سے منسوب ہوتے ہیں اور جو تنازعہ و تنسیخ و تجدید سے مبرا نہیں ہوتے ، لیکن تقریبا ڈیڑھ ہزار سالہ عرصہ پر محیط علم الحدیث کے لاکھوں حوالوں کو، روایتوں کو اور اسناد کو ، جو کروڑوں متقی پرہیز گار ماہرین دین سے ثابت ہے، قبول کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ کیا صرف اس لئے کہ اس کا بے حد قلیل حصہ اختلافات کا شکار رہا ہے؟ یا اس لئے کہ ان علوم کی وسعت و گہرا ئی میں غوطہ خوری کا یارا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ یا انکے انحراف سے کوئی مادی نقصان کا خوف نہیں ہوتا ۔۔۔پھر یہ حضرات دلائل بھی ایسے دیتے ہیں کہ خود انکی اپنے پیشے میں مہارت پر شک ہونے لگتا ہے۔۔۔

المیہ یہ ہے کہ منکرین احادیث میں کچھ ایسے مفکر و مصنف، عالم وفاضل اور پروفیسر حضرات بھی ہوتے ہیں جن کا شمار اساتذہ اور معلمین میں ہوتا ہے، اور حیف اس بات پر کہ ان سے معاشرہ شخصیت سازی کی توقع رکھتا ہے ۔۔۔ان حضرات کا معاملہ دوسرے منکرین احادیث سے ذرا مختلف ہوتا ہے کہ یہ ایمان مفصل پر جا کر رک جاتے ہیں۔۔۔۔ بے شک یہ توحید و قرآن اور آنحضرت کے خاتم النبین ہونے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور اچھے انسان بھی ہوتے ہیں، لیکن دین کی تکمیل کو قرآنی احکامات تک محدود کردیتے ہیں۔۔۔۔ان کے لئے سوال یہ ہے کہ کیا یہ دین اسلام کو ایک کامل نظام حیات سمجھتے ہیں یا صرف مذہبی عقاید و عبادت اور احکامات پر مشتمل کوئی مذہب؟ اگر یہ دین اسلام کو ایک کامل نظام حیات سمجھتے تو پھر اپنی تمام تر قابلیت اور علمیت کی بنا پر یہ بھی سمجھتے کہ منطقی ، علمی، سائینسی یا ریاضی کے اصولوں کے مد نظر دنیا کا ہر ایک نظام اولا ایک تحریر شدہ جامع اصول و قواعد سے متعارف ہوتا ہے، جس میں اسکی غرض وغایت کے علاوہ اسکے نفاذ کے تمام بنیادی پہلووں کو پیش کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ پھر یہ نظام ایک تشریح شدہ تحریر کا متقاضی ہوتا ہے جس میں عملی کارروا ئی کی تفاصیل اور شواہد رقم ہوتے ہیں ، کم از کم اتنی تفصیل کے ساتھ رقم ہوتے ہیں کہ اسکو پڑھنے ، سمجھنے، سمجھانے، سکھانے والے اور اسکے نافذ کرنے والے آئیندہ اس نظام کے نفاذ کی کامیابی کا صحیح تعین اور پختہ تیقن کرلیں۔۔۔۔بلکہ اسکی کامیابی کی یقین دہانی کرانے کے لئے اس نظام کا ایک پروٹو ٹائپ بھی ٹیسٹ کر لیں۔۔۔ اور ہر قسم کے منفی و مثبت، صحیح و غلط فیصلوں کو اور پروٹو ٹائپ کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں اور تنازعات سے حاصل شدہ ضروری نکات کو بھی اصول و قواعد میں شامل کر لیں۔۔۔۔ تاکہ جب جب اور جہاں جہاں اس نظام کا نفاذ کیا جانا طے ہو کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں۔۔۔۔ اسقدر تفصیل و حفظ ما تقدم کا خیال تو تہذیب جدیدہ کا ہر ایک پیشہ ور اپنے اپنے شعبہ میں اور نظام میں رکھتا ہے ، بلکہ کامیاب نفاذ کے لئے اسے از حد ضروری سمجھتا ہے۔۔۔ اور مذکورہ اصول و قواعد اور پروٹو ٹائپ ٹیسٹ کی غیر موجودگی کو نفاذ میں ناکامی سے تعبیر کرتا ہے۔۔۔۔ تو کیا دین اسلام جو ایک جامع نظام حیات ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ ان اصول و قواعد سے مبرا ہوسکتا ہے؟ بلکل نہیں۔۔

کیا منکرین احادیث دین اسلام کے نظام حیات کو یونا نی دیو مالائی یا کوئی طلسماتی مذہب کی طرح نافذ کرنا چاہتے ہیں؟۔۔۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت کے وصال کے بعد سنت و احادیث کے حوالوں کے بغیر اس نظام حیات کا نفاذ صرف قرآنی احکامات سے ممکن تھا۔۔۔ تو پھر انہیں ثابت کرنا چاہیے وہ کس طرح ممکن تھا۔۔۔۔اصحاب کرام کے علاوہ اسے اور کون نافذ کر کے دکھا سکتا تھا؟ ۔۔۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ احادیث کی سند اور افادیت سے انکار کرنے والے عالم و فاضل حضرات کے پاس اس بات کا کیا حل ہے جس بات سے یہ انحراف کررہے ہیں ۔۔۔۔کیا کوئی اور متبادل ہے ؟۔۔۔ایسے تمام عالم و فاضل اور پیشہ ور حضرات علوم جدیدہ کے اس کلیہ سے انکار نہیں کرسکتے کہ۔۔۔ کسی بھی ثابت شدہ یا وسیع پیمانے پر مستعمل طرز فکر و عمل سے انحراف اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوتا جب تک اس کا مناسب حل یا متبادل بھی بحث و مباحثہ اور دلایل کے ساتھ پیش نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔نظام حیات کی تشریح اور اس کا نفاذ تو دور احادیث مبارکہ اور اصحاب کرام کے حوالوں کے بغیر نماز ہی پڑھکر دکھا دیجیے، یا پھر غسل یا کم از کم وضو ہی سہی۔۔۔احادیث مبارکه اور اصحاب کرام اور خلفا ئے راشدین کے حوالوں سے صرف اس وجہ سے انحراف کرنا اور انہیں اسلامی تاریخ سے خارج کردینا کہ بشری تقاضوں اور مختلف انسا نی فتنوں سے پیدا شدہ کچھ تنا زعات اوراختلافات واقع ہوئے ہیں ۔۔۔ یہ کوئی علمیت اور حکمت کی علامت نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔علم الحدیث کے اصول و قواعد کا گہرا ئی سے مطالعہ کرنے کے بعد تو مستند احادیث کی کثیر تعداد سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔۔۔ انہیں اصول و قواعد کی بنیاد پر آخر تہذیب جدیدہ کے تمام علوم و فنون بھی تو ٹکے ہوئے ہیں ۔۔۔جس میں تاریخ، سائینس، فلسفہ ، ریاضی ، منطق، طبیعات، معاشیات ، ہندسہ ، تعمیرات بلکہ ان پر دنیا کے سارے علوم کا دارومدار ہے ۔۔۔۔ یہ سارے اصول حوالوں اور ماضی کے "ریفرنسس" ہی تو ہیں ، جن میں اکثر منسوخ شدہ ، تبدیل شدہ ، متنازعہ ، غیر مستند اور غیر مکمل ہوتے ہیں اور پھر بھی قابل قبول و نفاذ بلکہ قابل تحسین ہوتے ہیں ، اور تہذیب جدیدہ میں کامیابی کی نشانی مانے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تہذیب جدیدہ کا پروردہ کوئی مسلمان علم الحدیث کے اصولوں پر یقین نہیں کرتا ہے اور احادیث مبارکہ کے مستند ہونے پر شک کرتا ہے تو پھر اسے دنیا کے تمام علوم و فنون میں بھی شک ہونا چاہیے ۔۔۔

منکرین احادیث میں چند ایسے بھی ہیں جو درمیان میں سے قران کی ایک آیت لے کر اس کا حوالہ پیش کردیتے ہیں، اور تشریح بھی اپنے من مطابق کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔ ان میں اکثر سورہ مائدہ کی آیت ۔۔۔الیوم لکم دینکم ۔۔۔ کا حوالہ دیتے ہیں۔۔ لیکن سورہ کے سیاق و سباق ، اسکے پس منظر، وقت اور شان نزول ، تسلسل آیات، تفاسیر وغیرہ سے اعراض برتتے ہیں ۔۔ کیونکہ انہیں مفسرین و محدثین و ایمہ و علمائے کرام کی عرق ریزی اور انکے تقوی پر اعتماد نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اور ان کے خیال میں سند یافتہ روایات کی غیر موجودگی میں وہ جیسے چا ہیں تشریح و تفسیر کرسکتے ہیں ۔۔۔ لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتےہیں کہ خود انکی اپنی تفسیر و تشریح اور انکے دعوے کو پرکھنے کے لئے کوئی کسوٹی تو درکار ہے ۔۔۔وہ کسوٹی کیا ہوسکتی ہے؟ کیا یہ خود اپنی سند قرآن سے ثابت کرسکتے ہیں ۔۔ ان سوالوں کا جواب ان حضرات کے پاس نہیں ہوتا ۔۔ لیکن ان کا جواب قرآن و سنت و حدیث میں ہے جو ان حضرات کے خلاف جاتا ہے ۔۔ جو حضرات قرآن سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دین کی تکمیل آنحضرت کے وصال تک محدود تھی تو وہ ضرور اسلام کو بطور ایک مذہب ہی قبول کرتے ہونگے، لیکن جو دین اسلام کو ایک مکمل نظام اور جامع ضابطہ حیات سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ سنت و احادیث ہی احکام الہی کی تشریح کا واحد وسیلہ ہے۔۔۔۔ اور اصحابہ کرام اور خلفائے راشدین ہی اس کے پروٹو ٹائپ اورکامیاب نفاذ کا واحد ذریعہ رہےہیں۔۔۔۔ اس پروٹو ٹائپ کے تمام اوصاف اسلامی نظام کے کامیاب نفاذ کی تکمیل کا حصہ ہیں، اور بظاہر نظر آنے والے نقائص ، آپسی تنازعات و اختلافات میں مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے لئے نصیحت ۔ مثالیں اور نمونے ہیں۔۔۔۔بے شک اصحاب کرام اور خلفا ئے راشدین جیسی جلیل القدر ہستیاں اسلامی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہیں اور مابعد حکمرانوں اور بادشاہوں کی مسلمانی تاریخ میں انہیں شامل کرنا انکے مقامات و افضلیت سے انکار کرنا ہے۔۔۔سنا ہے چند منکرین، اصحاب کرام کی تقلید کی سند قرآن سے چا ہتے ہیں ۔۔۔اگر انہوں نے کما حقہ قرآن کوسمجھ کر پڑھا ہوتا تو اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔۔ اصحاب کرام کے اعلی مقامات و افضلیت اور انکی تقلید کی اسناد قرآن میں رضوان الله تعالی ، السابقون الا ولون، اور اولی الامر کے علاوہ اور بھی دیگر کئی قرآنی اصطلاحات اور آیات سے ثابت ہے ، جسے سمجھنے کے لئے تہذیب جدیدہ کے پروردہ کسی ماہریا پیشہ ور کو قرآن و حدیث میں عرق ریزی کرنا ہوگی۔۔۔ اور قرون اولی سے اب تک کروڑوں ماہرین علم دین ، مصنفین ، محدثین اور فقہائے کرام کے دینی کارہائے نمایاں پر تحقیق کرنی ہوگی، جن میں اصحابہ کرام اور تبع تابعین کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ ان ہزاروں اختلافات کا مطالعہ بھی کرنا ہوگا جس کی بنیاد الله کی خوشنودی پر قائم تھی اور جس کا اختتام اکثر اجماع پر ہوا ہے۔۔۔ اور پھر اس کے بعد ان تمام حضرات کے تقوی کو، ان کے مسلسل حوالوں کو، انکی تحریروں کو اورانکے مباحثات کو چیلنج کرنا ہوگا۔۔اور اگر پھر بھی انحراف ہوا تو ایک متبادل حل پیش کرنا ہوگا۔۔۔اور یہ چیلنج کوئی تہذیب جدیدہ کے علوم و فنون کے زعم میں مبتلا احمق تو کرسکتا ہے، لیکن کوئی تعلیمیافتہ متقی سمجھدار قرآن و سنت میں مکمل ایمان رکھنے والا مسلمان ہرگز نہیں کرسکتا۔۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے۔۔۔با لکل اسی طرح جیسے کوئی علم الطبیعات کو سرے سے صرف اس لئے خارج کردے کہ اس میں چند حوالے، تجربات، مشاہدات یا مقالات منسوخ، غیر مستند، ناکام یا اختلافات کا شکار ہوئے ہیں۔۔۔اور اسی بنیاد پر کوئی ادب ، سائینس اور ریاضی جیسے علوم سے بھی انکار کرسکتا ہے جو ایک غلط طرز فکر و عمل مانا جا ئے گا ۔۔۔۔۔

کوئی احادیث کی اہمیت سے صرف اس لئے انکار نہیں کرسکتا کہ چند احادیث کی روایات درجہ میں یا سند میں مستحکم و اعلی نہیں ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اصحاب کرام کی اہمیت و فضیلت سے صرف اس لئے انکار کرسکتا ہےکہ وہ جنگ جمل یا صفین کے پس پردہ حقائق سے نالاں ہے یا غلط فہمیوں کا شکار ہے ۔۔ یا اس لئے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ حب علی اور بغض معاویہ کی کشمکش میں مبتلا ہے ، یا مسالک و مکاتب فکر کے وجود میں آنے کا ذمہ دار ایمہ و فقہا ئے کرام کو سمجھتا ہے۔۔۔ یا امت میں موجود مختلف فرقوں اور فتنوں کو جید علمائے کرام کی کوتاہیوں سے منسوب کر نا چاہتا ہے۔۔۔ اگر وہ ان معاملات و واقعات کو لے کر منکر حدیث ہورہا ہے تو پھر اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اس دنیا کو دارلامتحان نہیں سمجھتا ۔۔۔۔ بلکہ دنیا کو جنت بنانے کا تقاضہ کر رہا ہے۔۔۔۔وہ الیوم لکم دینکم کو نظام حیات کے اصولوں کی تکمیل کے بجا ئے تکمیل دنیا سمجھ بیٹھا ہے۔۔۔۔ا یکم احسن عملا ۔۔۔ کے احکام سے فرار چاہتا ہے ۔۔ تقوی اور پرہیز گاری کو بشری تقاضوں اور مشیت الہی کےدائرے سے باہر سمجھتا ہے ۔۔۔۔ الغرض وہ دنیا کو اپنے من مطابق دیکھنا چاہتا ہے ، اور ایسا تو ایک عام ان پڑھ مسلمان بھی چا ہتا ہے ۔۔۔۔ لیکن کم از کم وہ ان عالم و فاضل حضرات کی مانند احادیث سے انکار نہیں کرتا اور نہ ہی اصحاب کرام کی سند مانگتا ہے ۔۔۔اور نہ ہی فتنوں کا ، امتحانات کا، اور مشیت الہی کا انکار کرتا ہے۔۔۔۔ اکثر تہذیب جدیدہ کے بڑے بڑے سند یافتہ عالم و فاضل حضرات کو "اوبجیکٹیو" کے بجا ئے مختلف " اپروچ " سے الجھتے دیکھا گیا ہے ۔۔بے شک اپروچ ۔ کی اہمیت اپنی جگہہ ہے لیکن اسے اوبجیکٹیو پر فوقیت نہیں دی جا سکتی، ورنہ انسان اپنے مقصد سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔۔۔مومن کے لئے اصل اوبجیکٹیو خدا کی خوشنودی ہی ہے ۔۔ اس کے بارے میں غور فکر کرنا ۔۔اس کی مشیت کو اسکی سنت کو اسکی تخالیق کو سمجھنا ضروری ہے۔۔۔اور اسی میں ایمان کے رموز پوشیدہ ہیں اور اسی میں حکمت نہاں ہے ۔۔۔وہی تمام جانے انجانے علوم کا منبع ہے ، وہی علم و ہدا یت کا سرچشمہ ہے۔۔ اور گمراہ ہوں یا ہدایت یافتہ، سب کو ہدایت ہو یا شرح صدر اسی سے حاصل ہوتا ہے ۔۔۔۔

یہ تحریر کسی ثانوی جماعت کے طلبہ کے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے نہیں پیش کی گئی ہے، نہ ہی اندھی عقیدت میں مبتلا کسی مسلک کے پیروکار کے لئے ، نہ ہی کسی مدرسہ سے فارغ دینی عقائد و ایمان میں پختہ عالم کے لئے پیش کی گئی ہیں۔۔۔ کیونکہ ایسے تمام حضرات کو ان مثالوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔اور نہ ہی کسی عام مسلمان کو ہوتی ہے۔۔۔ یہ مثالیں ان عالم و فاضل حضرات کے لئے پیش کی گئی ہیں جو غور و فکر کے مراحل سے گزر چکے ہیں۔۔۔۔ اور مختلف دنیاوی علوم کو نچوڑ کر پی چکے ہیں، تجربات و مشاہدات کے مختلف ادوار سے گذر کر شخصیت سازی کا فن جانتے ہیں اور علم بانٹتے ہیں لیکن منکر حدیث ہیں، یا دین اسلام کی تکمیل کو آنحضرت کے وصال تک محدود کرکے اسلام کو صرف مذہب بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ یا پھر اصحابہ کرام کی افضلیت کو فرشتوں اور معصوم عن الخطاء کے ترازو میں تول کر انکے کارہا ئے نمایاں اور انکے مقام سے انحراف کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ منکرین احا دیث قرآن و حدیث و فقہ کے دلائل سے کبھی قائل نہیں ہوتے، اور نہ ہی کبھی مطمعین ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن ان کے لئے مذکورہ مثالوں سے حقائق اور نتایج اخذ کر لینا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔۔اگر حق کو قبول کر نے کا یارا ہو تو !
۔۔۔ وما توفیقی الا باللہ

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

psychological problems of Hadith rejectors. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں